لیک ویڈیوز: بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟

یقینی طور پر ہماری طرح آپ بھی ان دنوں لیک ہونے والی ویڈیوز کی خواتین کو ان ویڈیوز سے پہلے جانتے تک نہیں ہوں گے لیکن لیک ہونے والی ویڈیوز میں سب بے انتہا دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ایف آئی اے کو تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ  خاتون نے  ایک سرکاری افسر کے جی میل، سنیپ چیٹ، ہاٹ میل، سکائپ اور انسٹاگرام کے اکاؤنٹس ہیک کیے تھے(تصویر: پکسابے) 

یقینی طور پر ہماری طرح آپ بھی ان دنوں لیک ہونے والی ویڈیوز کی خواتین کو ان ویڈیوز سے پہلے جانتے تک نہیں ہوں گے۔ بلکہ کئی کا نام تو آپ نے اسی وقت پہلی بار سنا ہو گا جب ان کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں اور ان کے بارے میں معلوم ہوا ہو گا کہ یہ بھی کوئی ٹک ٹاکر ہیں۔

ان دنوں لگ رہا ہے جیسے عمر وعیار کی زنبیل ہے جس میں سے کوئی دھڑا دھڑ ایسی غیر اخلاقی ویڈیوز نکال نکال کر سوشل میڈیا پر بھرتا ہی چلا رہا ہے۔ کوئی ایک دن نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی کی ویڈیو لیک نہ ہو۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔ متعلقہ خاتون کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے اور صارفین ان کے کردار کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ جنہیں ان ویڈیوز کا ’دیدار‘ نہیں ملتا۔ وہ یار دوستوں سے التجا بھرے انداز میں مانگ رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر بنے ہوئے ’ہیش ٹیگ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اوہو آج ان کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔‘ انجان اور گمنام چہروں کے بارے میں مزید معلومات کے لیے گوگل سرچ انجن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہی کچھ صارفین ایسے ہیں، جو باقاعدہ تشہیرمیں مصروف رہتے ہیں کہ اگر ویڈیوز درکار ہیں تو ڈائریکٹ مسیج کریں یا پھر ’فالو بیک‘ کی پیش کش دے کر ان ویڈیوز کی فراہمی کا اعلان کیا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں لیک ہونے والی ان ویڈیوز کی خواتین کی شہرت اور مقبولیت سرحد پار تک پہنچی ہے۔ یہاں تک کہ انڈین نیوز ویب سائٹس نے خصوصی طور پر ان کے متعلق چٹ پٹی مصالحہ دار خبریں اور بلاگز بھی پوسٹ کیں۔

ایک دور وہ بھی تھا جب کسی کو بدنام کرنے کے لیے ملٹی مسیجنگ سروس (ایم ایم ایس) کا سہارہ لیا جاتا۔ ماضی میں جب انٹرنیٹ کی نئی نئی دنیا کا در کھلا تو گاہے بگاہے کسی نہ کسی کی کچھ ایسی تصاویر لیک ہوتیں جو قابل اعتراض یا غیر اخلاقی ہونے کے زمرے میں آتیں۔ ان میں ماڈلز اور ٹی وی فنکارائیں شامل رہیں۔

کسی کو اس بات پر اعتراض رہا کہ یہ خوبرو حسینائیں مختصر لباس میں ساحل سمندر پر سیر سپاٹا کیوں کررہی ہیں۔ سمارٹ فونز کی آمد نے ہر ایک کو چھوٹا سا لیپ ٹاپ دے دیا جس کے ذریعے وہ ہر چیز تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اب مثبت کے ساتھ ساتھ منفی استعمال بھی دھڑلے سے کیا جانے لگا۔

ٹیکنالوجی میں جدت آئی تو اس کے بعد تو سمجھیں ویڈیوز کی بہار آ گئیں۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار ’آڈیوز‘ بھی لیک ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیک ویڈیوز کے سیلاب میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔ سیاست دان، کھلاڑی، فنکار، ماڈلز یا ٹک ٹاکرز سب نشانہ بنائے گئے بلکہ بن رہے ہیں۔ نجی تصاویر یا ویڈیوز پرچٹخارے دار اظہار خیال سے زیادہ اس پہلو پرغور کیوں نہیں کیا جاتا کہ کیوں اور کس لیے لیک کا یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ہدف تنقید خواتین ہی کیوں بنتی ہیں؟

