ایک عرصے سے پاکستانی ٹیلی ویژن پر ایسے ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں جن میں عورت کو سدا کی مظلوم اور مرد کو جابر اور ظالم کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔
ایسا ہے ایک ڈراما ’بیٹیاں‘ ہے جو آج کل آے آر وائی پر روزانہ کے حساب سے چل رہا ہے۔
بیٹیاں آج کل کا ڈراموں کا سب سے مقبول موضوع ہے لیکن سب ہی محتاج قسم کی لڑکیوں کی کہانیاں ہیں جن کے خواب زیادہ اور عمل لاحاصل خواب ہے۔
سماج اور گھر میں موجود رشتے ان کے سامنے دیوار بنے ہوئے ان کی زندگیوں کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں اور اس کنٹرولنگ سسٹم کو نصیب کہا جاتا ہے۔ کبھی یہی نظام کارگر ہو جاتا ہے کبھی یہیں سے بات بگڑ جاتی ہے۔
ڈراما ’بیٹیاں‘ ہر روز اے آر وائے سے نشر کیا جا رہا ہے۔ روز پیش کیے جانے والے ڈراموں کی طرح اس کی کہانی بھی سست روی کا شکار ہے۔
یہ ڈراما ایک ایسے گھر کی کہانی ہے، جہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔ پانچ چھ بیٹیاں ہیں۔
ابا کی ایک بہن گھر میں رہتی ہے۔ دادی ہیں یوں مل کر ایک ایسا مشترکہ خاندانی نظام بنتا ہے جس میں ایک مرد ہے، بچیوں کی ماں بھی نہیں ہے۔
ابا بچیوں سے پیار تو کرتے ہیں لیکن ایک سماجی مرد والا دباؤ ان کو سماجی باپ والی سختی سے بھی بھر دیتا ہے۔
گھر کی حد تک وہ پھوپھو اور دادی کے فیصلوں پہ اپنی سوچ کو فوقیت دیتے ہیں۔
ان کے اس رویے کو نوجوان لڑکیوں اور مشترکہ خاندانی نظام میں موجود خواتین خوب سراہ رہی ہیں۔
کم ازکم والد کی اتنی حمایت ہی مل جائے تو بیٹی کے لیے کوہ نور سے کم نہیں ہوتی۔ وہ ان کی اچھی جگہ شادی بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن بدلتے وقت کا تغیر قبول بھی نہیں کر رہے، اپنی روایات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پھر بھی جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں جدت پسندی کا ساتھ ڈنکے کی چوٹ پہ دیتے ہیں۔
اگرچہ یہاں ان کی ماں اوربہن روایتی سماج کا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے باپ کے سامنے بیٹیوں کی کردار کشی کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں اور اکثر ناکام ہو جاتی ہیں۔
وہ روایات جو ایک مڈل کلاس گھرانے کی معراج ہوتی ہیں، جسے مڈل کلاس نے دستار بنا کر اپنی اور دوسروں کی زندگی دشوار کر رکھی ہوئی ہے۔
کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ عائزہ کی شادی دانش سے ہو رہی تھی، جس کو دانش نے خود پسند کیا تھا جبکہ اسے اس کا کلاس فیلو پسند تھا۔
وہ دلہن بنی اپنے کلاس فیلو سے اس کے جھوٹ کی وجہ سے ملنے چلی جاتی ہے۔ اسے جذبات کی ہوا میں اڑنے والے پرندے کی طرح ٹھوکر لگ جاتی ہے۔
مجبوراً دانش کا نکاح اس کی بڑی بہن فزا سے کرنا پڑا، جس کو دانش پہلے ہی مسترد کر چکا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائرہ یونیورسٹی جاتی ایک ماڈرن سوچ و اطوار کی لڑکی ہے۔ لڑکوں کو ایسی لڑکیاں ہی نوعمری میں بھلی لگتی ہیں۔ ساتھ چلتا کون ہے یہ تو بعد میں پتہ لگتا ہے۔
اب دانش فزا کو قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ وہ واپس میکے جا چکی ہے کہ اچانک ایک بزنس میٹینگ کی مجبوری بنا کر مصنفہ اسے واپس دانش کی دہلیز پہ لے آئی ہیں۔
عائزہ دوبارہ یونیورسٹی جانے لگی ہے اور وہی لڑکا اس کو یونیورسٹی میں روک کر ایسے سوال جواب کر رہا ہے جیسے عدالت ہو۔
عجیب یونیورسٹی ہے، ایسے واقعات پہ یونیورسٹی انتظامیہ طلب کر لیتی ہے لیکن یہاں کہانی عشق کی پرواز پہ سوار ہے۔ اس لیے اس میں بہت سی ٹیکنیکل کمزوریاں ہیں۔
کچھ اخلاقی کمزوریاں بھی اگلی اقساط میں در آنے کا امکان ہوا ہے جو موجودہ ڈرامے کو کہانی دینے کے ساتھ ساتھ سماج کو خرابی دینے کوموجد ہوں گی۔
جونیئر اداکاروں کو بھی اپنے فن پہ توجہ کی ضرورت ہے۔
