بچوں کی نفسیات کیسے بنتی ہے اور ان کے بچپن میں بیتے واقعات و حادثات ان پہ کیسے اثر انداز ہو تے ہیں۔ زندگی جب نشیب یا فراز کی طرف مستقل سفر کرنے لگے تو سمجھ جانا چاہیے کوئی واقعہ زندگی کے دھارے بدلنے والا ہے۔ حالات کبھی بھی ایک سے نہیں رہتے۔ اچانک زلزلےآتے ہیں تو پہاڑ اور زمین بھی وحشی لگتے ہیں۔
ڈراما ’وحشی‘ رضیہ بٹ صاحبہ کے ناول وحشی پہ مبنی ہے جس کی ڈرامائی تشکیل شمائلہ زیدی نے کی ہے اور ہم ٹی وی اس حساس نوعیت کے ڈرامے کو پیش کر رہا ہے۔
ڈرامے میں سات بچے ہیں۔ ان کی سماجی حیثیت کی بنیاد پر کہانی ترتیب دی گئی ہے جو ان کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
یہ ان عام گھروں کی کہانی ہے جہاں ایک کمانے والا اور درجن بھر کھانے والے ہوتے ہیں اس لیے کمانے والے کا درد کھانے والے اور کھانے والے کا درد کمانے والا نہیں سمجھ سکتا۔
اورجب درد بانٹنے والا کوئی نہ ہو تو وہی ہوتا ہے جو مجیب کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہو کر دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا کو کچھ کہے بنا چھوڑ گیا۔
چونکہ وہ سماجی مرد ہے اس لیے اس کو اپنا وارث چاہیے تھا جو نہ مل سکا۔ اس کے گھر بیٹے پیدا نہ ہو سکے اوروہ اپنی دوسری بیٹی کو ’منحوس‘ سمجھتا اور کہتا رہا۔
اسی ذہنی دباؤ میں وہ اس چھوٹی سی بچی کو مارتا بھی تھا جس کی وجہ سے بیٹی کو بھی باپ سے نفرت ہو گئی اوروہ بد مزاج اور ضدی لڑکی بنتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف منیب ہے۔ اس کی ایک اچھی نوکری ہے۔ پروموشن ہو رہی ہے۔ زندگی اچھی سے اچھی ہوتی جا رہی ہے۔ بیوی سے محبت ہے۔ بچے سے پیار ہے ایک مکمل اورآئیڈیل زندگی کا پیکج جو کوئی بھی مرد یا عورت اپنے لیے سوچ سکتا ہے۔ لیکن اچانک سٹریٹ کرائم کا شکار ہو جاتا ہے اور ملزموں کی گولی کا نشانہ بن کر بے وقت کی موت کی کہانی بن جاتا ہے۔
بیوی منیرہ اور بچہ آصف چونکہ صد فی صد منیب پہ منحصر تھے لہذا یک دم زندگی بدل کر رہ جاتی ہے۔
اب ماں منیرہ کو اپنے بھائی کے گھر واپس جانا پڑتا ہے۔ وہاں منیرہ کی بھابھی اسے قبول نہیں کرتیں اور بھائی کے بچوں اور ان کے بیٹے آصف کے درمیان عمومی بچوں والے لڑائی جھگڑوں سے آصف منفی طور پہ متاثر ہونے لگتا ہے۔
ظاہر ہے انہوں نے اپنے گھر میں راج کیا ہے۔ غربت، مار کٹائی نہیں دیکھی ہوئی۔ جب بچے کو ممانی پہلی بار مارتی ہیں وہ اس کی اور ماں کی زندگی اور سوچ کا رخ بدل دیتا ہے۔
ڈرامے کی اہم بات یہی ہے کہ کرداروں کے پس منظر میں ان کے بچپن کی محرومیاں اور موجودگیاں، ان کی زندگیوں پہ کیسے اور کیا اثر ڈال سکتی ہیں یہ سب پیش کیا گیا ہے۔ گویا تصویر کا کبھی نہ نظر آنے والا رخ دکھایا گیا ہے۔
ابھی ایک بچہ مجیب کے بھائی کا بھی ہے جس کی ماں کا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔
ابھی تک کی اقساط سے ایک بات واضح سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی کسی وقت بھی کوئی رخ بدل سکتی ہے۔
