16 جولائی 1950 کو ماراکانا سٹیڈیم میں یوروگوئے اور میزبان برازیل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ دیکھنے کے لیے تقریباً پونے دو لاکھ افراد جمع تھے۔ فٹ بال کی تاریخ میں تماشائیوں کا یہ سمندر پہلے دیکھنے کو ملا نہ بعد میں۔
میزبان ملک کی پہلی مرتبہ فائنل تک رسائی ہوئی اور خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ اپنے کھلاڑیوں کے لیے 22 گولڈ میڈل پہلے ہی تیار کیے جا چکے تھے۔ ایک مقامی اخبار نے میچ شروع ہونے سے قبل برازیلین ٹیم کی تصویر ’ورلڈ چمپیئن‘ کے نام سے چھاپ کر رکھ لی تھی۔
تماشائیوں کو اس وقت سانپ سونگھ گیا جب میچ ختم ہونے سے محض 11 منٹ پہلے یوروگوئے نے دوسرا گول داغ کر 2-1 کی فیصلہ کن برتری حاصل کر لی۔ شکست کا صدمہ ایسا گہرا تھا کہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق چند لوگوں نے خودکشی کر لی۔
برازیل کے ہر گھر کی فضا سوگوار تھی۔ ایسے ہی ایک گھر میں دس سالہ بچے نے دیکھا کہ اس کا باپ ریڈیو پر کمنٹری سنتے ہوئے اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔ وہ قریب آیا اور بولا ’بابا کیا ہوا؟‘
باپ کے اندر سے بمشکل ایک جملہ نکلا اور آواز ہچکیوں میں ڈوب گئی: ’برازیل ہار گیا ہے، ناقابلِ یقین۔‘ بیٹا حیران تھا کہ جس باپ نے ہمیشہ ہمت کا درس دیا وہ اچانک بے بسی کی تصویر کیسے بن گیا۔ اس نے کہا: ’بابا، مت روئیں، میں آپ کے لیے ورلڈ کپ جیت لاؤں گا۔‘
اس بچے کا نام ایڈیسن آرانتیس دو ناسیمینتو تھا جسے دنیا پیلے کے نام سے جانتی ہے۔
فیفا نے انہیں دنیائے فٹ بال کا ’عظیم ترین کھلاڑی‘ قرار دیا، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے انہیں ’ایتھلیٹ آف دی سنچری‘ کہا جبکہ برازیل کے لیے وہ ’قومی اثاثہ‘ تھے۔ ایک اثاثہ جو پوری دنیا میں دیوتا کی طرح پوجا گیا۔
ان سے لوگوں کی عقیدت کا آنکھوں دیکھا حال ان کے ساتھی کھلاڑی کلوڈوالڈو نے یوں بیان کیا کہ ’بعض ممالک میں لوگ ان کے لمس کے لیے بے قرار ہو جاتے تھے، بعض انہیں چوم لینا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ اس زمین کو بوسہ دیتے جہاں ان کا قدم پڑتا۔ (یہ دیکھ کر) مجھے لگا یہ خوبصورت ہے، انتہائی خوبصورت۔‘
لوگوں کی اس دیوانگی کا آغاز 1958 میں فٹ بال کے عالمی کپ سے ہوا جو اگلے دو عشروں میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ یوں تو فٹ بال کی محبت کم و بیش برازیل کے ہر فرد کے خمیر میں شامل ہے لیکن مذکورہ بالا واقعہ نے پیلے کا بچپن بدل کر رکھ دیا۔ کسے خبر تھی برازیل کے سوگوار ترین دنوں میں سے ایک نئے عہد کی بنیاد ثابت ہو گا۔
چیتھڑوں سے بُنا ہوا فٹ بال اور ننگے پاؤں پریکٹس کرتا بچہ
سیاہ فام طبقے سے تعلق رکھنے والے پیلے کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا، یہاں تک کہ فٹ بال خریدنے کے پیسے نہ تھے۔ شوق نے راستہ نکالا، چیتھڑوں اور پرانی جرابوں کو سی کر فٹ بال تیار کیا گیا۔
بچے نے ریزگاری جمع کرنے کے لیے فلم تھیٹرز کے باہر مونگ پھلی بیچنا شروع کر دی۔ کچھ عرصے کے لیے لوگوں کے جوتے پالش کیے، اس حالت میں کہ اپنے پیر ننگے ہوتے تھے۔ اپنی طرح کے چند دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک ٹیم بنائی جو ننگے پاؤں فٹ بال کھیلتی اور سنہرے مستقبل کے سپنے دیکھتی۔
