تاریخ میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جہاں بظاہر معمولی نظر آنے والے واقعات اتنے موثر ثابت ہوتے ہیں کہ وہ آنے والی تاریخ کو بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ستمبر 1965 کی جنگ کا ہے۔
یہ جنگ کیوں ہوئی، اس میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اس جنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی ایسی خلیج حائل کر دی جو آنے والے سالوں اور دہائیوں میں وسیع سے وسیع تر ہی ہوتی رہی ہے۔
اگر 1965 کی جنگ نہ ہوتی تو شاید 1971 کا وہ سانحہ بھی نہ ہوتا جب پاکستان نے اپنا ایک حصہ کھو دیا۔ 1965 کی جنگ کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ابھی تک بہت سے گوشے ایسے بھی ہیں جو ہماری مجموعی تاریخ کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن یہ اتنے اہم ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
1965 کی جنگ کا مقصد انڈیا سے کشمیر کو آزاد کروانا تھا اس کے لیے پہلے ’آپریشن جبرالٹر‘ شروع کیا گیا جو ناکام رہا پھر آپریشن گرینڈ سلیم‘ (Grand Slam) شروع کیا گیا جو دونوں ملکوں کے درمیان جنگ میں بدل گیا۔
لیکن صدر ایوب خان نے کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے جنگی حکمتِ عملی ہی کیوں اپنائی تھی اور اس کی وجوہات کیا تھیں، اس حوالے سے حبیب اللہ پراچہ نہایت اہم حوالہ ہیں۔
یہ وہی حبیب اللہ پراچہ ہیں جن کی کراچی کے ضمنی الیکشن میں شکست پر صدر ایوب نے اپنے گورنر نواب آف کالا باغ سے استعفیٰ لے لیا تھا۔ حبیب اللہ پراچہ کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب ’ایچ ایم پراچہ حبیب اللہ جرنی اکراس دا سلک روڈ اینڈ بیونڈ‘ نئے تاریخی زاویے کھولتی نظر آتی ہے جسے ان کی پوتی نازلی رفعت جمال نے تحریر کیا ہے۔
حبیب اللہ پراچہ کو 60 کی دہائی میں کراچی کا میئر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ وہ ایک متمول صنعت کار تھے جنہوں نے کئی موقعوں پر پاکستان کی مالی مدد بھی کی تھی۔
حبیب اللہ پراچہ کی صدر ایوب سے دوستی تھی اس لیے صدر ان کے مشوروں پر عمل کرتے تھے۔ حبیب اللہ پراچہ نے صدر ایوب کو مشورہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر کشمیر پر کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد، جس میں کشمیری قیادت بھی شریک ہو، دوست ممالک میں جا کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے جس کے تمام اخراجات وہ خود برداشت کریں گے۔
صدر ایوب نے نہ صرف اس کی اجازت دے دی بلکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پاکستان کے سفارتخانے اس سلسلے میں ان کی معاونت بھی کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد بن بیلا نے قبرستان آباد کرنے کا مشورہ دیا
حبیب اللہ پراچہ کی سربراہی میں جانے والے وفد میں میر واعظ محمد یوسف، مولوی فرید احمد، میاں محمد شفیع جیسے کشمیری قائدین بھی شامل تھے۔ وفد نے 18 ممالک کا دورہ کیا اور ماسوائے افغانستان کے ہر جگہ انہیں نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ اپنے اپنے ممالک کی جانب سے حمایت کا یقین بھی دلایا گیا۔
وفد کی سب سے اہم ملاقات الجزائر کے صدر اور اس کی آزادی کے ہیرو احمد بن بیلا سے ہوئی۔ انہوں نے اپنے محل میں وفد کا پرتپاک استقبال کیا اور الجزائر کی جانب سے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
دورانِ گفتگو انہوں نے وفد کے سربراہ حبیب اللہ پراچہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کمرے کی ایک جانب لے گئے۔ یہ کمرہ محل کی کسی اوپر والی منزل پر تھا۔ انہوں نے محل کی کھڑکی کھولی اور کہا، ’باہر دیکھیں، آپ کو کیا نظر آ رہا ہے؟‘
حبیب اللہ پراچہ کچھ سمجھ نہیں سکے کہ بن بیلا انہیں کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ یہاں تا حدِ نگاہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا۔
بن بیلا نے حبیب اللہ پراچہ کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے جواب دیا، ’کیا آپ جانتے ہیں کہ ان قبروں میں کون دفن ہیں؟‘ پھر خود ہی جواب دیا، ’یہ ان جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچو ں کی قبریں ہیں جنہوں نے فرانسیسیوں سے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اس طرح کے قبرستان پورے الجزائر میں موجود ہیں۔ جا کر بھائی ایوب کو بتاؤ کہ اگر وہ کشمیر آزاد کرانا چاہتے ہیں تو ایسے ہی قبرستان آباد کرنے ہوں گے۔‘
