معدوم کیمرہ جس نے افغانستان کے اتار چڑھاؤ کو عکس بند کیا

امریکی فوج کے انخلا کے دو سال بعد، اے پی کے فوٹوگرافر روڈریگو عبد واپس افغانستان لوٹے تاکہ طالبان کے دور حکومت میں زندگی کو ایک پرانے ’باکس کیمرہ‘ کے ذریعے عکس بند کرسکیں۔

پہلی نظر میں دھندلی، بلیک اینڈ وائٹ اور آؤٹ آف فوکس تصاویر ایسے افغانستان کو ظاہر کرتی ہیں جہاں وقت ٹھر گیا ہو۔ لیکن یہ جمالیاتی دھوکہ ہے (اے پی)

منفرد سی ڈیوائس ہر جگہ متجسس نگاہوں کو اپنی جانب کھینچ  ہی لیتی تھی۔ باہر سے یہ ٹرائی پاڈ پر ایک بڑے بلیک باکس جیسا لگتا ہے لیکن اصل جادو اس کے اندر ہے۔ یہ ہاتھ سے بنا ہوا لکڑی کا کیمرہ اور ڈارک روم ہے۔

جیسے ہی ایک چھوٹا سا ہجوم باکس کیمرہ کے گرد جمع ہوتا ہے اس کے تاریک  اندرونی حصے سے خوبصورتی اور مشکلات سے بھری زندگی کی تصویریں ملتی ہیں ان میں سے ایک تصویر میں ایک خاندان جھیل پر ایک ہنس نما کشتی میں سیر کا مزہ لے رہا ہے۔

دوسری تصویروں میں اینٹوں کے بھٹے میں مزدوری کرنے والے بچے، برقعوں میں چھپی خواتین اور مسلح نوجوان شامل ہیں، جن کی آنکھوں میں شعلے دیکھے جا سکتے ہیں۔

جنگ زدہ افغان گاؤں میں پورٹریٹ کے لیے بیٹھے ایک طالبان جنگجو کا کہنا ہے: ’زندگی اب بہت زیادہ خوش گوار ہے۔‘ لیکن افغان دارالحکومت کابل میں ایک نوجوان خاتون کے لیے زندگی اس کے برعکس ہے جن کو ان کی جنس کی وجہ سے تعلیم سے محروم کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میری زندگی ایک قیدی کی طرح ہے، پنجرے میں بند پرندے کی طرح۔‘

ان لمحات کو ریکارڈ کرنے کے لیے جو آلہ استعمال کیا گیا ہے اسے یہاں ’کیمرہ فوری‘ کہا جاتا ہے۔ پچھلی صدی میں یہ کیمرے افغان شہر کی سڑکوں پر عام نظر آتے تھے جو پورٹریٹ بنانے کا ایک تیز اور آسان طریقہ تھا خاص طور پر شناختی دستاویزات کے لیے۔ یہ سادہ، سستے اور پورٹیبل تھے۔

ان کیمروں نے اس ملک میں نصف صدی تک بادشاہت سے لے کر کمیونسٹ قبضے اور غیر ملکی حملوں سے لے کر شورش تک ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کی عکس بندی کی ہے لیکن 21 ویں صدی کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے باعث انہیں متروک کر دیا۔

جنگ کے بعد کے افغانستان میں زندگی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے تقریباً ناپید ان کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے ہرات اور قندھار سے لے کر کابل اور بامیان تک سینکڑوں بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بنائی گئی ہیں جو ایک پیچیدہ اور کبھی کبھی متضاد بیانیے کو اجاگر کرتی ہیں۔

ایک ماہ کے دوران بنائی گئی تصاویر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کس طرح امریکی فوجیوں کے انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد بہت سے افغانوں کے لیے زندگی ڈرامائی طور پر بدل گئی ہے جب کہ دوسروں کے لیے، دہائیوں کے دوران بہت کم تبدیلی آئی ہے، قطع نظر اس کے اقتدار کسی کے بھی ہاتھ میں رہا ہو۔

ایک گزرے ہوئے دور کی ڈیوائس، باکس کیمرے سے لی گئی تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ گویا ملک کا ماضی کچھ حوالوں سے اب بھی اس کے حال پر غالب ہے، یہ ایسا ہی ہے۔

