شک کی زمین پہ چلتے رشتے ٹوٹ ہی جاتے ہیں۔ اعتماد کی ایک اندھی قوت ہے جو رشتوں کو مضبوط بنائے رکھتی ہے. اس کو ٹوٹنے مت دیجیے ورنہ زندگی میں گڈو جیسے بچوں کی روح آپ کی زندگی کا سکون چھین لے گی۔
ڈراما سیریل ’گڈو‘ میں مرکزی کرداروں عباد اور نایاب کی طلاق شک کی بنیاد پہ ہوئی ہے اور طلاق کے بعد گڈو، نایاب اور عباد ذہنی طور پہ بیمار ہوتے جا رہے ہیں۔
شک ایسا بیج ہے جس کے ساتھ تباہی کی فصل ہی پروان چڑھتی ہے۔ یہ وہ مچھلی ہے جو زندگی کے سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔
شک سے عباد اور نایاب کا گھر خراب ہوا۔ عباد کی چھوٹی بہن سدرہ کا گھر بھی اس طرف جا رہا ہے۔ طلاق کے اثرات گھروں پہ اور بچوں پہ کیا ہوتے ہیں یہی اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے۔
گڈو جو مرکزی کردار ہے، اس نے پہلے ماں کی جدائی کا غم سہا ہے۔ اب باپ کی جدائی اور دادی اور پھوپھی کے رویوں سے اس نے نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پھوپھا نوید کی عیاش طبیعت الگ بچے کو دیکھ کر مچل مچل رہی ہے۔
بس موقع ہاتھ نہیں لگ رہا کہ ایسا نشہ کرنے والا، بیوی کا زیور اور پیسا چوری کرنے والا شخص کب بچے کو اپنے نیت بد کی بھینٹ چڑھا دے۔
سدرہ ہر صورت گڈو کا خیال رکھتی ہے مگر بھائی کو کچھ نشاندہی کر دیتی ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
عباد طلاق دیتے ہوئے ایک باحیا سماجی مرد تھا، جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ بیوی تو دوبارہ مل جاتی ہے مگر ماں بہن نہیں ملتے، لیکن جناب بچوں کی ماں بھی دوبارہ نہیں ملتی۔ ان لڑکوں کو یہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حد یہ کہ ڈراما بھی ان کو یہ نہیں بتا رہا۔
طلاق کے اس ایک حادثے کے بعد اب عباد کی کمزوری بھی اس کے بہنوئیوں کے ہاتھ آ گئی ہے۔ وہ اس کی دونوں بہنوں کو واپس بھیج کر طلاق دینے کی دھمکی دے کر لاکھوں کی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جو عباد ایک غیرمنطقی سے وعدے پہ دینے پہ آمادہ ہو جاتا ہے ۔
جس کی وصولی کے لیے اس کی ماں بھی درپردہ اپنی بیٹیوں کی طرف دار ہے اور وہ اپنا پورا حصہ ڈالتی ہے کہ ان کا بیٹا بہنوں کو طلاق کا داغ لگنے سے بچا لے چونکہ عباد خود اس درد سے گزر رہا ہے اس لیے انسانی سطح پہ تو یہی چاہتا ہے کہ ایسا کچھ نہ ہو۔
پورے ڈرامے میں بھائی بھائی کی ڈرامائی تکرار شروع ہو گئی ہے۔ نایاب کا بھائی اس کے حق میں فیصلہ کرے گا۔عباد اپنی بہنوں کے حق میں اچھا فیصلہ کرے گا۔
اگرڈرامے میں ہی مرد کے سارے فیصلے سمجھ داری کی بنیاد پہ ہوتے تو عباد اور نایاب کی طلاق نہ ہوتی۔ اس کی بہنوں کو یہ نکمے شوہر نہ ملتے۔
نایاب کا بھائی اپنی بیوی کی نیت سمجھ جاتا۔ عباد پہ اپنے گھر والوں کے بھید کھل جاتے۔
محبت جرم نہ ہوتی اور آنکھوں دیکھی حقیقت بھی گواہی کے کچھ سوال کرتی۔ جذباتی فیصلے نہ کیے جاتے تو یہ ڈراما وقت پہ ہی ہیپی اینڈنگ کے ساتھ ختم ہو جاتا۔
مرد کو اتنی برتری دے کر ہی گھر کے اندر سیاست کی جا سکتی ہے جو ڈرامے میں دکھائی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جو مان کے رشتے ہوتے ہیں انہیں مان پہ براجمان ہی اس لیے کیا جاتا ہے کہ وقت ضرورت ان کو بہت سلیقے سے قربانی کا بکرا بنایا جا سکے۔
اس چوہدراہٹ کی قیمت پھر وہی ہوتی ہے جو عباد کو طلاق دے کر ادا کرنا پڑی ہے۔
عباد دبئی چلا گیا ہے اور اس کی ماں اس کا بچہ لے کر اپنے نکمے دامادوں کے پاس چلی گئی ہے۔ نایاب کا بھائی خاندان سمیت شارجہ جا رہا ہے اور حسن اتفاق سے نایاب کی سہیلی کی بیٹی اس کی فین ہوگئی ہے۔ سہیلی کی وفات ہو گئی ہےم جس کے بعد سہیلی کے شوہر نے بیٹی کی خاطر اپنی بیوی کی سہیلی نایاب کو بیوی بنا لیا ہے۔
گھر آتے ہی نایاب کو اس کی نئی ساس نے سنا دیا کہ وہ خود کو اپنی سہیلی کے مقام پہ مت سمجھے۔
نایاب کی بھابھی نے ایک بار پھر جھوٹ بول دیا کہ نایاب کا بچہ پیدا ہوا تھا، جو مر گیا۔ نایاب کو یہ سن کا دھچکا لگا کہ اس کے بھائی نے بھی جھوٹ کا ساتھ دیا ہو گا۔
وہ جو کہتے ہیں کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، کہانی وہاں پہنچ گئی ہے لیکن ان سب مسائل کو پیش کرتے کرتے مصنفہ کی گرفت کہانی پہ ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ نئے کردار نئی کہانیاں لے کر آ رہے ہیں اور بنیادی کہانی کو الجھا رہے ہیں۔
کہانی کیسی بھی ہو اسے درد اور سکون کا بیلنس دے کر چلنا پڑتا ہے۔
سماج جس ڈگر پہ بھی گامزن ہو مصنف کو امید اور زندگی کی نئی راہوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے جو تاحال دکھائی نہیں دے رہا۔
اگلی اقساط میں ممکن ہے ایسا دکھائی دے کیونکہ نایاب کی دوسری شادی کروانا ضروری تھا۔
ایسی کہانیوں میں عورت کی آخری آرام گاہ شوہر کا گھر ہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ کیسا بھی ہو، بھلے مجبوری کے رشتے ہوتے ہوں یا دوری کے۔ ایک چھت شوہر کے نام کی ہونی چاہیے۔
جب تک یہ سوچ زندہ رہے گی تب تک ’سچا پیار نہیں ملا‘ والی سوچ بھی لہلہاتی رہے گی۔
نایاب کو اس کی سہیلی کے شوہر کی صورت ایک ساتھی مل گیا ہے، لیکن عباد کی زندگی جہنم بنی رہے گی۔ بس کہانی کار مرد سے انتقام لے رہا ہے اور ناظر ڈرامے کی حد تک کتھارسس کر رہا ہے، ورنہ اصل زندگی میں عورت کی زندگی جہنم بنتی ہے جبکہ مرد کو جلد دوسری عورت مل جاتی ہے۔
یوں لگ رہا ہے جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں اور زمین پہ ملتے بچھڑتے رہتے ہیں لیکن انسانی اخلاقیات و سوچ والی سرحد وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔
خیر جناب ہم نے سن رکھا ہے کہ آپ کے پاس جو ہو گا آپ وہی تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں کافی حد تک سماج کا منفی رویہ تقسیم ہوا ہے۔ مثبت کے پھولوں سے بھی تاحال نفی کے بیج پیدا ہو رہے ہیں۔
رخسانہ نگار سکرپٹ رائٹر ہیں اور سیونتھ سکائے انٹرٹمینٹ اس ڈرامے کو پیش کر رہا ہے۔
ڈرامے کی ایک قسط روز جیو انٹرٹینمنٹ سے نشر کی جا رہی ہے جس میں سین زیادہ ہوتے ہیں، کہانی کم ہوتی ہے۔
سین بھی ایک گھر کے ایک کمرے سے نکلتا ہے اور دوسرے گھر کے دوسرے کمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
مرد کے کردار اپنی تمام تر برتری کے باوجود کمزور ہیں۔ بیویوں ماؤں بہنوں کے پہلو میں بیٹھے ملتے ہیں۔ عورت عقل عیار سے جیسے شاطر سلطنت چلا رہی ہے۔
اداکاری کافی مصنوعی پن کا شکار ہے۔ میک اپ تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سب کو ایک ہی سانچے میں ڈال ڈال کر نکال دیا گیا ہو۔
ڈراما ہے، دیکھا تو جانا ہے مگر توجہ دے لی جاتی تو کتنی ہی زندگیوں کو بدلنے کا سبب بن جاتا۔
چہرے بدل بدل کر کہانی سنا گئے
دود والم فراق مری جان کو آگئے