جب پیلے نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا
1957 میں سولہ برس کی عمر میں پیلے برازیل کی قومی ٹیم کی طرف سے پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلا۔ اگلے ہی برس وہ ورلڈکپ کھیلنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ برازیل کے مینجر ابتدا میں اتنے کم عمر فٹ بالر کو آزمانے سے ہچکچا رہے تھے۔ لیکن ایک بار وہ میدان میں اترے تو ایسا لگا جیسے یہ کھیل سالہا سال سے ان کا انتظار کر رہا تھا۔ فرانس کے خلاف پیلے کی ہیٹرک پھرتی، ذہانت اور رقص کا بے مثال امتزاج تھی۔
سیمی فائنل میں ہیٹرک کے بعد فائنل میں سویڈن کے خلاف دو گول کرنے والا 17 سالہ نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے دیوتا کا روپ دھار چکا تھا۔
باپ کو تسلی اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے والے پیلے نے ایک یا دو نہیں بلکہ تین ورلڈ کپ (1958، 1962، 1970) جیت کر ناقابل شکست ریکارڈ قائم کیا۔
1970 کے ورلڈ کپ میں متنازع واپسی
60 کی دہائی میں فٹ بالرز کے لیے اصول و ضوابط سخت نہ تھے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دفاعی کھلاڑی غیر ضروری جارحانہ حملوں سے مخالف ٹیم کے حملہ آوروں کا ناطقہ بند کر دیتے تھے۔
1962 کے ورلڈ کپ کے دوسرے ہی میچ میں پیلے کو ران کی چوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ 1966 کے ورلڈ کپ میں ایک بار پھر ایسے ہی فاؤلز کے سبب انہیں انجری ہوئی اور مسلسل دوسری بار عالمی مقابلوں سے باہر ہونا پڑا۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے فیصلہ کیا آئندہ ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کریں گے۔
1970 کے ورلڈ کپ میں ڈکٹیٹرشپ نے انہیں محض کھیلنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ہر حال میں فتح کا مطالبہ بھی سامنے رکھا۔ وہ عالمی کپ میں جیت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
جیسے ہی برازیل جیتا، پیلے نے ڈریسنگ روم پہنچ کر چیختے ہوئے کہا: ’میں موت سے بچ گیا، میں موت سے بچ گیا۔‘ یہ الفاظ اس خوف کے عکاس تھے جو پیلے کے دل و دماغ میں سمایا تھا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے بندوق کی نوک پر کسی ماہر رقاص کو تھرکنے پر مجبور کر دیا جائے۔
ماہرین کے مطابق 1970 کی ورلڈ کپ فتح میں 53 فیصد کردار محض پیلے کا تھا۔ برازیل کے مجموعی گولز کی تعداد 19 تھی جس میں پیلے نے چار گول براہ راست داغے جبکہ چھ میں ان کے تعاون نے کلیدی کردار ادا کیا۔
بعض لوگوں کے خیال میں پیلے کو کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے تھا۔ ایسے لوگوں کی ترجمانی پیلے کے ساتھی کھلاڑی پاؤلو سیزر لیما کے الفاظ میں کچھ اس طرح سے ہے کہ ’میں پیلے سے محبت کرتا ہوں لیکن یہ بات مجھے ان پر تنقید سے نہیں روک سکتی۔ میرا خیال ہے ان کا طرز عمل ایک سیاہ فام شخص جیسا تھا جس نے فقط ’ہاں‘ کہنا سیکھا تھا، ایک سیاہ فام جو سر جھکائے بات مان لیتا ہے، سب کچھ تسلیم کر لیتا ہے لیکن پلٹ کر جواب نہیں دیتا۔‘
ان کے خیال میں پیلے جیسی قدوقامت کا شخص اگر ہمت سے کام لیتا اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف محض ایک بیان جاری کر دیتا تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے۔