پہلی نظر میں دھندلی، بلیک اینڈ وائٹ اور آؤٹ آف فوکس تصاویر ایسے افغانستان کو ظاہر کرتی ہیں جہاں وقت ٹھر گیا ہو۔ لیکن یہ جمالیاتی دھوکہ ہے۔ یہ اس ملک کی عکاس ہیں جیسا کہ یہ اب ہے۔

کیمرے کے ساتھ افغانوں کا ناخوشگوار رشتہ

1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران طالبان نے اسلام کی تعلیمات کے منافی انسانوں اور جانوروں کی تصویر کشی پر پابندی لگا دی تھی۔

اس وقت بہت سے باکس کیمرے توڑ دیے گئے حالانکہ کچھ کو خاموشی سے برداشت کیا گیا۔ لیکن ڈیجیٹل دور کی آمد اس ڈیوائس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

کابل میں کیمرہ فوری کے سابق  فوٹوگرافر 72 سالہ لطف اللہ حبیب زادہ کا کہنا ہے کہ ’یہ چیزیں ختم ہو گئی ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے مارکیٹ میں ہیں اور (پرانے) متروک ہو گئے ہیں۔‘

حبیب زادہ کے پاس اب بھی اپنا پرانا باکس کیمرہ موجود ہے جو پچھلی صدی میں یادگار فوٹوگرافر رہنے والے ان کے والد نے انہیں دیا تھا۔

یہ اب کام نہیں کرتا لیکن انہوں نے اس کی سرخ چمڑے کی کوٹنگ کو پیار سے محفوظ کر رکھا ہے جو اس سے لی گئیں تصاویر سے مزین ہے۔

آج افغان شہر کی سڑکوں پر بل بورڈز کے اشتہارات میں چہروں کو سپرے سے پینٹ کر دیا گیا ہے اور کپڑوں کی دکانوں پر چہروں کی تصویر کشی پر نئی پابندی پر عمل کرنے کے لیے مجسموں کے سروں کو سیاہ پلاسٹک کے تھیلوں میں لپیٹا گیا ہے۔

لیکن انٹرنیٹ کے دور اور سمارٹ فونز کی آمد نے فوٹوگرافی پر پابندی لگانا ناممکن بنا دیا ہے۔ ایک پرانے باکس کیمرہ کا نیا منظر جوش اور تجسس پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ ان لوگوں میں بھی جو نئے سخت قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ پیدل سپاہیوں سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک بہت سے طالبان باکس کیمرہ پورٹریٹ کے لیے پوز دے کر خوش تھے۔

کابل میں ایک گودام کے باہر مردوں کا ایک ہجوم کیمرہ سیٹ ہونے پر اسے غور سے دیکھ رہا ہے۔ پہلے تو وہ شرمیلے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی پہلے پورٹریٹ سامنے آتے ہیں تجسس ان کے تحفظات پر غالب آ جاتا ہے۔ جلد ہی وہ مسکرانے لگتے ہیں اور ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں۔

تصاویر لینے کے انتظار میں جب ایک سیاہ کپڑے کا پس منظر دیوار سے لگانا پڑتا ہے تو وہ مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص اپنی تصویر کے لیے آگے بڑھتا ہے سخت چہرے عارضی مسکراہٹوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اپنی اسالٹ رائفلز پر اپنی گرفت کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے وہ سیدھے کیمرے کے چھوٹے لینز میں دیکھتے ہیں اور پوز بناتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر افراد نوعمری یا 20 کی دہائی کے اوائل میں طالبان میں شامل ہوئے تھے اور وہ جنگ کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ اپنے پرجوش عقیدے اور اپنے ملک پر حملہ کرنے والے ان امریکی اور نیٹو فوجیوں کو نکالنے کے عزم کی وجہ سے اس بنیاد پرست تحریک کی طرف راغب ہوئے تھے جنہوں نے دو دہائیوں تک جاری رہنے والی افغان حکومتوں کو سہارا دیا گیا جو بدعنوانی اور جرائم پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔

کالی پگڑی کے نیچے سے جھانکتی ہلکی نیلی آنکھوں والے 52 سالہ طالبان کے رکن بہادر راہانی کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کو دوبارہ اقتدار میں دیکھ کر خوش ہیں۔ ان کے بقول ’افغانستان کی تعمیر نو کی جائے گی اور طالبان کے بغیر یہ ممکن نہیں۔‘