اگر اچھا ہو سکتا ہے تو کچھ نامناسب بھی ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم اپنے بچوں اور خصوصی بیٹیوں کو اچھے اچھے خواب تو دے دیتے ہیں کبھی یہ نہیں بتاتے کہ زندگی میں طوفان بھی آ سکتے ہیں، نہ ہی ان طوفانوں کے لیے ان کو تیار کرتے ہیں۔
اس لیے اگر زندگی میں کچھ فانی والا ہو جائے تو ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ لاوارثوں کی طرح دربدر ہو جاتے اور دوسروں کے رحم و کرم پہ آ جاتے ہیں۔
نہ ان کے پاس ہنر ہو تا ہے نہ علم کی دولت کہ وہ اپنے قدموں پہ کھڑے ہو کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں، اپنے بچوں کے لیے کچھ کر سکیں۔
لہٰذا پیغام تو سیدھا و صاف سا ہے کہ وقت اتنا بدل چکا ہے کہ ایک مرد اتنا بڑا کنبہ اکیلے چلا بھی سکتا ہو تو اپنی بیٹیوں کو علم و ہنر اور اعتماد دیں کہ اگر خدانخواستہ کل کو زندگی کا طوق گلے میں پڑ جائے تو ان کا آخری سہارا بھائیوں کا گھر نہ ہوجہاں نئے آنے والے رشتے ان کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ معاشی ہی ہے۔
منیرہ اپنے بھائی کے بچوں کی وہی پھوپھی ہے جس کے آنے سے بچے اور بھابھی اس لیے خوش ہوتے تھے کہ وہ ان کے لیے قیمتی تحائف لاتی تھی جو وہ خود نہیں لے سکتے لیکن بیوہ ہو نے کے بعد چونکہ بھائی کی کمائی کی مجبوراً حصے دار بن جاتی ہے اس لیے وہ قبول نہیں ہو رہی۔
مجییب کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی کو اس کی ماں نے پاکستان واپس بلا تو لیا ہے لیکن وہ اس کے بچوں کے لیے مجیب کی جگہ نہیں لے سکے گا۔
مجیب کی بیٹی ہو یا مینب کا بیٹا آصف پچپن کی مارکٹائی سے ان کی ایک متشدد نفسیات ڈرامے کی اگلی اقساط میں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
ایسے بچے اپنی ذات میں سب کچھ حاصل کر لینے کے باوجود ادھورے رہ جاتے ہیں کیونکہ زندگی میں مادیت کا حصول تو ان کا اپنا یا ان کے گھر والوں کی بقا کے لیے ضروری تھا جو انہیں متحرک رکھتا ہے۔ لیکن بقا کی اس جنگ میں وہ زندگی نہیں جی پاتے، نہ زندگی ان کوچھونےدیتی ہے۔
اگر ہم نے سوچ نہ بدلی، سماج نہ بدلا تو ہم اس افراتفری کے دور میں بہت سے مجرم پیدا کرنے کے ذمہ دار خود ہوں گے۔
جب یہ ناول لکھا گیا تھا تب ہم نے اس افراتفری والی مشینی اور صعنتی زندگی میں قدم رکھا تھا۔ پہیہ کتنا تیز اور سفاک چلے گا اس کا اندازہ اب جس قدر ہے اس وقت اتنا نہیں ہو گا یہی ایک مصنف کی ذہنی وسعت ہوتی ہے کہ وہ آنے والے حالات اور مسائل کی وقت سے قبل نشان دہی کر دیتا ہے لیکن اس وقت ہم مصنف کو مریض سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
جب سماج میں مرض بڑھتا ہے تو مصنف مسیحا بن جاتا ہے۔
ڈراما تو چل جائے گا چار سے چھ ماہ کی بات ہے لیکن زندگیاں آدھی صدی کی اذیت بن جاتی ہیں۔
اپنے بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی زندگی کے ہم قدم چلنے کے قابل بنائیں تاکہ نسلیں بقا کا سفر جاری رکھ سکیں۔
اور حالات کسی بچے کو وحشی نہ بنا سکیں۔
جگر مراد آبادی نے کتنے سادہ سے لفظوں میں یہ بات کہہ دی تھی،
تم اس دل وحشی کی وفاؤں پہ نہ جانا
اپنا نہ رہا ہو جو، وہ کسی کا نہ رہے گا