پاکستان میں مشترکہ خاندانی سسٹم عام ہے جہاں محبت احترام ہو نہ ہو لیکن ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے سکون یا مستقبل کے لیے الگ ہونے کی جسارت کرے تو خاندان والے ان کا بائیکاٹ ہی کر دیتے ہیں۔
عام طور پر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دس مرلے کے گھر میں سب ہنستے بستے کی طرح رہیں اور خوش بھی رہیں۔ چلو اگر خوش رہیں تو ٹھیک ہیں لیکن جہاں محبتیں ہی نہ ہو وہاں سب کو زبردستی باندھ کر رکھنا بالکل غلط ہے۔
میں خود جوائنٹ فیملی کی خواہاں ہو لیکن اگر ایسے نظام میں پیار محبت احساس ہمدردی نہ ہو تو اس میں رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انسان ٹینشن ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ فوتگی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی رشتہ دار منہ بسور کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو تیز طرار ہوتے ہیں وہ طعنہ و تشنیع سے بھی پرہیز نہیں کرتے اور جن کے پاس طاقت پیسہ ہو وہ تو مرنے مارنے پر بھی اتر آتے ہیں۔
ذات برادریوں میں بٹے ہوئے معاشرے میں رشتہ داریاں نبھانا آسان نہیں۔ لوگوں کی جمع پونجی خرچ ہو جاتی ہیں لیکن رشتہ دار شادیوں پر خوش ہوتے ہیں نہ ہی فوتگیوں پر ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں۔
اکثر جب رشتہ دار آپس میں مل بیٹھتے ہیں نمود و نمائش ہوتی ہے امیر والے اپنی امارات بیان کرتے ہیں غریب رشتہ داروں کو نیچا کر دیا جاتا ہے۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے طبقاتی تفریق نے خاندانوں کی ہیت کو بدل دیا ہے۔ بہت سی جگہوں پر بڑے بزرگ نیک اور اچھے ہوتے ہیں وہ خاندانوں کو تفریق سے بچا لیتے ہیں لیکن کچھ جگہوں پر بڑے ہی سارے خاندان کو الگ الگ کر دیتے ہیں۔
ہر وقت لڑائی طعنے فساد ایک خاندان کا شیرازہ بکھرنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان میں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دی جاتی ہے ایک بیٹے کی خواہش میں پانچ سے چھ بیٹیاں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ پھر جب ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے پورا خاندان اس سے اپنی خوشحالی کی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے۔ وہ بیٹا کمائے گا گھر بنائے گا سب بہنوں کی شادیاں کرے اور بوڑھے ماں باپ کی کفالت کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے خاندان کا خیال کرنا اچھی بات ہے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا بھی فرض ہے لیکن سارے خاندان کی کفالت کا بوجھ ایک نوجوان لڑکے کے کندھوں پر ڈال دینا غلط ہے۔
اس نوجوان کی ساری جوانی خلیجی ریاستوں میں محنت کرتے گزر جاتی ہے۔ اس کے کمائے پیسے سے بہنوں کے جہیز بن جاتے ہیں۔ ان کی شادیاں دھوم دھام سے ہو جاتی ہیں۔ گھر پکے ہو جاتے ہیں نئی گاڑی نئے برقی آلات آ جاتے ہیں۔ پھر بھی اکثر خاندان اس کماؤ پوت کا گھر نہیں بسنے دیتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے جتنا عرصہ کماؤ پوت بیٹا ان کے ہاتھ میں رہے یہ بہتر ہے۔ اگر اس کی شادی کر دی تو اس کے پیسے پیار اور توجہ میں شراکت داری آ جائے گی۔
سب ایسے نہیں ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خلیجی ریاستوں یا یورپ میں بیٹھے بیٹے کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے۔ وہ بےچارے کچھ نہیں کہہ پاتے خلیجی ریاستوں میں تو سختی ہے لیکن یورپ میں پھر وہ لڑکے اوپن ریلیشن شپ میں چلے جاتے ہیں یا کسی غیر ملکی خاتون سے شادی کر لیتے ہیں۔ پر زیادہ تر تابعداری کے ساتھ والدین کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ان کا گھر بسا دیں۔ کچھ شرماتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو کچھ سال تو ٹالا جاتا ہے پھر بیٹے کی ڈھلتی عمر دیکھ کر کسی سولہ یا اٹھارہ سال کی لڑکی کا رشتہ دیکھنا شروع کیا جاتا ہے۔
ماں بہنیں ہر لڑکی کو مسترد کرتی ہیں کسی کا رنگ کالا ہے کسی کا قد چھوٹا ہے کسی کا خاندان اچھا نہیں۔ ایسا کرتے کرتے کچھ اور سال نکال لیے جاتے ہیں۔ پھر بیٹے کے سر میں سفید بال دیکھ کر دل پر پتھر رکھ کر شادی کی جاتی ہے تو یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ بہو کو ساتھ باہر کے ملک نہیں لے کر جایا جائے گا وہ یہاں سسرال کی خدمت کرے گی۔