امن، جس کی ایک بھاری قیمت ہے

ملک بھر میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے دو سال بعد وہاں اسی زندگی کی مضبوط بازگشت سنائی دے رہی ہے جیسا کہ 2001 میں امریکی زیر قیادت نیٹو افواج کی حکومت سے ان کا تختہ الٹنے سے پہلے تھا۔

ایک بار پھر ملک پر ایک بنیاد پرست تحریک کی حکمرانی ہے جس نے اپنے نافذ کردہ بہت سے سخت قوانین کو بحال کر دیا ہے۔ نوئے کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت غیر اسلامی سمجھی جانے والے فن اور ثقافت کو تباہ کرنے کے لیے بدنام تھی جیسا کہ بامیان میں پہاڑوں میں تراشے گئے بڑے اور قدیم بدھا کے مجسمے کو بموں سے اڑانا۔

انہوں نے وحشیانہ سزائیں عائد کیں، چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے، گستاخوں کو عوامی چوکوں میں لٹکایا اور ’زنا‘ کے الزام میں خواتین کو سنگسار کیا۔

اس بار بھی پھانسی اور کوڑوں کی سزائیں نافذ کی گئی ہیں۔ موسیقی، فلموں، رقص اور پرفارمنس پر پابندی عائد ہے اور خواتین کو تقریباً تمام عوامی زندگی بشمول تعلیم اور چند پیشوں کے، علاوہ ایک بار پھر خارج کر دیا گیا ہے۔

بنیاد پرست پالیسیوں کی طرف واپسی نے مغربی ڈونرز، امدادی کارکنوں اور تجارتی شراکت داروں کو پیچھے  ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ خواتین کے کام کرنے پر پابندی، غیرملکی امداد میں کٹوتیوں اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے غربت بحران کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

لیکن یہ راحت کی بات ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں کے حملوں، متعدد شورشوں اور خانہ جنگیوں کی مسلسل خونریزی بڑی حد تک ختم ہو گئی ہے۔

اب بھی کبھی کبھار بم دھماکے ہو رہے ہیں جن کی زیادہ تر ذمہ داری طالبان کے مخالف شدت پسند گروپ داعش خراسان پر ڈالی جاتی ہے لیکن انٹرویو دینے والے اکثر افغانوں کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ماضی کے مقابلے میں دہائیوں میں سب سے زیادہ پرامن ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 15 اگست 2021 سے 30 مئی 2023 کے درمیان جان بوجھ کر کیے گئے حملوں میں 1095 شہری مارے گئے۔ یہ وہ عرصہ ہے جب طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا تھا۔ جو لوگ موجودہ حکومت کو ناپسند کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ڈاکے، اغوا اور بدعنوانی جو کہ پچھلی حکومتوں کے دور میں عروج پر تھی، پر بڑی حد تک لگام لگائی گئی ہے۔

لیکن ضروری نہیں کہ کم جرائم اور کم تشدد خوش حالی اور خوشی کے متبادل ہو سکتے ہیں۔

خواتین منظرعام سے غائب

کابل کی ایک گلی میں ایک تین منزلہ عمارت میں خواتین کا ایک گروپ خاموشی سے کھڈی پر کام کر رہا ہے۔ زمرود کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ان کی پھرتیلی انگلیاں سوت کے دھاگوں میں گھوم رہی ہیں جب وہ قالین بنا کر رنگین اون کو گرہ لگاتی ہیں۔ وہ کسی مشین کی طرح تیزی سے کام کرتی ہیں لیکن ان کی آواز نرم اور اداس ہے۔

انہوں نے بتایا: ’میری زندگی ایک قیدی کی طرح ہے۔ جیسے پنجرے میں قید پنچھی۔‘

20 سال کی ایک اور نوجوان خاتون کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی تھی لیکن طالبان نے خواتین کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگا دی۔ اب وہ اور ان کی 23 سالہ بہن ایک قالین سازی کے کارخانے میں کام کرتی ہیں، اس ہنر کو آزماتے ہوئے جو ان کی والدہ نے انہیں بچپن میں سکھایا تھا۔ وہ ان بہت کم خواتین میں سے ہیں جو گھر سے باہر پیسہ کما سکتی ہیں اور دوسروں کی طرح انہوں نے بھی اپنا پورا نام ظاہر نہیں کیا۔