وفد جب واپس آیا تو اس نے صدر ایوب کو اپنے دورے کی رپورٹ پیش کی۔ حبیب اللہ پراچہ نے جب احمد بن بیلا کا پیغام صدر ایوب کو پہنچایا تو صدر ایوب ان کا چہرہ تمتما اٹھا، جیسے انہیں وہ کنجی مل گئی ہے جس کی تلاش میں وہ عرصے سے تھے۔
اور کچھ لمحے وہ خاموش رہے۔ حبیب اللہ پراچہ کہتے ہیں کہ یہ 1964 کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد سے انہوں نے کشمیر بزور بازو آزاد کرانے کے لیے منصوبہ بنا لیا تھا۔ صدر ایوب نے حبیب اللہ پراچہ کو ان کی قومی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ خدمت کایوارڈ بھی دیا تھا۔
صدر سوئیکارنو نے کہا آزادی وفود بھیجنے سے نہیں ملتی
چاکر علی خان جونیجو ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں تھے، صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ بھٹو نے انہیں متحدہ عرب امارات میں سفیر بھی بنا کر بھیجا تھا۔ انہوں نے ایک کتاب Zulfikar Ali Bhutto: A Memoir لکھی جس میں ایک جگہ وہ اسی طرح کا واقعہ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہمارا وفد انڈونیشیا پہنچا تو انڈونیشیا کے وزیر خارجہ بیرون ملک دورے پر تھے۔ انہیں جب ہمارے وفد کا پتہ چلا تو وہ دورہ مختصر کر کے واپس انڈونیشیا پہنچ گئے۔ ہم صدر سوئیکارنو سے ملے تو انہوں نے ہمارے وفد میں شامل کشمیری لیڈر سردار ابراہیم سے کہا، ’آپ کو آزادی دنیا میں وفود بھیجنے سے نہیں ملے گی اس کے لیےآپ کو گھروں سے نکل کر پہاڑوں میں جانا ہو گا اور اس وقت تک لڑنا ہو گا جب تک آپ آزاد نہیں ہو جاتے۔‘
چاکر علی خان جونیجو کہتے ہیں کہ جب واپس آ کر انہوں نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو صدر سوئیکارنو کے مشورے کے بارے میں بتایا تو وہ گہری سوچ میں گم ہو گئے۔ اس کے بعد کہنے لگے، ’آپ نے پاکستان کے لیے نہایت اہم خدمت سرانجام دی ہے۔‘
آپریشن جبرالٹر سے آپریشن گرینڈ سلیم تک
صدر ایوب کے فرزند اور سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب اپنی خود نوشت ’ایوانِ اقتدار کے مشاہدات‘ میں لکھتے ہیں کہ صدر ایوب نے جنگ ستمبر سے پہلے آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر بنایا تھا جو اس وقت کشمیر سیل کے بھی سربراہ تھے۔
اس منصوبے کے تحت چار ہزار رضاکاروں کو تربیت دے کر اگست میں مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا مگر ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بہت سے جان سے چلے گئے۔
دوسری طرف جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا نے 26 اگست کو آزاد کشمیر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی، جسے روکنے کے لیے صدر ایوب نے آپریشن گرینڈ سلیم شروع کر دیا۔ یکم ستمبر کو انڈیا کی فضائیہ نے پاکستان کے اگلے مورچوں پر بمباری کی تو دونوں ممالک کی فضائیہ میں جھڑپ ہوئی جس میں پاک فضائیہ نے چار انڈین طیارے مار گرائے۔
چھ ستمبر کو انڈیا نے لاہور پر حملہ کیا تو دوپہر کو صدر ایوب نے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے قوم سے تاریخی خطاب کیا۔ اس خطاب کے بعد امریکی سفیر صدر ایوب سے ملے اور کہا، ’مسٹر پریزیڈنٹ، انڈیا نے آپ کو گلے سے پکڑ لیا ہے۔‘
اس پر صدر ایوب غصے میں آ گئے اور جواب میں کہا، ’یور ایکسی لینسی، جو بھی ہاتھ پاکستان کے گلے تک پہنچے گا کاٹ دیا جائے گا۔‘
گوہر ایوب آگے جا کر لکھتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ’اگر میرے والد آپریشن جبرالٹر کی نگرانی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے اور بھٹو اور جنرل اختر ملک کی جذباتی منصوبہ بندی پر اعتماد نہ کرتے تو 1965 کی جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔‘
لیکن یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ آپریشن فوجی نوعیت کا تھا اور فوج کی کمان صدر ایوب کے پاس تھی، نہ کہ بھٹو کے پاس۔ اس لیے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری صرف ذوالفقار علی بھٹو پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟
دوسرا یہ بھی کہ عینی شاہدوں کے مطابق الجزائر کے صدر احمد بن بیلا اور انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کے مشوروں پر صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کے چہرے تمتما اٹھے تھے، اس لیے کسی ایک پر الزام دھرنا درست نہیں۔
بعد میں ثابت ہوا کہ یا تو یہ مشورے اچھے نہیں تھے یا مشوروں پر عمل کرنے والے اس جذبے اور عقل سے عاری تھے جواس طرح کی جنگوں میں مقصود ہوتے ہیں۔