یوں ایک نئی نویلی دلہن گھر میں ملازم بن کر رہ جاتی ہے، شادی شدہ نندیں اس کے کمرے پر قبضہ کر لیتی ہیں اور اکثر اس کے جہیز پر بھی سسرال ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔ بات بات پر اس کی تضیحک کی جاتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے اور اس کی شوہر کی نہ بنے۔
اس لڑکی کو بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترسا دیا جاتا ہے نہ اس کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے نہ آرام اور نہ ہی شوہر سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ کتنی ہی لڑکیوں کا پہلے سال کا حمل ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کا شوہر جو تحائف اور بھاری رقمیں باہر کے ملک سے بھیجتا ہے اس میں سے اس کو بمشکل ہی کچھ ملتا ہے۔ کبھی نند کی شادی کبھی دیور کی شادی، اس سے یوں سارا زیور بھی لے لیا جاتا ہے۔
اس درمیان مرد خاموش تماشائی بن جاتے ہیں کہ گھریلو معاملات سے ہمارا کیا تعلق؟ یوں ظلم کرنے والی خواتین مزید شیر ہو جاتی ہیں اور مظلوم خاتون مزید مظلوم ہو جاتی ہے۔ اگر مرد گھر کے سربراہ کے طور پر اپنے تمام رشتوں میں توازن رکھے اور ماں باپ کو بھی احترام دے اور بیوی کا بھی خیال کرے تو حالات اس نوبت تک نہ پہنچیں جہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے ان کو چولہے سے جلانے اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ سسرال والے ان کا شادی کے دن سے جو جینا محال رکھتے ہیں ایک دن خبر آتی ہے وہ چل بسی۔ ماں باپ نے بھی لڑکی کو یہ کہ کر گھر سے رخصت کرتے ہیں کہ اب تمہاری لاش ہی یہاں سے آئے پھر ایسا ہی ہوتا ہے اس کی لاش ہی آتی ہے۔ ہمارا فرسودہ نظام شادیوں کو نگل رہا ہے۔
جب تک یہ معاشرہ مل کر خواتین کو گھریلو سیاست اور گھریلو تشدد سے بچائے گا نہیں تب تک ہمارے سامنے لڑکیاں قتل ہوتی رہیں گی۔
جب تک ایک بیٹا چھ چھ بہنوں کے لیے جہیز لانے کی مشین بنا رہے گا، اسی طرح معصوم بہوویں گھریلو سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔
زیادہ تر کیسز میں گھریلو سیاست خواتین کی طرف سے خواتین پر ہوتی ہیں اور گھریلو تشدد مردوں کی طرف سے خواتین پر ہوتا ہے۔ پر ڈسکہ کی زارا کے قتل نے ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا اس کی ساس نندیں اس بات سے نہ خوش تھیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش کیوں ہے انہیں یہ لگ رہا تھا کہ زارا کی دوسری اولاد ان کا اپنے بیٹے اور بھائی پر مکمل کنٹرول ختم کر دے گا۔
چھ بہنوں کا اکلوتا کماؤ پوت بھائی سعودیہ عرب میں ملازمت کرتا ہے۔ زارا کی ساس کو یہ رنج تھا کہ اب وہ پیسے زارا کو کیوں بھیجتا ہے، ان کا بیٹا بہو ساتھ کیوں خوش ہے؟ زارا اپنے شوہر کے پاس سعودیہ عرب کیوں جاتی ہے، ساس اور چھ نندوں کا یہ حسد اس کی جان لے گیا۔
یہ قتل خواتین نے جس سفاکی سے کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک انسانی جان جس میں ایک اور ننھی جان پل رہی تھی اس کا قتل کرتے ہوئے ان لوگوں کے ہاتھ بالکل بھی نہیں کانپے، بلکہ اس کی کردار کشی کر کے یہ عورتیں کہانیاں گھڑنے لگی۔ لوگوں نے تو ان باتوں پر یقین بھی کر لینا تھا لیکن زارا کے والد چونکہ خود پولیس میں ہیں وہ دھلے ہوئے گھر کو دیکھ کر یہ بھانپ گئے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کچھ بہت برا ہو گیا ہے اور کرنے والے کون تھے اس کی سگی خالہ اور خالہ زاد جنہوں نے اس کو قتل کر کے اس کے ٹکڑے کر دیے۔
پاکستان میں یہ نفرت انتہاپسندی اس لیے بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ تعلیم کا فقدان ہے، غریبی ہے، بیٹوں کو پیسے کی مشین بنا دیا جاتا ہے، بہو کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، نئے شادی شدہ جوڑے کو بسنے نہیں دیا جاتا، رہی سہی کسر ضعیف الاعتقادی پوری کر دیتی ہے کہ ہمارے بیٹے کو بہو نے جادو کر کے قابو کر لیا جبکہ میاں بیوی میں پیار فطری ہے۔
جب تک ایک بیٹا چھ چھ بہنوں کے لیے جہیز لانے کی مشین بنا رہے گا اسی طرح معصوم بہوویں گھریلو سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔ اب دیکھنا ہے کہ اس کیس کا کیا انجام ہوگا ان عورتوں کو کوئی سزا ملے گی، یا پھر کارساز والی نتاشا کی طرح معاملہ ختم ہو جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