طالبان کی واپسی کے بعد خواتین نے سب سے بڑی جن تبدیلیوں کا سامنا کیا ان میں لباس سب سے اہم ہے۔ انہیں ڈریس کوڈ پر سختی سے عمل کا حکم ہے، خواتین کے لیے زیادہ تر ملازمتوں پر پابندی عائد ہے اور پارک میں جانا یا ریستوراں میں جانے جیسی چھوٹی خوشیوں سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا ہے۔

لڑکیاں چھٹی جماعت سے آگے سکول نہیں جا سکتیں اور خواتین سفر کرنے کے لیے کسی محرم کی محتاج ہیں۔

طالبان کے ان تمام عزائم اور مقاصد کے لیے خواتین کو عوامی زندگی سے مٹایا جا رہا ہے۔

اس ماحول میں بھی زمرود نے گریجویشن کے اپنے خواب کو ترک نہیں کیا جن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید رکھنی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن ہم آزاد ہوں گے اور اس امید پر کہ آزادی ممکن ہے، اسی لیے ہم جیتے اور سانس لیتے ہیں۔‘

دوسرے کمرے میں موجود 50 سالہ حکیمہ اپنی نوعمر بیٹی فریشتا کو بُنائی کا ہنر سکھا رہی ہیں۔ یہ ان کے لیے روزی کمانے کا واحد طریقہ ہے حالانکہ وہ اب بھی خواب دیکھتی ہے کہ ان کی 16 سالہ بیٹی کسی دن ڈاکٹر بنے گی۔

حکمیہ کا کہنا ہے کہ ’افغانستان پیچھے کی طرف چلا گیا ہے۔ ایک تصویر بنانے کے لیے انہیں پورا برقعہ پہننا پڑتا ہے۔ لوگ گھر گھر روٹی کے ٹکڑے کی بھیک کے لیے جاتے ہیں کیوں کہ  ہمارے بچے  بھوک سے مر رہے ہیں۔‘

اگرچہ ملک کے قدامت پسند، قبائلی حصوں میں معاشی آزادی اور عوامی زندگی اور حکومت میں آواز اٹھانے والی خواتین کے لیے وقت پیچھے مڑ گیا ہے لیکن خواتین کے لیے افغانستان میں توقعات ہمیشہ مختلف رہی ہیں جو برسوں کے دوران بہت کم ہی بدلی ہیں یہاں تک کہ امریکہ اور نیٹو فوج کی موجودگی کے دوران بھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے باوجود بہت سے افغانوں کے لیے تعلیم ایک ترجیح ہے۔ ملک بھر میں درجنوں انٹرویوز میں طالبان کے کچھ ارکان سمیت تقریباً سبھی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اور خواتین تعلیم یافتہ ہوں۔ زیادہ تر نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ تعلیمی پابندی عارضی ہے اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو آخرکار سکولوں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو گھر میں قید رکھنے سے ملک یا اس کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

قندھار کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ معلم حاجی محب اللہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں ڈاکٹروں، اساتذہ کی ضرورت ہے۔ خواتین کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے تاکہ افغانستان ہر شعبے میں بہتر ہو۔‘

بین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی قیادت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ خواتین پر عائد پابندیاں واپس لیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قندھار میں ایک انٹرویو کے دوران کہا: ’یہ افغانوں پر منحصر ہے نہ کہ غیر ملکیوں پر، انہیں اس معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔‘

ترجمان کے بقول: ’ہم سکول کھولنے کے حوالے سے صحیح وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور جب کہ سکول اب بند ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔‘ انہوں نے اس حوالے سے کوئی ٹائم لائن تو نہیں دی لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’دنیا کو اسے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘

فاتح باغی

تبین کا گاؤں دریائے ارغنداب کی وادی میں واقع ہے۔ یہ صوبہ قندھار کے گرد آلود صحرا سے الگ تھلگ پھلوں کے باغات اور آبپاشی کی نہروں پر مشتمل ایک زرخیز حصہ ہے۔

لیکن اس کے ارد گرد جنگ کی باقیات ہر جگہ موجود ہیں۔ امریکی جنگی چوکیوں کی چھوڑی ہوئی باقیات نے بارودی سرنگوں اور دستی بموں کے انتباہات کو دھندلا کر دیا ہے جو دھماکوں سے جھکی ہوئی دیواروں پر پینٹ کیے گئے ہیں۔ چھوڑے ہوئے خار دار تار کے الجھنے ہوئے ٹکڑے جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔

بمباری سے مکان کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں اور یہاں ایسے مسلح جوان ہر جگہ موجود ہیں جو لڑائی کی زندگی سے امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

نئی ملازمتیں، سڑکوں کی نگرانی کرنا، عمارتوں کی حفاظت کرنا اور کوڑا کرکٹ جمع کرنا حکمرانوں کے لیے روز مرہ کے ضروری کام ہیں۔ یہ جنگ چھیڑنے سے کم ڈرامائی ہے لیکن تشدد نہ ہونے سے یہاں واضح طور پر سکون کا ماحول ہے۔

فضائی حملوں یا گولیوں کے خوف کے بغیر بچے ایک پل سے گدلے پانی میں چھلانگ لگاتے ہوئے نہر میں خوشی سے چیخ رہے ہیں۔

28 سالہ عبدالحلیم ہلال شہتوت کے درخت کے نیچے کڑکتی دھوپ سے بچ کر تصویر بنانے سے پہلے کہتے ہیں: ’زندگی اب بہت زیادہ خوشگوار ہے۔ اس سے پہلے بہت زیادہ ظلم اور جارحیت ہوا کرتی تھی۔ معصوم لوگ مر گئے۔ دیہاتوں پر بمباری کی گئی۔ ہم اسے برداشت نہیں کر سکے۔‘

غیر ملکی فوجیوں سے لڑنا اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے انہوں نے نوعمری میں ہی طالبان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے جنگ میں 20 سے زیادہ دوست کھوئے اور اس سے بھی زیادہ زخمی ہوئے۔ جب وہ یتیم بچوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے مردہ بھائیوں کی یاد میں ڈوب جاتے ہیں لیکن انہیں ایک غیرمتزلزل یقین سے تسلی ملتی ہے کہ ان کی قربانی قابل قدر تھی۔

وہ کہتے ہیں: ’جو لوگ مارے گئے وہ ملک کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ یہ ان کے خون کی وجہ سے ہے کہ اب ہم یہاں ہیں، آزادانہ انٹرویو دے رہے ہیں اور یہاں کے مسلمان امن سے رہ رہے ہیں۔‘

ایک دیہاتی باکس کیمرہ کے ارد گرد جمع ہونے والے متجسس بچوں اور بڑوں کی جھنجھلاہٹ کو دیکھ کر وہاں سے گزر رہا ہے۔ ’یہ بہت عجیب ہے‘، وہ بڑبڑاتا ہے۔ ’ہم ان غیر ملکیوں کے خلاف لڑتے تھے اور اب وہ یہاں تصویریں لے رہے ہیں۔‘

26 سالہ طالبان جنگجو مجیب الرحمٰن فقیر اب کابل میں ایک سکیورٹی چوکی کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی امن کے وقت کی سوچ کو اپنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ وہ صرف جنگ لڑنا ہی جانتے تھے۔ ان کے بقول: ’میں اپنے سر کی قربانی دینے کے لیے تیار تھا اور میں اب بھی تیار ہوں۔‘

ایک متزلزل معیشت اور زندہ رہنے کی جدوجہد

امریکی افواج کے خلاف جنگ کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری تو آئی ہے لیکن امن کے ساتھ ہی ملک کو معیشت کی تنزلی کا بھی سامنا ہے۔

2021 میں جب طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کیا تو بین الاقوامی ڈونرز نے فنڈنگ واپس لے لی، بیرون ملک افغان اثاثے منجمد کر دیے، اس کے مالیاتی شعبے کو الگ تھلگ کر دیا اور ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

خواتین کے کام کرنے پر تقریباً مکمل پابندی نے گرتی ہوئی معیشت کو مزید مفلوج کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق 2020 کے مقابلے میں گذشتہ سال فی کس آمدنی میں اندازاً 30 فیصد کمی آئی۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے چار کروڑ افراد میں سے تقریباً نصف کو خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 34 میں سے 25 صوبوں میں غذائی قلت ہنگامی حد سے اوپر چلی گئی ہے۔

زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنا ایک ایسی چیز ہے جو کاسنیا چار سال کی عمر میں ہی جان گئی ہے۔ کابل کے باہر ایک اینٹوں کے بھٹے میں، وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مٹی کا ایک ٹکڑا نکالتی ہے، اسے اس وقت تک گوندھتی ہے جب تک کہ یہ اینٹوں کے سانچے کے لیے لچکدار نہ بن جائے۔ ان گنت بار ایسا کرنے کے بعد اس کے ہاتھ خود بخود چلنے لگتے ہیں۔

