افغانستان میں طالبان حکومت بدھ کو قوش تیپہ کینال نامی وسطی ایشیا کے ایک بڑے آبی منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر رہی ہے۔
باختر نیوز ایجنسی کے مطابق افغان حکام کا دعوی ہے کہ قوش تیپہ کینال کا پہلا مرحلہ اپنی مختص مدت سے آٹھ ماہ قبل مکمل کر لیا گیا ہے۔
اس پر کام تقریباً دو سال قبل افغان حکومت نے ملکی آمدنی سے شروع کیا تھا۔
دوسرے مرحلے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیے افغان طالبان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر، نائب وزیر اعظم برائے انتظامی امور مولوی عبدالسلام حنفی، وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی اور دیگر ذمہ داران بلخ پہنچے ہیں۔
اس منصوبے پر 9 ستمبر 2022 کو باقاعدہ کام کا آغاز کیا گیا تھا۔
قوش تیپہ کینال 285 کلومیٹر طویل، 115 میٹر چوڑی اور 8.5 میٹر گہری انسانوں کی بنائی جانے والی نہر ہے جو صوبہ بلخ سے شروع ہو کر فاریاب تک پہنچے گی۔ یہ نہر توقع ہے کہ راستے میں 60 ہزار ہیکٹر زمین کو سیراب کرے گی۔
قوش تیپہ میں کینال میں افغانستان اور دو وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان اور ازبکستان کے درمیان قدرتی سرحد کا کردار ادا کرنے والے آمو دریا (Oxus River) کا پانی چھوڑا جائے گا۔
اس نہر کی تعمیر میں مصروف افغانستان کے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی کے انجینئر حمید اللہ ذہین نے قوش تیپہ کینال پر دو بڑے پلوں کی تعمیر کا 90 فیصد کام مکمل کرنے کا ستمبر 2023 میں اعلان کیا تھا۔
کمپنی کے قوش تیپہ کینال کے تکنیکی امور کے کا کہنا تھا کہ ان دونوں پلوں کا باقی کام چند روز میں مکمل کر لیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ان پلوں میں استعمال ہونے والا تعمیراتی سامان سیمینٹ سریا وغیرہ افغانستان کی اپنی پیداوار ہے اور افغان انجینئرز ان کی تعمیر کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
اس میں کام کرنے والی مشینری بھی بیرون سے درآمد نہیں کی گئی بلکہ اکثر وہی مشینری ہے جو کئی دہائیوں سے افغانستان میں موجود ہے اور کام میں لائی جا رہی ہے۔
یہ آبی منصوبہ سب سے پہلے سردار داؤد خان کے دور حکومت میں منظور کیا گیا تھا لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام کے سبب یہ شروع نہ کیا جاسکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے افغانستان دریائے آمو کا 27.5 فی صد پانی استعمال کر رہا ہے۔ افغانستان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کبھی اس پانی سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا گیا۔
اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں 108 کلو میٹر نہر کی کھدائی کی جائے گی۔ اس میں سے فاضل مٹی نکال کر نہر کے کناروں میں ان جگہوں پر ڈالی گئی جو دریائے آمو کے پانی کے نذر ہوگئی تھیں۔ ان جگہوں پر مٹی ڈالنے کے بعد سبزہ اور درخت لگائے جائیں گے۔ جس سے نہ صرف کینال کی دلکشی میں اضافہ ہوگا بلکہ ہوا کی صفائی ستھرائی کا سبب بھی بنے گا۔
ایک سو آٹھ کلو میٹر کا یہ علاقہ صوبہ بلخ کے ضلع کلدار سے لے کر نہر شاہی اور ضلع دولت آباد سے گزرتا ہے۔ کینال کے نقطہ آغاز پر واٹر کنٹرول عمارتوں کی تعمیر، کینال کے ساتھ 108 کلو میٹر طویل مختلف مقامات پر پل اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کی جائیں گی۔
پہلے مرحلے کی تکمیل پر ایک اندازے کے مطابق 16 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ افغانی لاگت آئی۔
دوسرا مرحلہ ضلع دولت آباد سے شروع ہوکر صوبہ بلخ کے شور تیپہ، خواجہ دوکوہ اضلاع سے ہوتے ہوئے صوبہ فاریاب کے چار اضلاع تک جاتا ہے۔
تیسرا مرحلہ کینال سے چھوٹی چھوٹی نہروں کی تعمیر و ڈیزائن پر مشتمل ہے۔ اس مرحلے میں زرعی زمینوں کے لیے آبپاشی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ جس سے کاشت کار اپنی زرعی زمینیں سیراب کریں گے۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ہزاروں ہیکٹر خشک اور بنجر زمین سیراب ہوجائے گی۔ جس سے پھل، غلہ اور سبزی جات کے فصلوں میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین نایاب نسل کے پرندوں کے تعداد میں اضافے کی بھی توقع کر رہے ہیں۔
حکومت کو امید ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے غریب زمین دار جو ٹیوب ویل لگانے کی استطاعت نہیں نہیں رکھتے ان کی زمین سیراب ہوکر قابل کاشت ہوجائے گی، غربت کی شرح میں کمی آئے گی، زراعت کے شعبے میں ہم خود کفیل ہوجائیں گے، مستقبل میں اس کینال پر پاور پلانٹ بنا کر بجلی بھی پیدا کیا جائے گا۔ جس سے رفتہ رفتہ توانائی کے شعبے میں بھی دوسرے ممالک پر ہمارا انحصار کم ہوتا جائے گا۔
حالیہ دنوں ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیاؤف نے بھی اس کینال پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ ازبکستان کے صدر نے وسطی ایشیائی ممالک کے پانچویں سربراہی اجلاس میں قوش تیپہ کینال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان حکومت بڑی سرعت کے ساتھ فعال طریقے سے ایک نہر بنا رہی ہے۔ اس نہر کے بن جانے سے وسطی ایشیا میں پانی کا توازن تبدیل ہوسکتا ہے۔‘
افغان حکام کے مطابق ازبک صدر کی تشویش بلاجواز ہے۔ ایک تو قوش تیپہ کینال پر جس وقت کام شروع ہو رہا تھا اس وقت ازبکستان کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم آئی تھی جس نے کینال کا دورہ کیا اور افغانستان کے حکام کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ ان کا اصرار ہے کہ اس وقت اس ٹیم کو کوئی قابل اعتراض نکتہ نہیں ملا اور نہ صدر صاحب کو اس پر کوئی تشویش ہوئی۔
اس سے 1958 میں افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی بھی پاس داری ہوگئی، جس کی رو سے پانچوں ممالک باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت سے دریائے آمو کے پانی سے استفادہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔
افغان حکام کے مطابق ماضی میں دریائے آمو کے پانی سے افغان حکومتوں نے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ جیسے دریائے ہلمند کا پانی مفت میں ایران میں بہتا تھا اسی طرح دریائے آمو کا پانی بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر ازبکستان، کرغزستان اور ترکمانستان میں بہتا تھا۔ اب حکومت نے اس پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے اپنی ضرورت میں لانے کے لیے کوئی منصوبہ شروع کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق دریائے آمو پر کینال بنانے پر تشویش بھی اس ملک کو ہے جو اس دریا کے پانی کے استحقاق کے حوالے دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں دریا بنتا نہیں بلکہ صرف بہتا ہے اور کینال بن جانے کے بعد بھی چھ فی صد پانی ازبکستان کو پہنچے گا۔