منٹو نے لکھا ہے ’مرد کا دل عمرو عیار کی زنبیل کی طرح ہوتا ہے۔ ہزاروں عورتیں اس میں سما جائیں، گنجائش باقی رہتی ہے۔‘
گرچہ ہمیں اس بات سے دھیما دھیما اختلاف ہے مگر یہ ڈراما ایک ایسے ہی مرد پہ بنایا گیا ہے جس کے حسین خیالات ہیں۔
’بیوی تو ایک بے ضرر مخلوق ہوتی ہے۔ سارا گھر سنبھالتی ہے۔ اپنےشوہر پہ اندھا اعتماد کر تی ہے۔ پیار کے دو بول، بول دو خوش ہو جاتی ہے۔
نخرہ تو تم جیسی محبوبہ کا ہے۔ بندہ سر دھڑ کی بازی لگا دے خوش ہی نہیں ہوتی، تم بہت ظالم ہو۔‘
جس کو یہ محبوباؤں کا چسکہ پڑ جائے وہ ظالم چھوٹتا نہیں۔ یہ نشہ نہ رشتے دیکھتا ہے، نہ ناطے اور جتنا تجربہ کار مرد ہوتا ہے اتنی ہنر مندی سے جال پھینکتا ہے۔ اسے عورت کو پھانسنا آ جاتا ہے۔ اس کے جذبات، خواہشات سے کھیلنا آجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عورت سمجھنے لگتی ہے اسے اس ہیرو سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو جادو گر ہے۔ حال دل جان لیتا ہے۔
مگر وہ تو تجربہ کار شاطر ہوتا ہے جال ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جسے ٹی وی پہ برتنا دشوار ہے مگر سلیقے سے پہلی 12 اقساط تک تو اس کردار یعنی شہیر کی روشن مگر متجسس پرتیں کھولی گئی ہیں جبکہ ڈرامے کا پہلا ہی سین کسی اور کہانی کی گواہی دے رہا تھا۔
شہیر ایک بہت امیر آدمی ہے۔ وہ کلاس جو بغیر سکیورٹی گارڈز کے اپنی ایک اکیلی گاڑی میں نہیں نکل سکتی۔
شہیر ادھیڑ عمری کے طرف جا رہا اور اس کی دادی جہنوں نے اسے اس کے والدین کی وفات کے بعد پالا ہے وہ چاہتی ہیں کہ اب وہ کسی لڑکی کو پسند کر لے اور شادی کر لے لیکن شہیر صاحب جیسے مرد کو شادی میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی لہذا وہ ٹالتا رہا۔
ہر چند کہ اپنی دادی کے لیے وہ بہت احتیاط کرنے والا، تابعدار، سلجھا ہوا پوتا ہے لیکن شاید اس کی ایک وجہ خاندانی کاروبار کی پارٹنر شپ بھی ہو، جو اگلی اقساط میں کھل کرسامنے آئے گی۔
شہیر ڈراما دراڑ کا اصل کردار ہے جسے ہیرو یا ولن تو نہیں کہہ سکتے مطلب پرست اور موقع پرست سماج کا استعارہ کہنا مناسب ہو گا۔
یہ جو دو نمبر قسم کے کام ہوتے ہیں۔ بہت ایمانداری اور اعتماد سے ہوتے ہیں یونہی شہیر اپنی زندگی میں عورت کو لانے کے لیے پہلے ایمان داری سے اعتماد بحال کرتا ہے۔
اس کے بعد سرپرائز گفٹس دیتے ہوئے ان لڑکیوں کی حیرتوں کے مزے لیتا ہے۔ ان پہ دولت خرچ کرتا ہے اور آخر میں جا کے اپنا مقصد اس طرح سامنے رکھتا ہے کہ انکار یا نکل جانے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا۔
مجبور لڑکیوں کے خواب خریدتا ہے، غریب لڑکیوں کے شاہی خوابوں کی بولی لگاتا ہے۔ ان کو خواب نگر تک لاتا ہے اور پی جاتا ہے۔
اسی ساری کردار سازی میں ارحا جو ایک مڈل کلاس کی لڑکی ہے اور ایک انشورنس کمپنی میں کام کرتی ہے، محض اتفاقات زندگی کے باعث وہ شہیر جیسے شاطر سے ٹکرا جاتی ہے۔
ارحاکو اس کے والدین کی وفات کے بعد چچا چچی نے پالا، پڑھایا لہذا اب اس کے ذہن میں کسی عام لڑکی کی زندگی والا کوئی خواب نہیں ہے۔
اسے لاشعوری طور پہ کما کر اپنے چچا کا سہارا بننا ہے اور چچی کے پالنے کا احسان بھی گھر کے کام کر کے چکانا ہے۔
اس کے ماضی میں اس کی ماں کا کوئی زندگی جی لینے والا ،سماج کے خلاف قدم ہے جو اس کے لیے طعنہ بن ہوا ہےاور وہ ثابت کرنے میں مگن ہے کہ وہ اپنی ماں جیسی نہیں ہے
لیکن ابھی یہ بھید نہیں کھلا کہ اس کی زندگی میں ایسا کیا گزر چکا ہے۔
اس کے برعکس سجل جو ارحا کی کزن ہے، تایا زاد ہے۔ وہ سفید گھوڑے پہ آنے والے شہزادوں کے خواب نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اسے پورا یقین ہے کہ وہ خواب پورے بھی ہو جائیں گے۔
