1965 میں رن آف کچھ کا تنازع جو جنگ کو لاہور تک لے آیا

پاکستان اور انڈیا کے درمیان بین الااقوامی سرحد پر ہونے والی پہلی جنگ جسے دنیا 1965 کی انڈو پاک جنگ کے نام سی جانتی ہے، ایک ایسے علاقے سے شروع ہوئی جو ایک وسیع اور بنجر صحرا پر مبنی ہے۔ 

چار سمتبر 2000 کی اس تصویر میں پاکستانی فوج کے اہلکار لاہور میں 1965 کی جنگ ستمبر کی یاد میں ہونے والی ایک تقریب کی ریہرسل کرتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان بین الااقوامی سرحد پر ہونے والی پہلی جنگ جسے دنیا 1965 کی انڈو پاک جنگ کے نام سی جانتی ہے، ایک ایسے علاقے سے شروع ہوئی جو ایک وسیع اور بنجر صحرا پر مشتمل ہے۔ 

ایک سڑک کی تعمیر اور اس پر کی جانے والی گشت کی بنیاد پر ہونے والی یہ کشیدگی پاکستانی صوبہ سندھ اور انڈین صوبہ گجرات کی سرحد پر واقع علاقے رن آف کچھ سے چلتے چلتے لاہور اور سیالکوٹ تک جا پہنچی۔

رن آف کچھ میں کشیدگی

رن آف کچھ کا علاقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے نہایت اہم ہے جو پاکستان کے صوبہ سندھ کے جنوب مشرقی خطے صحرائے تھر اور انڈیا کے صوبہ گجرات کے شمال مغربی ضلعے کچھ میں واقع ہے۔ اس علاقے کا رقبہ دو ہزار 897 مربع کلومیٹر ہے اور یہ دنیا میں سب سے بڑا سالٹ ڈیزرٹ یعنی صحرائے نمک ہے۔

اس علاقے میں انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس اور انڈین فوج اپنے علاقے کی نگرانی کرتی ہے جبکہ پاکستانی جانب سرحد کی پہرے داری پاکستان رینجرز اور پاکستانی فوج کرتی ہے۔ یہ شاید دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ابھی تک اونٹ پر گشت کی جاتی ہے۔

یوں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی علاقوں پر تقسیم ہند کے بعد سے اختلاف چلا آ رہا تھا جن میں کشمیر کا علاقہ بھی شامل ہے لیکن رن آف کچھ کے علاقے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان 1965 کے اوائل سے ہی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا تھا۔

پاکستان کی سرحدی فورسز کی اس علاقے میں گشت پر انڈیا نے اعتراض کرتے ہوئے اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے اس گشت کو اپنی سرحد کی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ پاکستان نے انڈیا کا یہ اعتراض مسترد کر دیا۔ 15 فروری 1965 کو دونوں ممالک کے بارڈر پوسٹ کمانڈرز نے اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے ملاقات کی لیکن اس کوشش ناکام ہو گئی۔

آپریشن کبڈی

فروری 1965 میں پاکستان نے رن آف کچھ کے علاقے کنجرکوٹ کے گرد اپنی فوج تعینات کرتے ہوئے اسے طویل عرصے سے اپنا حصہ قرار دیا جس پر انڈیا نے اس علاقے کی جانب بڑی تعداد میں فوج روانہ کرتے ہوئے یہاں فارورڈ پوسٹس قائم کر دیں۔ 21 فروری 1965 کو انڈیا کے میجر جنرل پی سی گپتا جو مہاراشٹرا اور گجرات کے علاقوں کے جی او سی تھے نے کنجرکوٹ کے علاقے کو واپس حاص کرنے کے لیے ’آپریشن کبڈی‘ شروع کرنے کی ہدایت کی۔

جبکہ پاکستان نے انڈس رینجرز کو میجر جنرل ٹکا خان کی کمانڈ میں دیتے ہوئے انہیں انڈیا کے اس مقصد کو ناکام کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

سفارتی محاذ

ایک جانب جہاں دونوں فوجیں اس سرحدی علاقے میں ایک دوسرے کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جنگ کے لیے تیار کھڑی رہیں وہیں دوسری جانب سفارتی محاذ پر بھی ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ ہر سفارتی پلیٹ فارم پر پاکستان اور انڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ذمہ داری دوسرے پر عائد کرتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے۔

آپریشن ایروہیڈ

مارچ میں انڈیا نے خلیج کچھ کے علاقے میں مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز کیا جس کا کوڈ نام ’آپریشن ایرو ہیڈ‘ رکھا گیا۔ ان مشقوں میں انڈین فوج کی بریگیڈ کے علاوہ انڈین نیوی کے جہاز وکرانت نے بھی حصہ لیا۔

برطانیہ کی ثالثی

انڈین فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائر ہونے والے وی کے سنگھ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو دیکھ کر برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ ولسن نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کے لیے انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری اور پاکستان کے صدر ایوب خان کو دورہ لندن کی دعوت دی جس کے دوران دونوں ممالک نے جون 1965 میں برطانوی کوششوں سے سیز فائر پر اتفاق کر لیا۔ جس کے بعد رن آف کچھ کے علاقے سے دونوں ممالک کی افواج کو واپس بلا لیا گیا۔ 

آپریشن جبرالٹر

اگست کے پہلے ہفتے میں جموں و کشمیر میں شروع کیے جانے والا گوریلا آپریشن ’آپریشن جبرالٹر‘ کا مقصد وادی کشمیر پر انڈین فوج کی گرفت کو کمزور کرتے ہوئے وہاں مقامی تحریک کو مضبوط بنانا تھا۔ اس آپریشن میں مقامی افراد کے ہمراہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے جانے والے جنگجو بھی شامل تھے۔

اس آپریشن کے دوران انڈین فوج پر کشمیر کے علاقے میں شدید دباؤ پڑا جبکہ انڈین فوج نے بھی کارگل، ٹیتھوال اور پونچھ کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرتے ہوئے آپریشن جبرالٹر میں شریک جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔ 

حاجی پیر پاس

اگست کی 26 اور 28 تاریخ کے دوران انڈین فوج نے حملہ کرتے ہوئے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے حاجی پیر پاس پر قبضہ کر لیا۔ انڈیا کی اس فوجی مہم کی قیادت بریگیڈیر کمانڈر زور آور چند بخشی اور میجر رنجیت سنگھ دیال کر رہے تھے۔

آپریشن گرینڈ سلام

آپریشن جبرالٹر کے بعد پاکستان نے کشمیر میں انڈین فوج کی کمک روکنے کے آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز کیا جس کا ہدف جموں کے قریب واقع علاقے اکھنور کو کنٹرول میں لیتے ہوئے راجوڑی اور پونچھ تک جانے والے راستے پر انڈین فوج کی نقل و حرکت روکنا تھا۔ یکم ستمبر کو شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں چھمب کا علاقہ پہلے ہی دن پاکستان کے کنٹرول میں چلا گیا۔

1965 کی جنگ اور آپریشن گرینڈ سلام کی اہمیت پر مصنف آغا ہمایوں امین کی کتاب ’آپریشن گرینڈ سلام اینڈ 1965 وار، اختر حسین ملک، یحییٰ خان اینڈ ایوب خان‘ کے مطابق اس آپریشن کی کمانڈ پاکستان کے میجر جنرل اختر حسین ملک کر رہے تھے۔

آپریشن ریڈل

کشمیر کے علاقے میں انڈین فوج پر بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کے لیے انڈیا نے بین الااقوامی سرحد پر فرنٹ کھولتے ہوئے پاکستان کے شہر لاہور پر حملہ کر دیا جس کے بعد پاکستان نے کشمیر میں موجود اپنی آرٹلری اور اہم توپ خانے کو بین الااقوامی سرحد پر منتقل کر دیا۔

آپریشن دراوکا

انڈین ریاست گجرات کی ساحلی پٹی میں واقع دوارکا کا شہر نہ صرف تاریخی اور مذہبی بلکہ عسکری اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے میں نصب ریڈار کی مدد سے انڈین فضائیہ کراچی میں اہدافی حملوں کے لیے اہم تنصیبات کی نشاندہی کر رہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی بحریہ کی ویب سائٹ پر موجود اس آپریشن کی تفصیلات کے مطابق آپریشن دوارکا ایک کثیر الجہت آپریشن تھا جس کا ایک مقصد یہاں نصب ریڈار کے نظام کو تباہ کرنا جبکہ دوسرا مقصد انڈین شہر بمبئی (موجودہ ممبئی) میں تعینات انڈین جنگی جہازوں کو بحیرہ عرب تک لانا تھا جہاں موجود پاکستان آبدوز ’غازی‘ ان کا تاک تاک کر نشانہ لینے کے لیے مکمل تیار تھی۔

اس آپریشن کا آغاز آٹھ ستمبر کو کیا گیا اور صرف چار منٹ میں مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنا لیا گیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں انڈین نیوی کا حوصلہ پست ہو گیا اور قریبی بندرگاہ کوچن پر موجود انڈین نیوی کا جہاز آئی این ایس میسور پاکستانی نیوری کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب نہ دے سکا۔

فضائی جھڑپیں

پاکستان آرمی کی ویب سائٹ کے مطابق جب انڈین فوج نے لاہور پر حملہ کیا تو اسے انڈین فضائیہ کی مدد بھی دستیاب تھی۔ سات ستمبر کے دن جب انڈین ائیرفورس نے پاکستانی علاقے پر حملہ کیا تو اس کے سکوارڈن کا سامنا تنہا پاکستانی ایف 86 جہاز سے ہوا جس کے پائلٹ ایم ایم عالم تھے۔ انہوں نے اس فضائی معرکے کے دوران پانچ انڈین طیاروں کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔

آپریشن نیپال اور چونڈہ کا محاذ

سات اور آٹھ ستمبر کی درمیان شب انڈیا نے ون کور کے ذریعے پاکستان کے علاقے سیالکوٹ سیکٹر پر دھاوا بول دیا۔ پڑوسی ملک کے نام سے منسوب اس ’آپریشن نیپال‘ میں انڈین فوج کے چار ڈویژن شریک تھے اور ان کا مقصد پیش قدمی کرتے ہوئے چونڈہ سے مرالہ راوی لنک تک کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر قبضہ کرنا اور اس علاقے کا پاکستان سے رابطہ منقطع کرنا تھا۔

پاکستان کی جانب سے اس علاقے کے دفاع کے لیے تعینات سکتھ آرمرڈ ڈویژن کی سربراہی میجر جنرل ابرار حسین کر رہے تھے۔

اس محاذ پر دونوں جانب سے ٹینکوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جنگ میں حصہ لیا اور جنگ کے خاتمے تک چونڈہ کے محاذ پر انڈیا کے 180 سے زائد ٹینک تباہ ہو چکے تھے جبکہ پاکستان کے تباہ ہونے والے ٹینکوں کی تعداد 61 تھی۔

اقوام متحدہ کا سیز فائر کا مطالبہ

ایک جانب جب پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے خلاف زمین، فضا اور سمندر میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہے عالمی برداری میں اس جنگ کو لے شدید بے چینی پائی جاتی تھی اور جنگ کے آغاز سے ہی اقوام متحدہ کا ادارہ اس کوشش میں مصروف تھا کہ جلد سے جلد اس جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ 

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے موجود ریکارڈ کے مطابق اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ایک قرار داد چھ ستمبر کو منظور کی گئی تھی جس میں دونوں ممالک سے فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا۔ جبکہ 20 ستمبر کو اس حوالے سے ایک اور قرار پاس کی گئی جس میں دونوں ممالک کو ایک بار پھر 22 ستمبر کی صبح سات بجے تک جنگ ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ جبکہ قرارداد میں پاکستان اور انڈیا سے پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشنز پر واپس جانے کا مطالبہ بھی کیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق انڈیا نے ستمبر کی 21 جبکہ پاکستان نے 22 تاریخ کو اس جنگ بندی کو قبول کیا۔

سوویت یونین کی ثالثی

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پیس کیپنگ ڈاٹ یو این کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے بعد سوویت یونین کے شہر تاشقند میں 10 جنوری 1966 کو ہونے والی ملاقات کے بعد انڈین وزیراعظم لال بہادر شاشتری اور پاکستانی صدر ایوب خان نے سوویت یونین کی ثالثی میں سیز فائر پر باضابطہ اتفاق کرتے ہوئے اپنی اپنی افواج کو 25 فروری 1966 تک پانچ اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشنز پر واپس لے جانے کا اعلان کیا۔

اس رپورٹ کی تیاری میں پاکستانی فوج، پاکستانی بحریہ، انڈین فوج، امریکی محکمہ خارجہ، اقوام متحدہ، اقوام متحدہ پیس کیپنگ، گلوبل سکیورٹی کی ویب سائٹس اور مصنف فاروق نسیم باجوہ کی کتاب ’فرام کچھ ٹو تاشقند‘ اور میجر جنرل ریٹائرڈ وی کے سنگھ کی یاداشتوں ’وی کے ملٹری ہسٹری‘ سے مدد لی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