پھوپھی جان کی شادی چونکہ ناکام ہے۔ اب انسان کے پاس جو ہو گا وہ وہی بانٹے گا لہٰذا وہ اپنا درد گھر کی سیاست میں تقسیم کر کے گھر کے ماحول کو آلودہ رکھتی ہیں۔
نہ سکھ کا سانس خود لیتی ہیں نہ بھتیجیوں کو لینے دیتی ہیں۔
یہ گھر کی سیاسیات کا ڈراما ہے مقبول تو ہو گا کیونکہ جیسے ملکی سیاست کا نظام نہیں ہل رہا ویسے گھریلو سیاست کا نظام بھی جوں کا توں قائم ہے۔ زندگی کو اچھا بنانے کے لیے نظام کو دھکا لگانا ہو گا۔
دانش کا چھوٹا بھائی فارس بھی پاکستان واپس آ گیا ہے۔ وہ واحد انسان ہے جس کو اپنی بھابھی سے کوئی ہمدردی ہے جو اس کی ماں کو کھٹک رہی ہے۔
مجموعی طور پہ ہر ڈرامے کا ایک ہی حاصل دکھائی دیتا ہے ’بیٹیاں بوجھ ہیں‘ پہلے والدین اتارتے ہیں۔ اس کے بعد سسرال والے بھی اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عورت کو عزت نفس مٹا کر اپنی زندگی جینی پڑتی ہے میکہ ہو یا سسرال۔ کاش ہم ایسے ڈرامے بھی بنائیں جہاں سسرال ایک اچھی جگہ ہو۔ میدان جنگ نہ ہو، عورت ایک تنہا سپاہی نہ ہو، جسے وہاں جا کر جنگ لڑنی ہے اور جیت کر دکھانی ہے، چاہے اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
بیٹیوں کے دکھ اس لیے ہائی لائٹ ہو جاتے ہیں کہ سماج مردانہ ہے، ورنہ بیٹے بھی اپنی جگہ اتنے ہی دکھی اور مظلوم ہوتے ہیں۔ جب ان کے دکھ درد کو سمجھا نہیں جاتا تو وہ جابر بنتے ہیں
لہٰذا مسلہ سماج کا ہے۔
اس ڈرامے میں آدھے مسائل پھوپھو جان کی محرومی کی وجہ سے ہیں اگر ان کی دوسری شادی کر دی جاتی تو ان کے اندر اکلاپے کا زہر بھتیجیوں کے لیے نہ بھرتا۔
وجہ یہ ہے کہ بیٹی کا جہاں اور ہے بہن کا جہاں اور۔
ہیرو دو تین ہیں لیکن سب اینگری مین، سنجیدہ، زندگی سے دور، اپنی الگ زندگی میں مست ادھورے کردار جیسے۔
زندگی سے خالی مرد دیکھ کر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے شاید لکھنے والی عورت مرد کے کردار میں اترنے کی بجائے اسے اپنی نظر سے دیکھتی ہے۔
ارے یار مرد بھی بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ گھر سے باہر بھی ان کا ایک سرکل اور مسائل و وسائل ہوتے ہیں جو ہرڈرامے میں غائب ہوتے ہیں سو یہاں بھی ہیں۔ مردانہ گفتگو کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ جیسے زنانہ الگ ہوتا ہے لیکن اس کا شدید فقدان ہے۔
جو کچھ ہو چکا ہےاب عائزہ اس پہ نادم ہے اور اپنے بہنوئی سے معافی مانگ کر اپنے احساسِ جرم کو کم کرنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف اس کا کلاس فیلو اسی کے عشق میں پاگل ہوئے جا رہا ہے کہ اپنی ماں سے بھی رابطہ نہیں کر رہا۔
دانش فزا کو طلاق دینا چاہتا ہے اور اس کا بھائی فارس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایک انسان کی وجہ سے دوسری زندگی خراب نہ ہو، لیکن ان کے والد کا موقف وہی روایتی ہے کہ ہمارے خاندان میں طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا یہ ناممکن ہے۔
فزا اور اس کے دیورفارس کی کیمسٹری کافی میچ ہے اور معلوم ہوتا ہے جو فیصلہ دانش نہیں کر سکا اس کی بیوی کر دے گی۔
فارس ایک واحد مکمل مردانہ نارمل کردار ہے باقی سب خشک جنگل ہے جس کا کوئلہ بھی روایات کی نمی سے ڈرامے کو ڈپریشن بنائے ہوئے ہیں۔
پھر بھی ڈراما مقبول ہے کیونکہ ہمیں مظلوم عورتوں کی کہانیاں کا چسکہ لگ گیا ہے کہ اب تو مرد اداکار انٹرویوز میں کہنے لگے ہیں کہ مرد کو ایسا مت دکھایا جائے۔
لیکن کوئی مرد اداکار ایسا کردار کرنے سے انکار کیوں نہیں کرتا؟ جیسے فیروز خان نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر ڈرامے میں مرد کو جانور نہ دکھاؤ۔‘
لہٰذا خصوصی خواتین مصنفین اور چینلوں کو یہ بات غور کرنا چاہیے کہ وقت اگر نہیں بدل رہا آپ ڈراما بدل دیں۔ کردار بدل دیں۔ شعور دے دیں۔ ایک نیا معاشرہ تشکیل دے کر ماڈل سوسائٹی کا خواب بنا دیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ریٹنگ کے چکر میں ہم معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں؟