ناشتے اور دوپہر کے کھانے کے لیے مختصر وقفے کے ساتھ وہ ہفتے میں چھ دن طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کام کرتی ہے۔ اپنے بہن بھائیوں اور اپنے والد کے ساتھ وہ اس وسیع و عریض کارخانے میں بہت سے خاندانوں کی طرح کام کرتی ہے جہاں بچے تین سال کی عمر میں مزدور بن جاتے ہیں۔

کاسنیا کے والد 35 سالہ وحید اللہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پڑھ کر استاد، ڈاکٹر اور انجینئر بنیں اور ملک کے مستقبل سنواریں۔

ان کے بقول یہاں تک کہ پورے خاندان کے کام کرنے کے باوجود کھانے کے لیے اکثر پیسے نہیں ہوتے ہیں اور وہ دکانداروں سے قرض لے کر زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹے کے علاوہ سب اینٹ بنانے کا کام کرتے ہیں۔

وحید اللہ نے کہا کہ ’جب میں چھوٹا تھا، میرا خواب تھا کہ میں آرام دہ زندگی گزاروں، ایک اچھا دفتر ہو، ایک اچھی کار ہو، پارکوں میں جاؤں، اپنے ملک اور بیرون ملک گھوموں اور یورپ جاؤں لیکن اس کی بجائے میں اینٹیں بناتا ہوں۔‘ ان کی آواز میں کوئی کڑواہٹ نہیں تھی بس ایک ناگزیر تقدیر کی قبولیت ہے۔

بہت سے افغان گزارا کرنے کے لیے اپنا سامان تک بیچنے پر مجبور ہیں۔ فرنیچر سے لے کر کپڑوں اور جوتوں تک۔

جب طالبان نے فلموں پر پابندی لگائی تو نبی عطائی کے پاس پیچھے ہٹنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ 70 کی دہائی میں بطور اداکار ایک درجن ٹیلی ویژن سیریز اور 76 فلموں میں نظر آئے جن میں گولڈن گلوب جیتنے والی 2003 کی فلم ’اسامہ‘ بھی شامل ہے۔ لیکن اب وہ بے سہارا ہیں۔

ان کا مکان ایک نشیبی گلی میں ہے جو اب تقریباً فرنیچر سے خالی ہے جسے انہوں نے بازار میں بیچ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالا تھا۔ فروخت کی گئی گھریلو اشیا میں ان پسندیدہ ٹی وی بھی شامل ہے۔

42 سال اداکاری کے بعد نبی عطائی کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے دونوں بیٹوں کے پاس روزگار ہے جو فلم اور موسیقی کے کاروبار کا حصہ تھے۔ عطائی خوش ہیں کہ سڑکیں اب محفوظ ہیں لیکن ان کو 13 افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ پالنا ہے لیکن ان کا شکم بھرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

انہوں نے کوڑا اٹھانے سے لے کر کسی بھی کام کے لیے مقامی حکام سے درخواست کی ہے لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے پاس اپنا سامان بیچنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

عطائی کے بقول: ’مجھے ابھی کوئی امید نہیں ہے۔ طالبان کے قوانین کے تحت اب بھیک مانگنے کی سزا قید ہے۔‘

پچھلے ایک سال سے وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ ان کے گال دھنسے ہوئے ہیں، اس کا جسم سکڑ گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک اداسی ہے جو شاذ و نادر ہی کم ہوتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنے شاندار دنوں کا ذکر کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہم نے پہلے بھی اچھی فلمیں بنائی ہیں۔ خدا کے لیے موسیقی اور سنیما کی دوبارہ اجازت دی جائے گی اور لوگ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک کی تعمیر نو کریں گے جس سے حکومت عوام کے قریب آئے گی اور ایک دوسرے کو دوست اور بھائی کی طرح گلے لگائے گی۔‘

گلیمر کی ننھی سی چمک 

جب کابل میں رات کی تاریکی پھیلتی ہے تو شادی ہالوں کی ٹمٹماتی روشنیاں اندھیرے کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ گلیمر کی ننھی سی چمک ہے۔ 

معاشی بدحالی کے باوجود شادی ہالز کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کے بعد کچھ مالدار افغان پناہ گزین روایتی شادی کی تقریبات کے لیے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ شادیاں افغان ثقافت کا ایک بڑا حصہ ہیں اور خاندان بعض اوقات سینکڑوں یا ہزاروں مہمانوں کے لیے ایک شاندار پارٹی کو یقینی بنانے کے لیے خود کو دیوالیہ تک کر لیتے ہیں۔

امپیریل کانٹی نینٹل شادی ہال کی تعمیر چار سال قبل شروع ہوئی تھی لیکن کرونا کی وبا اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے باعث اس میں خلل پڑا تھا۔ شاندار بنکویٹ ہال نے آخر کار پچھلے سال اپنے دروازے کھول دیے۔

کانٹی نینٹل کے 30 سالہ مینیجر محمد ویسل قوانی ایک شاندار سوٹ میں گلیمرس اور ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ہالز میں چکر لگا رہے ہیں جہاں ایک ہی رات میں چار شادیوں کی تقریبات جاری تھیں۔ وہ کابل یونیورسٹی میں معاشیات اور سیاست کے سابق لیکچرر ہیں جو ملک کی معاشی پریشانیوں کے باوجود کاروبار کی ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’کاروبار کمزور ہیں اور سخت حکومتی قواعد و ضوابط اس حوالے سے مددگار نہیں۔ طالبان ٹیکس بڑھا رہے ہیں۔‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بہتر ٹیکس کی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے اتنا کاروبار نہیں ہے۔

محمد ویسل قوانی نے مزید کہا کہ موسیقی اور رقص پر پابندی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ موسیقار اور یہاں تک کہ ڈی جیز بھی ختم ہو گئے جو اضافی آمدنی کا باعث تھے۔ شادیوں کو صنف کے لحاظ سے الگ کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات خواتین کے لیے شادیوں میں کچھ زیادہ ہی ہلا گلا ہوتا ہے۔ 

کبھی کبھار خواتین اور لڑکیاں ہال کے خواتین والے حصے میں ٹیپ پر موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو ’پابندیاں ہوں یا نہ ہوں وہ ایسا کر ہی لیتی ہیں۔ خواتین خواتین ہی ہیں۔‘

دارالحکومت کابل سے پانچ سو میل مغرب میں ہرات شہر کے مضافات میں 39 سالہ تاجر عبدالخالق خدادادی کو ایک مختلف ہی چیلنجز کا سامنا ہے۔

وہ ریان سیفرون کمپنی کے نائب صدر ہیں جو بیرون ملک صارفین کو قیمتی زعفران برآمد کرتے ہیں خاص طور پر یورپ اور امریکہ میں لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اور اس کے نتیجے میں پابندیوں نے بہت سے غیر ملکی کلائنٹس کو افغان کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا ہے حالانکہ یہ ان چند بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

یہاں اب بھی خواتین کو ملازمت دینے کی اجازت ہے جن کے نازک ہاتھ زعفران کے پھولوں سے قیمتی مصالحے کو نکالنے اور سنبھالنے کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔

بینکنگ سیکٹر پر عالمی پابندی نے بہت سی افغان کمپنیوں کے پاس تجارت کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے جن کے پاس تیسرے ملک، عام طور پر پاکستان کے ذریعے، کام کرنے کا آپشن بچا ہے لیکن اس سے لاگت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر خشک سالی ہے جس نے زعفران سمیت کئی فصلوں کو تباہ کر دیا ہے۔

ان کی کمپنی کا مقصد اس سال پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔ اس کے بجائے ان کی پیداوار تین سال پہلے کے مقابلے نصف رہ گئی۔ خدادادی کا کہنا ہے کہ وہ ثابت قدم رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے لیے کامیاب کاروبار افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افراتفری کے ابتدائی دنوں میں خدادادی خاندان نے بھی ان دسیوں ہزار لوگوں میں شامل ہونے کے لیے شدید دباؤ محسوس کیا جو ملک سے بھاگ رہے تھے۔ ان کے پاس ویزا تھا اور گھر والوں اور دوستوں نے انہیں یہاں سے جانے کی ترغیب بھی دی لیکن انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔

ان کے بقول: ’یہ بہت زیادہ مشکل فیصلہ تھا لیکن اگر میں چلا جاؤں، تمام ہنرمند، پڑھے لکھے لوگ چلے جائیں تو یہ ملک کون سنبھالے گا؟ اس ملک کے مسائل کب حل ہوں گے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی