لوٹی ہوئی دولت کو متعلقہ ممالک کے سپرد کرنے کا سلسلہ کانسی کے ایک مرغے اور کانسی کے ایک سر والے اوبا خاندان کے شاہی مجسمے کی واپسی سے شروع ہوا۔
اگرچہ نائجیریا طویل مدت سے برطانوی اداروں میں رکھے اپنے لوٹے گئے کانسی کے نوادرات (جنہیں بینین برونز کہا جاتا ہے) کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، لیکن گذشتہ برس کے آخر تک نائجیریا کے ہاتھ خالی ہی رہے تھے۔ اس وقت تک یہ صورت حال ایسی ہی رہی جب یونیورسٹی آف ایبرڈین اور کیمبرج یونیورسٹی کے جیزس کالج نے گذشتہ برس اکتوبر میں نائجیریا کے حکام کو ایک ایک چیز کی ملکیت منتقل کر دی۔
یہ دونوں نوادر 1897 میں بینن کی شاہی حکومت کو سزا دینے کے لیے برطانیہ کی فوجی مہم کے دوران لوٹے گئے تھے، اس مہم کے نتیجے میں بےشمار لوگ تباہی سے دوچار ہوئے اور بہت سا ثقافتی خزانہ لوٹا گیا۔
تقریباً 125 برس بعد ایسے نوادرات ان کے اصلی ممالک کو لوٹانے کے وعدے میں برطانیہ یورپ کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ مثال کے طور پر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے نومبر 2017 میں کہا تھا کہ وہ افریقہ کی وراثت پیرس سے واپس ’ڈاکار، لاگوس اور کونٹونو‘ میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن برطانوی رہنما کسی ایسے عندیے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
اس کے باوجود برطانیہ میں بھی چیزیں واپس اصل ممالک کو بھیجنے کی حمایت زور پکڑ رہی ہے۔ ایبرڈین اور کیمبرج کے واپس کرنے سے ایک سال کے عرصے سے بھی کم کے دوران ’ہارنی مین‘ برطانیہ کا حکومتی مالی امداد سے چلنے والا پہلا میوزیم بن گیا جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ درجنوں اشیا نائجیریا کو واپس لوٹائے گا۔
اگست کے اوائل میں موزیم کے ٹرسٹیز کی سربراہ ایو سیلومن نے بتایا کہ بورڈ کے تمام اراکین اس بات پر کیوں متفق تھے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کے شواہد بہت واضح ہیں کہ یہ اشیا طاقت کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں اور بیرونی مشاورت نے ہمارے خیال کی تائید کی کہ نائجیریا کو انہیں لوٹا دینا اخلاقی ذمہ داری اور درست فیصلہ ہے۔‘
اس معاملے میں ہارنی مین کو مشاورت فراہم کرنے والی لا فرم بیٹس ویلز سے وابستہ ایریکا کرمپ کہتی ہیں کہ ’ہمیں امید ہے کہ یہ فیصلہ مالی امداد سے چلنے والے اداروں کو اشیا واپس کرنے کے مطالبات پر بات چیت کرنے کا اعتماد اور یہ سمجھنے میں مدد کرے گا کہ چیرٹی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ان فیصلوں کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔‘
چیرٹی کمیشن سے اجازت لینے کے ساتھ ساتھ ہارنی مین جیسے عجائب گھروں کو ممکنہ طور پر ڈیپارٹمنٹ فار ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹ (ڈی سی ایم ایس) سے بھی رہنمائی کے لیے رجوع کرنا پڑے گا۔
کرمپ کہتی ہیں کہ ’ڈی سی ایم ایس‘ سے مشاورت کی گئی تھی اور ہارنی مین کے فیصلے کے حمایتی ممکن ہے رویے کی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہوں۔‘