یہاں تک کہ بعض لوگ ان کا موازنہ عظیم باکسر محمد علی سے کرتے ہیں جنہوں نے ویت نام جنگ کے مسئلے پر نہ صرف اپنا ٹائٹل بلکہ تقریباً کیریئر ہی قربان کر ڈالا تھا، لیکن یہ موازنہ اس لیے قرین انصاف نہیں کہ محمد علی کی بغاوت سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق نہ تھا جبکہ پیلے کا پورا خاندان نیست و نابود کیا جا سکتا تھا۔
پیلے کا خیال تھا کہ وہ فٹ بال کھیلتے ہوئے اپنی قوم کو جس طرح انسپائر کر سکتے ہیں اس کا بدل کوئی نہیں۔ اگرچہ وہ نسلی تعصب کے خلاف کبھی کھل کر نہیں بولے لیکن کھیلوں کی دنیا کے پہلے سیاہ فام سپر سٹار نے دنیا بھر کے سیاہ فام افراد کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
انتہائی غربت اور معمولی پس منظر سے ابھر کر سامنے آنے والی برازیل کی سیاستدان اور ایفرو۔برازیلین طبقے سے تعلق رکھنے والی پہلی سٹیٹ گورنر بیندیتا دا سلوا نے پیلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے لیے کسی بھی سیاہ فام لڑکے کے روپ میں سب سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر ان کی تھی۔‘
10 ڈالر سے 70 لاکھ ڈالر تک
1956 میں 15 سالہ پیلے نے زندگی کا پہلا معاہدہ ایف سی سانتوس کے ساتھ محض دس ڈالرز کے عوض کیا۔ اس کے بعد ان کا ستارہ ایسا چمکا کہ ہووینتس، ریال میڈرڈ اور مانچسٹر یونائیٹڈ جیسے کلب انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے منہ بولے دام دینے کو تیار تھے لیکن یہ خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ ابتدا میں برازیل کی عوام اور سانتوس انہیں یورپ کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بعد میں یہ سرے سے ممکن ہی نہ رہا جب برازیل نے انہیں باقاعدہ طور پر ’قومی اثاثہ‘ قرار دے دیا۔
انٹرنیشنل کیریئر سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1975 میں انہوں نے نیویارک کازموس کے ساتھ تین سالہ معاہدے کے بدلے 70 لاکھ ڈالرز وصول کیے اور اپنے عہد کے مہنگے ترین کھلاڑی بن گئے۔
اگرچہ وہ اپنے عروج کا زمانہ گزار چکے تھے لیکن امریکہ کے سابقہ وزیر خارجہ ہنری کسنجر خود ان کے پاس پہنچے اور کہا ’آپ جانتے ہیں میں ایک سیاست دان ہوں۔ امریکہ میں اس وقت فٹ بال سکولوں میں کھیلا جا رہا ہے اور لوگ اسے پسند کر رہے ہیں۔ کیا آپ امریکہ میں فٹ بال کے فروغ کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کریں گے؟‘ یوں اس معاہدے کی راہ ہموار ہوئی۔
جب ایک ہی میچ میں پیلے دونوں ٹیموں کی طرف سے کھیلے
اکتوبر 1977 میں پیلے نے اپنی زندگی کا آخری پروفیشنل میچ کھیلا۔ یہ نیویارک کازموس اور ایف سی سانتوس کے درمیان نمائشی میچ تھا۔
نیوجرسی کا فٹ بال سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا تھا۔ 77 ہزار تماشائیوں میں ان کے بے نام چاہنے والوں سے لے کر محمد علی جیسے نامور پرستار بھی شامل تھے۔
دونوں کلب یہ تاریخی لمحہ کسی ایک کے سپرد کرنے کو تیار نہ تھے۔ سو پیلے نے پہلا ہاف ایف سی سانتوس کی طرف سے کھیلا اور ایک گول کیا۔ دوسرے ہاف میں وہ نیویارک کازموس کا حصہ تھے۔ یہ اپنی طرز کا بہت انوکھا واقعہ ہے جس سے پیلے کی عظمت جھلکتی ہے۔
دنیائے فٹ بال کے عظیم ترین کھلاڑی
ریکارڈز پر نظر ڈالی جائے یا طویل مدت تک اپنا سحر برقرار رکھنے کی بات کی جائے پیلے کا دور دور تک کوئی جوڑ نہیں۔