اس کی ماں نے بھی اسے یہی اعتماد دیا ہے کہ وہ چوں کہ ارحا سے بہت حسین اور ماڈرن ہے۔ اس کی شادی شہزادے سے ہی ہوگی اور وہ ماں سے پل پل یہ مطالبہ بھی کرتی رہتی ہے کہ وہ اس کے لیے امیر سا شہزادہ تلاش کرے۔
اپنی کلاس کو بدلنے کے لیے وہ یونیورسٹی کے امیر دوستوں سے نہ صرف دوستی رکھتی ہے بلکہ وہ ان ڈانس پارٹیوں کو بھی انجوائے کرتی ہے جو کبھی اس کا خواب تھیں۔
اپنی دوست کی شادی پہ اس کے ساتھ شاپنگ کرتے ایک جیولری کی دکان سے ہیرے کی انگوٹھی چوری کر لیتی ہے اور سہیلی کو تحفہ دے دیتی ہے۔
سی سی ٹی وی کیمرے سے پولیس اس کے گھر تک پہنچ جاتی ہے اور گرفتار کر لیتی ہے ۔ یہ شہیر کے لیے دوسرا موقع ہے کہ وہ ارحا کو متاثر کرسکے۔
یہ معرکہ بھی مکمل ہو جاتا ہے۔
سجل کی اسی امیر سہیلی کی شادی پہ ارحا اور شہیر کی دادی کی ملاقات ہو جاتی ہے یوں ارحا کو بطور بیوی شہیر کی زندگی تک رسائی ہو جاتی ہے۔
حالانکہ سجل اور اس کی ماں چاچا قیدو بننے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر ارحا کے چچا سب کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں یوں سجل ایک محل نما گھر کی مالکن بن جاتی ہے اور تحفے میں اس کی بزنس پارٹنر بھی۔
اب شہیر صاحب شادی کے بعد اپنی کسی پرانی محبوبہ کے بیڈ روم میں پائے جاتے جہاں اس کے اندر کا مرد اصل میں پورا بے نقاب ہوتا ہے۔
وہ جو ایک مصنف منٹو گستاخ ہوا کرتا تھا یہاں اس کا لکھا جملہ پھر شدت سے یاد آ گیا ’میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی۔۔۔ سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا‘
جہاں خالی جگہ ہے اسے آپ آج کے دور کے حساب سے پر کر لیجیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ارحا سے شادی کے بعد شہیر نے مسلسل سجل پہ احسانات کر کے اسے بھی اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور اس کی گردن پہ ہاتھ رکھ کر زلفیں سنوارتے ہوئے اسے اس کی من چاہی زندگی کی آفر بھی کر دی ہے۔
سجل انکار نہیں کرسکتی کیوں کہ اس کے خوابوں کے شہزادے نے اس کو احسانوں کے بوجھ تلے دبا کر، اس کی زندگی کے در پہ خود دستک دے کر، خود ہی کھول دیا ہے۔
سجل ایک اور مجبور شکار پھنس چکا ہے۔
اب شہیر کے پاس جواز ہے کہ اگر وہ کلاس ون کی ڈانس پارٹیوں کو چوری چوری انجوائے کر سکتی ہے اس کے ویڈیوز کے ثبوت مل سکتے ہیں۔
کسی محلے دار کے ساتھ اس کی محبت نامی آفت کی تصاویر وائرل ہو سکتی ہیں تو شہیر کیوں نہیں۔
ڈراما پیش کرنے والوں نے طبقہ خاص دیکھا تو دیا مگر اس کلاس میں موجود رکھ رکھاؤ کو اپر مڈل کلاس والے نودولتی پن سے الگ نہیں کر سکے۔
نہ تو اتنا امیر مرد و زن اپنے شاپنگ والے برانڈڈ تھیلے اٹھائے پھرتے ہیں۔ ایک مال میں ہیں توبھی ملازم ساتھ پکڑ کر چلتے ہیں یا گاڑی میں رکھ آتے ہیں۔ ایک مال سے دوسرے میں جاتے ہوئے تو یہ تھیلے بالکل بھی ساتھ ساتھ لیے نہیں پھرتے۔
نہ ہی اتنا بڑا بزنس مین تھیلے اٹھائے گا اور ہیرے کی دکانوں میں چلا آئے گا۔
وہ تو اپنا بریف کیس اور اب کے حساب سے لیپ ٹاپ بیگ بھی نہیں اٹھاتا۔
دو فی صد کلاس پہ چند فیصد تحقیق تو کی جا سکتی تھی۔ یہ ماڈرن تھیلے کلاس کی نشانی دکھانا، ہائے۔
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ڈراما مصباح نوشین نے لکھا ہے اور ہر پل جیوسے نشر ہو رہا ہے۔
تکنیکی خامیاں دکھائی دے رہی ہیں مگر کہانی ان پہ چھائی ہوئی ہے۔
سفید گھوڑے پہ آنے والے شہزادے شہیر کے محلوں اور دولت کی کہانی، ان خواب دیکھنے والی لڑکیوں کے شعور پہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے۔
مگر کچھ یوں بھی ایسی خواب سجانے والیوں کے شعور کام کم ہی کرتے ہیں ان کے خواب زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔
دو فیصد طبقے میں شامل ہونے کی تمنا داغ داغ اجالا دیکھ لیں۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