تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان دلچسپ بھی ہوتی ہے اور آسودہ بھی کرتی ہے۔ کوئی قوم بھی اپنے عروج کو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رکھ سکتی، ایک مرحلے کے بعد اس میں زوال کی علامتیں شروع ہو جاتی ہیں۔
عام طور سے قوموں کے زوال کو معاشرے کا اجتماعی زوال کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
طبقاتی معاشرے میں زوال کی ذمہ داری حکمراں طبقے پر آتی ہے، کیونکہ اس کے پاس ریاست کے ذرائع ہوتے ہیں۔ اقتدار کی طاقت ہوتی ہے جبکہ عام لوگ غربت اور مفلسی اور بےبسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ لہٰذا نہ تو انہیں قومی عروج سے کوئی فائدہ ہوتا ہے اور زوال تو ان کا مقدر ہوتا ہے۔ جس میں ان کی ساری زندگی گزرتی ہے۔
یہاں ہم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ حکمراں یا اشرافیہ کیوں زوال کا باعث ہوتی ہے۔
اس سلسلے ہم رومی اور مغل سلطنت کا ذکر کریں گے۔ رومی سلطنت کا عروج اس وقت ہوا جب اس نے فتوحات کے ذریعے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ اس ابتدائی دور میں فوج میں رومن شہری بھی ہوا کرتے تھے، اور ان کی سربراہی رومی جنرل کیا کرتے تھے۔
جنرلوں کا مفاد اس میں تھا کہ فتوحات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مال غنیمت حاصل کریں، اپنی جائیدادیں بنائیں اور آخر میں فوجی سختیوں کو چھوڑ کر روم میں اپنے محلات میں آرام کی زندگی گزاریں۔
لہٰذا ایک تبدیلی تو یہ آئی کہ رومی فوج میں مفتوحہ علاقوں کے فوجی بھی شامل ہو گئے اور ایک بڑی تعداد میں جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر لایا گیا۔
رومی اشرافیہ کے لیے ان غلاموں کی خدمات ہر وقت موجود رہتی تھیں، لیکن مفتوحہ علاقوں میں جب رومی تسلط کے خلاف بغاوتیں شروع ہوئیں تو ان بغاوتوں کو ختم کرنے کی اشرافیہ میں توانائی باقی نہیں رہی تھی۔
مثلاً جب انگلستان میں ان کے خلاف بغاوتیں شروع ہوئیں تو انہوں نے بوٹیکا کی بغاوت کو سختی سے کچل دیا۔
انہوں نے کیلٹ قبائل کے حملوں کو روکنے کے لیے دیوارِ ہیڈریون تعمیر کی مگر جب وہ اپنے خلاف بغاوتوں کو ختم نہ کر سکے، تو رومی فوجی اچانک انگلستان کو چھوڑ کر واپس آ گئے۔
زوال کو روکنے کی یہ کوشش بھی کی گئی کہ رومن سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ان کے علیحدہ علیحدہ انتظام کیے جائیں۔ لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی کیونکہ حکمراں طبقوں کو اپنے سرمائے اور جائیدادوں کی حفاظت کی فکر تھی۔
ان میں جنگ جوئی کے اوصاف ختم ہو چکے تھے وہ عیاشی کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے تھے۔ ان میں حکومت کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی تھی، اور نہ اس قابل رہ گئے تھے کہ ان کے خلاف جو طاقتیں ہیں ان کا مقابلہ کر سکیں۔
لہٰذا 410 عیسوی میں جرمن قبائل نے روم پر قبضہ کر کے مغربی رومی سلطنت کا خاتمہ کیا۔ اشرافیہ نے شہر کا دفاع کرنے کے بجائے فرار ہو کر اپنے دیہاتی محلوں میں پناہ لی، اور شہر کے عام لوگوں کو بےیار و مددگار چھوڑ دیا۔
رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد اس کا حکمراں طبقہ بھی تاریخ میں روپوش ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ہم مغل سلطنت میں منصب داروں اور اشرافیہ کو بھی زوال کا باعث سمجھتے ہیں۔ جب مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی تو مغل امرا اپنی دولت اور سماجی وجود کی وجہ سے معاشرے کے اعلیٰ ترین طبقے میں شمار ہوتے تھے۔
اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اورنگزیب دکن میں ریاستوں کے خلاف جنگ کر رہا تھا تو اس کے امرا جانفشانی کے ساتھ جنگ میں حصہ لیتے تھے۔
مثلاً جب کسی قلعے کا محاصرہ کیا تو کوشش یہ ہوتی تھی کہ قلعے کے حاکم کو رشوت دے کر اس پر قبضہ کیا جائے۔ جب کوئی قلعہ فتح نہیں ہوتا تھا، تو اورنگزیب کو خود وہاں آنا پڑتا تھا اور قلعے کا محاصرہ کر کے جنگ کرنی پڑتی تھی۔
جب مغل منصب دار جنگ کے لیے جاتے تھے تو ان کے کیمپ میں ہر طرح کی آسائشیں ہوتی تھیں، جن کی وجہ سے ان کی رفتار بہت سست ہو جاتی تھی۔ جبکہ ان کے مقابلے میں مرہٹے حملہ کرتے تھے تو ان کے گھڑ سوار تیزی کے ساتھ آتے تھے اور حملے کے بعد تیزی سے واپس چلے جاتے تھے۔
مرہٹہ راہنما شیوا جی نے کئی بار سورت کی بندرگاہ کو لوٹا اور مغل اس کی حفاظت میں ناکام رہے۔ ایک بار شیوا جی اپنے فوجیوں کے ساتھ رمضان کے مہینے میں دکن کے گورنر میر جملہ کے گھر پر حملہ آور ہوا جس میں میر جملہ کی انگلیاں بھی زخمی ہوئیں۔
1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد صورت حال اور بدتر ہو گئی۔ بادشاہت کے لیے خانہ جنگیوں کی ابتدا ہوئی۔ امرا مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئے اور اںہوں نے شہروں میں لوٹ مار شروع کی۔
جب نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملے ہوئے تو یہ سلطنت کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئے۔ جب امرا مغل سلطنت کے زوال کو روکنے میں ناکام ہوئے تو عام لوگوں کی حالت اور زیادہ بدتر ہو گئی۔
مغل عروج کے زمانے میں بھی عام لوگ زوال کی حالت میں تھے۔ کچے مکانوں میں رہتے تھے اور روٹی اور چٹنی ان کی غذا تھی۔ لباس دھوتی تھی، پاؤں میں کبھی چپل ہوتی تھی کبھی یہ ننگے پاؤں ہوتے تھے۔ بےروزگاری عام تھی۔ محنت و مشقت کے باوجود معاشرے میں ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔
اس لیے جب بھی کسی معاشرے میں امیر و غریب کا فرق بڑھ جائے تو معاشرہ اس قابل نہیں رہتا ہے کہ یہ اپنا دفاع کر سکے۔
جب مغل سلطنت کا زوال ہوا تو اس کے ساتھ ہی اس کی اشرافیہ کو بھی زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ جب مغل بادشاہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وظیفہ خوار ہوا تو دربار کی شان و شوکت بھی ختم ہو گئی۔
مغل اشرافیہ نے یا تو اپنے قصبوں اور دیہاتوں میں پناہ لی یا اودھ اور دکن کی ریاستوں کی سرپرستی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھائیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب بھی اشرافیہ ملک کے تمام ذرائع کو ذات کے لیے استعمال کرے گی، اور عام لوگوں کو محتاج کر دے تو اس صورت میں اشرافیہ زوال کی ذمہ دار ہوتی ہے، اور اس کا اپنا وجود بھی قائم نہیں رہتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