اپنی ٹیم کو تین بار ورلڈ کپ جتوانا اور سب سے زیادہ 1279 گول داغنے کا ورلڈ ریکارڈ ایسے کارنامے ہیں جنہیں ابھی تک کوئی نہیں دہرا سکا۔ ان کے علاوہ فٹ بال کی تاریخ کے چوٹی کے تین کھلاڑی نکالے جائیں تو بالعموم میرا ڈونا، رونالڈو اور میسی کا نام لیا جاتا ہے۔
محض اعداد و شمار مدنظر رکھے جائیں تب بھی پیلے ان تینوں سمیت کسی بھی کھلاڑی سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ ہم پیلے کے چند ایسے ریکارڈز کا ذکر کرتے ہیں جو ابھی تک ناقابل شکست ہیں۔
فٹ بال کے عالمی کپ میں اپنی ٹیم کو فتح سے ہم کنار کروانے والے کم عمر ترین کھلاڑی
پیلے اب تک واحد ایسے کھلاڑی ہیں، جنہوں نے عالمی کپ کے تین ٹورنامنٹس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے فتح سمیٹی۔
وہ عالمی کپ کے مقابلوں میں گول داغنے والے کم ترین کھلاڑی تھے، جنہوں نے محض 17 برس کی عمر میں یہ کارنامہ سرانجام دیا۔
پیلے نے محض سترہ برس کی عمر میں ورلڈ کپ فائنل کے دوران (1958 میں) دو گول کیے۔ ساٹھ برس بعد 2018 میں فرانس کے کھلاڑی کیلیان ایم باپے پیلے کے بعد اولین اور ابھی تک کے واحد دوسرے ایسے کھلاڑی بنے، جنہوں نے ٹین ایج میں یہ سنگ میل عبور کیا لیکن ان کی عمر بھی پیلے سے دو برس زیادہ تھی۔
میرا ڈونا کے مجموعی گول 314، میسی کے 694 اور رونالڈو کے 722 جبکہ پیلے 1279 کے ساتھ کہیں زیادہ آگے نظر آتے ہیں۔
پیلے نے مجموعی طور پر 92 دفع ہیٹرک کی۔ ان کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر رونالڈو 60 اور میسی 56 ہیں۔ یہ ایک بہت واضح فرق ہے۔
اعداد و شمار سے بالاتر
اعداد و شمار میں واضح برتری کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ان کی کنٹروبیوشن فٹ بال کے کھیل میں ہندسوں کے گورکھ دھندے سے بالاتر ہے۔
انہوں نے فٹ بال کے کھیل کو دیومالائی حسن عطا کیا۔ اٹلی کے شاعر اور ہدایت کار پیئر پاؤلو پاسولینی نے کہا تھا: ’جب گیند پیلے کے قدموں میں آتا تو فٹ بال کا کھیل شاعری میں تبدیل ہو جاتا تھا۔‘
1966 میں فیفا ورلڈ کپ جیتنے والی برطانوی ٹیم کے کپتان بوبی مور نے ان کی بے مثل صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: ’پیلے اب تک کے سب سے مکمل کھلاڑی ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ تھا، دو زبردست پاؤں۔ میجک اِن دا ایئر۔ پھرتیلے۔ طاقتور۔ صلاحیت اور رفتار میں دوسروں کو پیچھے چھوڑنے والے۔ محض پانچ فٹ آٹھ انچ کی لمبائی مگر ایسا لگتا جیسے میدان میں دیو اتر آیا ہو۔ ایک مکمل توازن اور ناقابل یقین ویژن کی مثال۔ وہ عظیم تھے کیونکہ فٹ بال کے میدان میں ان کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں تھا۔‘
مجھے یاد ہے جب برازیل کے کوچ سالدانیا سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی ٹیم میں بہترین گول کیپر کون ہے تو انہوں نے کہا تھا: ’پیلے۔ یہ شخص کسی بھی پوزیشن پر کھیل سکتا ہے۔‘
برازیل سے تعلق رکھنے والے فٹ بالر زیکو کو نہ صرف عظیم کھلاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہ عظیم ترین کھلاڑی بھی کہا گیا۔ انہوں نے عظیم ترین کھلاڑی کی بحث سمیٹتے ہوئے کہا تھا: ’صدی کے بہترین کھلاڑی کی یہ بحث بے معنی ہے۔ اس کا ممکنہ طور پر ایک ہی جواب ہے، پیلے۔‘
کنگ پیلے کو میدان میں جادو جگاتا دیکھ کر شاید ہی کوئی زیکو کی بات سے اختلاف کرے۔