ویڈیوز جان بوجھ کر ’لیک‘ کی جاتی ہیں؟

ایک عام تاثر یہی ہے کہ اداکارہ یا ٹک ٹاکرز یا پھر وی لاگرز ان ویڈیوز کو جان بوجھ کر ’لیک‘ کرتی ہیں تاکہ گمنامی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے پلک جھپکتے میں شہرت مل جائے جس کے بعد ان کے فالورز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔

یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو حالیہ دنوں میں جن دو ٹک ٹاکرز کی ہیجان خیز ویڈیوز ہر ایک کے موبائل فون تک پہنچیں، ان دونوں نے اپنے تمام تر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک نے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوشل میڈیا اور شو بزنس کو چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ارادی طور پر عمل کیا گیا تھا تو پھر سوشل میڈیا سے غیر فعال ہونے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ لیک ویڈیوز کا شکار یہ خواتین قریبی مرد دوست کی انتقامی کارروائی کی بنا پر اس پریشانی سے دوچار ہوتی ہیں۔ کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو وہ بقول شاعر ’رسوا ہو کر مرجاویں اس کو بھی بدنام کریں‘ کی ترجمانی میں لگ جاتا ہے۔ پھر تنہائی کے لمحات میں اور خمار کی حالت میں بنائی گئی یہ انتہائی نجی ویڈیوز کا لیک کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انتقاماً یا دولت کے لیے کوئی خاتون بھی یہ کام کر سکتی ہے۔

ابتدا میں جب اس نوعیت کی غیر اخلاقی ویڈیوز آتی تھیں تو متاثرہ خاتون یہی دعویٰ کرتی تھیں کہ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون وہ نہیں۔ بلکہ ایک نامی گرامی پاکستانی فلم سٹار نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ کسی نے ان کا ماسک لگا کر یہ قابل اعتراض ویڈیو بنائیں، جبکہ بظاہر ایسا نہیں تھا۔ خیر حالیہ دنوں میں تو لیک ویڈیو ز میں نظر آنے والی خواتین اس نوعیت کا کوئی دعویٰ نہیں کرتیں۔ ماسوائے ان کے جن کی ’ڈیپ فیک‘ سے تصاویر یا ویڈیوز بنی ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیک ویڈیو پر سزائیں کیا ہیں؟

پاکستان میں موجود پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کے تحت کسی کی ویڈیو یا تصویر لیک کرنے پر تین سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ اسی طرح سیکشن 21 کے مطابق پانچ سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

لیک ویڈیو کا متاثرہ فرد ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں درخواست دے کر باقاعدہ کارروائی کروا سکتا ہے۔ ساتھ ہی متعلقہ ویڈیوز کو بھی ڈیلیٹ کروایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے متاثرہ خواتین بہت کم ہی اس سلسلے میں کارروائی کا فیصلہ کرتی ہیں۔ کچھ اور بدنامی کے خوف سے ایک تردیدی یا وضاحتی بیان دے کر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں، کچھ یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ کر ایک الگ دنیا بسا لیتی ہیں۔

ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا جس سے دوسروں کو سبق ملے یا وہ مثال بن جائے۔ ماضی میں رابی پیرزادہ، خلیل الرحمان قمر اور حریم شاہ نے اپنی لیک ویڈیوز یا تصاویرکے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی۔

کچھ ایسا ہی ٹی وی فنکارہ اور ماڈل علیزے شاہ کا معاملہ بھی تھا جب 2022 میں ان کی کسی نے چھپ کر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ جس کے بعد علیزے شاہ نے ایف آئی اے سائبر کرئم سے رابطہ کیا۔

ان کا موقف تھا کہ ان کے نجی لمحات کی چھپ کر ویڈیو بنا کر ان کی پرائیوسی کو متاثر کیا گیا ہے۔ خیر انہی لیک ویڈیوز کا گھناؤنا عمل یا تاریک پہلو تھا جس کی وجہ سے مشہور سکالر عامر لیاقت حسین ذہنی دباؤ کا ایسا شکار ہوئے کہ موت کی نیند سو گئے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