لاہور کے رہائشی رحمت اللہ ملک 12 سال کی عمر میں 1965 کی جنگ میں شریک ہوئے۔
رحمت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پانچ ستمبر 1965 کی رات اچانک بھارتی فوج نے حملہ کردیا اور لاہور شہر میں افراتفری پھیل گئی۔
’بیشتر شہری سوئے تھے لیکن جو جاگ رہے تھے انہوں نے ریڈیو کے ذریعے خبر سنی اور گھروں سے باہر نکل آئے۔صبح تک نوجوانوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہوچکی تھی،طلبہ کے ساتھ میں بھی وہاں پہنچا۔‘
انہوں نے بتایا بھارتی فوج جہازوں، توپوں اور ٹینکوں کے ذریعے گولے برسا رہی تھی لیکن جو گولے پاکستان کی حدود میں گرتے تھے وہ زیادہ تر پھٹتے نہیں تھے، جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
رحمت اللہ نے یادیں تازہ کرتے ہوئے مزید بتایا بھارتی فوج جب پیش قدمی کرنے لگی تو واہگہ بارڈر سے بی آر بی نہر کے پل تک پہنچ گئی۔ اسی طرح چونڈہ سرحد سے بھی بھارتی فوج ٹینکوں سمیت داخل ہونے لگی تو فوجی جوانوں اور عام شہریوں نے جسم کے ساتھ بارود باندھا اور بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر خود بھی ہلاک ہوگئے اور ٹھینک بھی اڑا دیے جس کے بعد بھارتی فوج بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔
’دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔بھارتی فوج سے چھینے گئے سامان کو منٹوپارک، مینار پاکستان نمائش کے لیے رکھاگیا۔ ہم بھی روزانہ وہاں جاتے اور مختلف علاقوں میں گھومتے پھرتے۔ کبھی کبھی اچانک افراتفری مچ جاتی جب یہ اعلان ہوتا کہ دشمن فوج حملہ آور ہورہی ہے تو سب اللہ اکبر کے نعرے لگاتے دشمن کی طرف بڑھتے۔‘
انہوں نے بتایا بھارتی فوج کے کئی چھاتہ بردار فوجی بھی پکڑے گئے، جنہیں عوام نے چھترول کے بعد پاکستانی فوجیوں کے حوالے کیا۔
رحمت اللہ کہتے ہیں ریڈیو پر میڈم نورجہاں کے نغمے ہر طرف گونج رہے تھے۔ ’بہت سے مخیر حضرات دیگوں میں کھانے لاتے اور فوج سمیت شہریوں میں تقسیم کرتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا مساجد میں بھی جذبہ حب الوطنی کے درس دیے جاتے تھے، محلوں کی خواتین اور بچے کسی ایک بڑی حویلی میں جمع ہوکر ریڈیو پر خبریں سنتے اور پاکستان کی فتح کے لیے دعائیں کی جاتیں۔
’جو جذبہ اُن دنوں پاکستانی عوام میں دیکھا ایسے کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔‘
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر اب جنگ کی صورت حال بنی تو کیا وہ پہلے کی طرح پُرجوش سپاہی بننے کو تیار ہوں گے؟
تو انہوں نے فوراً جوب دیا ’بالکل‘۔ پہلے سے زیادہ جذبہ ہوگا کیونکہ اس وقت آبادی کم تھی اور شعور بھی اتنا نہیں تھا اب نوجوانوں کو ملکی دفاع کے لیے زیادہ جذبے سے سرشار دیکھتا ہوں‘۔