ایبرڈین اور کیمبرج کی طرف سے اشیا کی واپسی میں اہم کردار ادا کرنے والے نائجیریا کے پروفیسر اور انٹلیکچوئل پراپرٹی سے متعلقہ قوانین کے ماہر بینکولے سوڈیپو کا خیال ہے کہ برطانیہ میں ایک فیصلہ کن لمحہ آ پہنچا ہے جو برٹش میوزیم جیسے گریزاں اداروں پر مزید دباؤ بڑھائے گا۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’جو کچھ اب ہو رہا ہے میں اس پر بہت خوش ہوں۔ لوگ کہہ رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے، اب وقت آ گیا ہے۔‘ ایبرڈین نے بینن کے کانسی کے نوادرات کی واپسی کے لیے ان سے رضاکارانہ معاونت کی گزارش کی تھی۔
وہ نائجیریا کے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے اور اس عمل کو ہموار طریقے سے انجام تک پہنچانے میں سرخرو ہوئے۔ اوبا کا محل (اوبا دراصل بینن سلطنت میں ایڈو برادری کے روایتی حکمران اور کانسی کے نوادرات کے اصل مالک ہیں)، ایڈو کی مقامی ریاست اور وفاقی حکومت سبھی مذاکرات میں شامل تھے۔
بعد میں جیزس کالج کیمبرج نے کئی دہائیوں سے اپنے ڈائننگ ہال میں رکھے کانسی کے مرغ کی واپسی کے لیے سوڈیپو سے یہی کردار ادا نبھانے کا کہا۔
دونوں واقعات میں ان کا کردار ان کے ابتدائی نام کے مطابق تھا جس کا سوڈیپو کے بقول مطلب ہے، ’گھر بنانے میں مدد کرنا۔‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایبرڈین اور کیمبرج کی کامیابیاں تو محض نقطہ آغاز ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’مجھے یہ اچھا لگتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی تو یہ ابتدا ہے۔ ابھی بہت سارا کام ہونا باقی ہے۔ وہ سب املاک کتنی قیمتی ہیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
بینن کانسی نوادرات کو سلطنت کے شاہی خاندان کی رسومات اور مذہبی طور طریقوں میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ایبرڈین یونیورسٹی کے عجائب گھروں کے سربراہ نیل کرٹس نے فروری میں ایک ویڈیو کے ذریعے دیکھا کہ ایڈو ریاست کے اندر اوبا کے کانسی کے سر کو ڈبے سے باہر نکالا جا رہا تھا۔ اس سامان کی روانگی کے لیے درکار ضروری برآمدی اجازت نامہ حاصل کرنے اور نائجیریا پہنچنے میں چار مہینے لگ گئے تھے۔
کرٹس کہتے ہیں ’یہ بہت شاندار تھا۔ اسے واپس اپنے گھر میں پہنچا ہوا دیکھنا ایک جذباتی لمحہ تھا۔ اسے شاہی محل میں اوبا کے سامنے رکھا ہوا دیکھنا انتہائی زبردست تھا۔‘
کینیڈا کے اولین شہریوں پر مشتمل قبیلے کینائی کو 2003 میں ایک رسمی تاج واپس کرنے سمیت ان کی یونیورسٹی کو اس سے پہلے بھی اپنے ذخیرے سے اشیا واپس بھیجنے کا تجربہ تھا، تاہم اس بار فرق یہ تھا کہ یونیورسٹی نے کسی دعوے دار کے مطالبے کے بغیر خود ہی یہ اقدام اٹھایا۔
کرٹس نے شد و مد سے اس بات پر زور دیا کہ عجائب گھروں کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ بینن کانسی نوادرات جیسی لوٹی ہوئی اشیا واپس کریں۔ انہوں نے دیگر اداروں کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ متحرک رہیں اور دوسرے ممالک میں مقیم متاثرہ برادریوں سے بات چیت کا آغاز کریں۔
مگر عجائب گھر کے مہتم کا خیال ہے کہ ایبرڈین کو اپنے اقدامات کا کریڈٹ نہیں لینا چاہیے۔ ان کے بقول، ’لوگ کہتے ہیں، اوہ تم نے سب سے پہلے (بینن کانسی نوادرات واپس کرنے کا) قدم اٹھایا۔ جی ہاں مگر 125 سال کی تاخیر سے۔ یہ بہت سست رفتار ہے اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔‘
تاہم کرٹس کو امید ہے کہ دیگر عجائب گھر ان کی یونیورسٹی کے اٹھائے گئے اقدامات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ’ممکن ہے میری بات درست نہ ہو لیکن میرا خیال ہے ہم نے سب کی رضامندی سے ایک نیا راستہ وضع کیا جو ایک انقلابی قدم ہے اور جسے دوسرے عجائب گھر استعمال کر سکتے ہیں۔‘
اگرچہ کرٹس کوئی مخصوص وقت نہیں بتاتے لیکن ان کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں اشیا واپس کرنے کا رجحان معمول بن جائے گا۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’جزوی طور پر یہ ایک معمول کی سرگرمی بننے جا رہا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو عجائب گھر کرتے ہیں، ان چیزوں کو واپس کرنا جو ان کے پاس نہیں ہونی چاہییں، اپنے ذخائر کے بہترین استعمال کو جاننے کے لیے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا۔‘
جیزس کالج کیمبرج میں انسان، سماج اور سیاسیات کی لیکچرر ویرونیکے موٹیئر کی بھی ایسی ہی رائے ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’رجحان بدل رہا ہے۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ ہم اپنے ماضی کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔‘
موٹیئر نے لیگیسی آف سلیوری پارٹی (ایل ایس ڈبلیو پی) کی جانب سے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، جو ان کے کالج نے نوآبادیاتی تاریخ سے اپنے روابط کا پتہ لگانے کے لیے 2019 میں قائم کی تھی۔ اس سے کئی برس قبل کالج کی طلبہ تنظیم کانسی کا مرغ نائجیریا کو واپس کرنے کی قرارداد منظور کر چکی تھی۔ ایل ایس ڈبلیو پی کی سرفہرست ذمہ داریوں میں سے ایک یہ جانچنا تھا کہ نوادرات کے ساتھ کیا کیِا جانا چاہیے۔ موٹیئر کہتی ہیں، ’جب ایک بار ہمارے پاس تاریخی معلومات جمع ہو گئیں تب بات واضح تھی۔ اساتذہ کے دائرے میں بھی اس فیصلے کو وسیع حمایت ملی۔‘
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز لوٹی گئی تھی مگر اس کا قبضہ برطانوی فوج پر 1897 میں لاگو ہونے والے نسل پرستانہ قوانین کے تحت غیر قانونی نہیں تھا کیونکہ موٹیئر کے مطابق دیگر مغربی طاقتوں کے خلاف جنگ کے یہ قوانین الگ اور دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے الگ تھے۔
یہ مشکل بھی آسانی سے حل کر لی گئی۔ موٹیئر کہتی ہیں، ’ہماری دلیل یہ تھی کہ ضروری نہیں جو قانون کے مطابق ہو وہ ہمیشہ اخلاقی طور پر بھی درست ہو اور یہ کہ آج کے زمانے میں اس قسم کی دلیل کا دفاع کرنا اخلاقی اعتبار سے ناقابل دفاع ہو گا۔‘
گذشتہ برس 27 اکتوبر کو واپس کرنے کی تقریب کے دوران موٹیئر نے اپنی تقریر میں نائجیریا کے وفد سے ان کے ملک کو اتنے عرصے تک اس چیز سے محروم رکھنے پر معذرت کی۔
وہ کہتی ہیں، ’ہمیں احساس ہوا کہ محض واپسی کافی نہیں۔ اعتراف بھی کرنا چاہیے اور معافی کی بھی ضرورت ہے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ موقع بہت جذباتی تھا لیکن جذبات تہہ در تہہ تھے۔ ’ایک طرف ہم پرجوش تھے کہ بینن کانسی آخر کار اپنے وطن لوٹ رہا ہے۔ ہمیں بہت فخر تھا کہ جیسس کالج دنیا کا پہلا ادارہ تھا جس نے بینن کانسی کا تمغہ واپس کیا۔ ایک احساس یہ بھی تھا کہ ممکنہ طور پر ہم کچھ نیا کر رہے ہیں۔
’لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تکلیف دہ احساس بھی تھا کہ ہم نے اس چیز کے حقداروں کو اتنے عرصے سے محروم رکھا ہوا تھا۔ اپنے مہمانوں کی یہ باتیں سننا کہ وہ کس طرح اپنے آبائی ورثے سے محروم ہوئے بہت تکلیف دہ تھا۔ وہ لمحہ کتنا اہم تھا جب اس کی اپنے وطن واپسی ہوئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نائجیریا کے قومی کمیشن برائے عجائب گھر و یادگاری کے سربراہ ابا تیجانی بھی ایڈو ریاست اور اوبا محل کے مندوبین کے ساتھ ایبرڈین اور کیمبرج کی تقاریب میں موجود تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں مواقع ’انتہائی خوشی، جوش اور جذباتی کیفیات سے لبریز تھے۔‘
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’یہ وہ چیزیں ہیں جو 1897 میں لوٹی گئی تھیں۔ اب نائجیریا 125 برس بعد پہلی مرتبہ ان نوادرات کو اپنے قبضے میں لے رہا تھا۔‘
ابا تیجانی کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک کی سمجھ میں یہ بات آ چکی ہے کہ لوٹی ہوئی اشیا پر قبضہ جما کر بیٹھے رہنا، جسے وہ ’نوآبادیاتی سلسلے کا تسلسل‘ کہتے ہیں، اب ممکن نہیں۔
ایبرڈین، کیمبرج اور ہارنی مین کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’مجھے یقین ہے یہ برطانیہ کے دوسرے عجائب گھروں کے لیے راستہ ہموار کریں گے کہ وہ ان کی پیروی کریں۔‘
نائجیریا کے قومی کمیشن برائے عجائب گھر و یادگاری عمارات کے سربراہ کہتے ہیں جن عجائب گھروں نے بینن کانسی نوادرات پر قبضہ جما رکھا ہے اگر وہ ان پر اپنی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہو جائیں تو ایسا نہیں کہ انہیں خالی کر دیا جائے گا۔ ہم ان میں سے کچھ اشیا ادھار کے طور پر ان کے پاس رہنے دیں گے۔ کچھ چیزیں سامنے سجی نظر آتی رہیں گی جس کا مطلب ہے وہ کسی چیز کی کمی نہیں محسوس کریں گے۔‘
وہ بطور مثال برلن میں جرمنی کے ہمبولٹ فورم کا حوالہ دیتے ہیں جس نے سینکڑوں نوادرات نائجیریا کو واپس کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ باہمی تعاون کی علامت کے طور پر لاگوس اس ادارے کو کانسی کی کچھ اشیا بطور ادھار رکھنے کی اجازت دے گا۔‘
تیجانی کا کہنا ہے کہ لائبنز، کولون اور شٹٹگارٹ سمیت کئی شہروں کے عجائب گھروں سے جلد ہی مزید معاہدے طے پا جائیں گے۔ ان کے مطابق جب یہ ہوا تو جرمنی کے مختلف ذخائر سے بہت سے بینن کانسی اجتماعی طور پر مغربی افریقہ بھیج دیئے جائیں گے۔
انہیں نائجیریا میں کہاں رکھا جائے گا، یہ بات ابھی تک واضح طور پر طے نہیں ہو سکی۔ ایبرڈین اور کیمبرج سے اشیا کی واپسی میں اہم کردار ادا کرنے والے نائجیریا کے ماہر قانون سوڈیپو کا کہنا ہے کہ اوبا کے محل، ایڈو ریاست اور لاگوس کو جلد یہ معاملہ طے کر لینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں، ’نائجیریا سے غلط طریقے سے لیے گئے بینن کانسی اور دیگر ثقافتی املاک کو رکھنے کے لیے ہمیں جدید عجائب گھر بنانے کی ضرورت ہے۔‘
تیجانی مجھے بتاتے ہیں کہ ایسے معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق کچھ چیزیں موجودہ بینن سٹی نیشنل میوزیم میں آویزاں ہوں گی جبکہ دیگر کی منزل اوبا کے محل کی ملکیت والی زمین پر ایک نیا عجائب گھر ہو گا۔
نائجیریا کے قومی کمیشن برائے عجائب گھر و یادگاری عمارات کے سربراہ کہتے ہیں کہ مؤخر الذکر ادارے کے حوالے سے ابھی معاہدہ ہونا باقی ہے لیکن ایک خیال یہ کہ موجودہ عمارات میں سے کسی کو منتخب کر لیا جائے۔ اگر اس پر پیش رفت ہوتی ہے تو یہ اگلے سال کے اوائل تک تیار ہو گی۔
ان کی آخری منزل سے قطع نظر بینن کانسی نوادرات کو واپس کرنے کا مشکل کام گذشتہ چند برسوں کے دوران قابل ذکر رفتار سے آگے بڑھا ہے۔ اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ان کی واپسی کے لیے حالات اب کیوں موافق ہیں پہلے کیوں نہ تھے۔
انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ لا (ای اے ایل) کے ڈائریکٹر اور اشیا کی واپسی سے متعلق امور کے ماہر الیگزینڈر ہرمن کا کہنا ہے کہ اس کا جواب کثیر الجہت ہے۔
کتاب ’ریسٹیٹیوشن: دی ریٹرن آف کلچرل آرٹیفیکٹس‘ کے مصنف کا خیال ہے نازیوں کی لوٹی ہوئی اشیا کے متعلق عجائب گھروں کے رویے میں ’گہری تبدیلی‘ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہرمن کے مطابق نتیجتاً اب ادارے بالعموم اشیا کی اصلیت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مقامی گروہوں کی اپنے ورثے کے دوبارہ حصول کے لیے کامیاب مہمات اور اسی طرح لوٹے گئے نوادرات کے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیار کردہ سخت رویے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ابھی گذشتہ ہفتے نیویارک کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے حکم دیا کہ 16 ملین پاؤنڈ مالیت کی اشیا اٹلی کو واپس کی جائیں۔
ہرمن کا مزید کہنا تھا کہ عالمی وبا نے بھی ایک کردار ادا کیا۔ ڈیجیٹلائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر لوگوں کے عجائب گھروں سے متعلق تاثرات بدل گئے ہیں، اب وہ انہیں ’اشیا رکھنے کے علاوہ دیگر مقاصد‘ کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ہرمن کا کہنا ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت اور ’بلیک لائیوز میٹر‘ موومنٹ کا ابھرنا بھی اہم وجوہات تھیں کیونکہ انہوں نے افریقہ اور نسلی بنیادوں پر ہونے والی ناانصافی کو نمایاں کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب ہمیں اشیا کی واپسی کے نئے بہت سے کیسز کی توقع کرنی چاہیے تو آئی اے ایل کے ڈائریکٹر نے مجھے کہا، ’میں یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ آیا اگلے چند برسوں میں بہت سے دعوے ہوں گے۔ یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہو گا کہ ہارنی مین، ایبرڈین اور کیمبرج کے فیصلوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا یہ دائرہ بینن کانسی نوادرات سے آگے پھیلتا ہے، کیوں کہ ابھی تک ساری توجہ انہی پر مرکوز ہے۔‘
بینن کانسی نوادرات کی واپسی کے حق میں دلائل مغرب کے ذخائر میں موجود کچھ دیگر اشیا کے مقابلے میں شاید زیادہ واضح ہیں۔ جیسا کہ ہرمن وضاحت کرتے ہیں کہ پرتشدد تاریخی واقعات واپسی کا امکان زیادہ سہل بنا دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’جب آپ ماضی میں ہونے والے لین دین سے نمٹ رہے ہوں تو یہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ جب کم از کم ظاہری طور پر کوئی چیز خریدی گئی تھی، اس کا تبادلہ کیا گیا تھا یا برابر کے وارثوں کے درمیان گفت و شنید ہو۔ یہ ہیں وہ مقامات جو زیادہ پیچیدگی کے حامل ہیں۔‘
فی الحال نائجیریا اور بینن کانسی نوادرات توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، لیکن تیجانی کے خیال میں یہ تحریک جلد ہی پھیلے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’میرے خیال میں اس وقت نائجیریا قیادت کر رہا ہے۔ ہم نے پیش قدمی کی ہے۔ مجھے یقین ہے بہت سے دوسرے ممالک بھی اس سلسلے میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔‘
© The Independent