ایران کی اخلاقی پولیس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

ایران میں 1983 کے اسلامی انقلاب کے بعد ہی تمام بالغ خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا گیا تھا، البتہ اس کے نفاذ کے لیے باقاعدہ پولیس فورس کے قیام کی ضرورت 2006 میں محسوس کی گئی۔

2007 میں تہران میں اخلاقی پولیس کا ایک اہلکار ایک خاتون سے بات کر رہا ہے (اے ایف پی)

ایران کی اخلاقی پولیس، جو ’گشتِ ارشاد‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، 2006 میں قائم ہوئی تھی اور اس کا مقصد ان لوگوں کو گرفتار کرنا تھا جو لباس سے متعلق ایران میں رائج اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کریں۔

ایرانی قانون کے مطابق خواتین کو عوامی مقامات پر سر کو ڈھانپنا ضروری ہے۔

یہ پولیس فورس ستمبر میں مہسا امینی نامی 22 سالہ کرد خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے دنیا بھر میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔

ایران کی مہر نیوز ایجنسی پر پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے برے بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا کہ اب تک مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے ہنگاموں میں تین سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں مظاہرین کے علاوہ پولیس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

الجزیرہ اور اے ایف پی کے مطابق ایرانی اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ حکومت نے اس اخلاقی فورس کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

اخلاقی پولیس کب قائم کی گئی؟

ایران میں 1983 کے اسلامی انقلاب کے بعد ہی تمام بالغ خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا گیا تھا، البتہ اس کے نفاذ کے لیے باقاعدہ پولیس فورس کے قیام کی ضرورت 2006 میں محسوس کی گئی اور یوں ’گشتِ ارشاد‘ یا اخلاقی پولیس کا قیام عمل میں آیا۔

یہ خصوصی پولیس فورس کتنی سختی سے ان قوانین کا نفاذ کرواتی تھی، اس کا اندازہ 2014 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق اس سال اخلاقی پولیس نے دو لاکھ سات ہزار خواتین سے دستخط شدہ بیان لیے کہ وہ آئندہ حجاب پہنیں گی، 18 ہزار کیس عدالتوں کو بھیجے، جب کہ کل ملا کر 29 لاکھ کے قریب لوگوں کو ان کی قانون شکنی سے آگاہ کیا۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پولیس اپنی تعریف کے مطابق ’غیر اخلاقی‘ لباس پہننے کو تنبیہ کرتی ہے، اگر کوئی بار بار خلاف ورزری کرتا ہے تو اس سے تحریری طور پر آئندہ اس قانون کی پاسداری کا عہد لیا جاتا ہے، اور اگر کوئی اس پر بھی باز نہ آئے تو پھر اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

ایرانی قانون کیا کہتا ہے؟

ایران کی تعزیرات کی شق 638 میں لکھا ہے: ’کوئی شخص جو واضح طور پر کسی عوامی مقام پر کوئی بھی مذہبی قانون توڑتا ہے، اسے یا تو دس دن سے لے کر دو ماہ تک قید کی سزا ملے گی یا اسے 74 کوڑے لگائے جائیں گے۔

’کوئی بھی خاتون جو کسی عوامی مقام پر بغیر مناسب حجاب کے آئے، اسے دس دن سے لے کر دو ماہ تک قید کی سزا دی جائے گی، یا 50 ہزار تا پانچ لاکھ تومان جرمانہ کیا جائے گا۔‘

تاہم ’مناسب حجاب‘ کی کوئی تعریف قانون میں مقرر نہیں کی گئی، البتہ عام طور پر اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ عورتوں کا سر ڈھکا ہوا ہونا چاہیے، اور بازو اور ٹانگیں ملبوس ہونی چاہییں۔

قانون پر نفاذ کتنی سختی سے ہوتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسٹریلیا کے ڈیپارٹمنٹ آف فارن افیئرز اینڈ ٹریڈ (ڈی ایف اے ٹی) نے لکھا ہے کہ آرٹیکل 638 کے تحت سزائیں شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے، اور ’عملی طور پر بغیر حجاب خواتین کو تھانے لے جایا جاتا ہے اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو کو کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے لیے قابلِ قبول حجاب لے آئے، اس کے بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض اوقات بغیر حجاب خواتین کو پولیس کی جانب سے کلاسوں میں داخل کیا جاتا ہے جہاں انہیں قانون اور مناسب حجاب کے بارے میں لیکچر دیے جاتے ہیں۔

اسی طرح قانون پر نفاذ میں سختی میں وقت اور علاقے کے ساتھ اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔

ڈی ایف اے ٹی کے مطابق دسمبر 2017 میں حکام نے کہا تھا کہ پولیس ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار نہیں کرے گی۔ اس وقت ایرانی صدر روحانی تھے جن کی پالیسیاں اصلاح پسند اور معتدل تھیں۔ تاہم 2021 صدر ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سختی میں اضافہ ہو گیا تھا۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

کینیڈین حکومت کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اخلاقی پولیس دو طریقوں سے کام کرتی ہے۔ اس کے اہل کار گاڑیوں میں یا پیدل گشت بھی کرتے ہیں (اس کا اصل نام ہی گشتِ ارشاد ہے)، اس کے علاوہ انہوں نے چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں جہاں سے گزرنے والوں کو معائنہ کیا جاتا ہے۔

البتہ حالیہ برسوں میں ناکے کم اور گشت زیادہ ہو رہی ہے۔

2016 میں ’گرشاد‘ کے نام سے ایک موبائل ایپ بنائی گئی تھی جس میں لوگ اخلاقی پولیس کی لوکیشن درج کر دیتے تھے تاکہ وہاں سے گزرنے والوں کو خبر ہو جائے کہ آگے پولیس کا ناکہ ہے یا وہ فلاں بازار میں گشت کر رہی ہے اور لوگ خبردار ہو جائیں۔

تاہم ایرانی حکومت نے اس ایپ کو بلاک کر دیا۔

2019 میں ایرانی حکومت نے شاید اسی ایپ سے متاثر ہو کر خود بھی ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ اگر وہ کہیں ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی ہوتے دیکھیں  تو ایک مخصوص نمبر پر پولیس کو اطلاع کر دیں۔

اس کے علاوہ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق پولیس ٹریفک کیمروں کی مدد سے بھی بغیر حجاب یا غیر مناسب حجاب میں ملبوس خواتین کی نشان دہی کرتی ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت

16 ستمبر 2016 کو اخلاقی پولیس نے تہران یونیورسٹی کی طالبہ مہسا امینی کو مبینہ طور پر نامناسب حجاب پہننے پر گرفتار کیا کیوں کہ ان کے بال حجاب سے باہر نظر آ رہے تھے۔

دو روز بعد مہا امینی چل بسی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پولیس نے انہیں ایک وین میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ان کے بازوؤں اور ٹانگوں پر تشدد کے نشان تھے۔

اس واقعے کے بعد پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور دنیا کے کئی شہروں میں ایران خواتین کے حقوق کے سلسلے میں مظاہروں کی لہر پھوٹ نکلی، جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ایران میں ہونے والے کئی مظاہرے پرتشدد رخ اختیار کر گئے اور ان میں مظاہرین کے علاوہ پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ امریکہ کی وزارتِ خزانہ اور یورپی یونین دونوں نے اس کے ردِ عمل میں ایرانی گشتِ ارشاد پر پابندیاں لگا دی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا