افغانستان دہائیوں سے ایک ایسی صورت حال سے نبرد آزما ہے جس نے بچوں کے چہروں سے مسکراہٹ اور ماں باپ سے سکون چھین لیا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان کابل واحد شہر ہے جس نے بموں، گولوں، آگ اور خاک کے مناظر کے باوجود اپنی جہت اور تفریح کے عنصر کو کسی حد تک برقرار رکھا ہے اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود نوجوانوں کو کھیل کی جانب مائل رکھا ہے۔
کرکٹ کبھی بھی افغانستان کی تاریخ اور روایت کا حصہ نہیں رہا۔ انگریزوں سے مخاصمت کی تاریخ نے باغیانہ رویہ کے طور پرانگریزوں کی ایجاد کردہ کرکٹ کو شجر ممنوعہ بنائے رکھا۔
کرکٹ کے لوازمات اور ساز و سامان کی بھرمار کے باعث غربت زدہ معاشرہ میں اس کا تصور ہی عبث تھا اور پھر مذہب کے غلبے نے اسے مزید ناممکن بنا دیا تھا۔
لیکن ان خاندانوں کے بچے جو افغان جنگ سے متاثر ہونے کے بعد پاکستان میں پناہ گزین ہوئے ان کے لیے پشاور اور گردونواح میں سادہ ترین ٹیپ بال کرکٹ دلچسپی کا عنصر بن گیا جنھیں مہاجر کیمپ میں تعلیمی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔
انہیں وقت گزاری کے لیے کرکٹ بھا گئی اور تواتر کے ساتھ مقامی پشتونوں کے ساتھ ’پہاڑی کرکٹ‘ کھیلنے لگے جس میں ناہموار زمین کے باعث زیادہ سے زیادہ قوت ہی کھیل کا عنوان بنتی تھی۔
افغانستان سے آنے والے یہ تارکین وطن اپنی جسمانی ساخت اور مضبوط پٹھوں کی باعث جارحانہ بلے باز اور تیز بولر بن گئے۔
مقامی کلبوں کو جب باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ ملنے لگی تو وہ انہیں جیت کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع دینے لگے اور یہیں سے افغان قوم میں کرکٹ کا جنون پروان چڑھنے لگا۔ ایک وقت تھا کہ پشاور کے کلبوں میں 100 فیصد کھلاڑی افغانی ہوتے تھے۔
قومی ٹیم کی تشکیل
افغانستان میں طالبان کی اولیں آمد سے پہلے کابل میں کرکٹ کا کھیل کھیلا جانے لگا تھا۔ پاکستان سے اپنے وطن کبھی کبھی آنے والےافغان نوجوانوں نے کابل قندھار جلال آباد اور کنڑ میں ہلکی پھلکی کرکٹ شروع کر دی تھی تاہم 9/11 کے بعد جو حالات ہوئے اس سے کرکٹ پھر عنقا ہوگئی۔
طالبان کے شدت پسند رویہ نے کرکٹ پر پابندی لگا دی لیکن جب طالبان مخالف حکومت بنی اور کابل میں کچھ امن ہوا تو باقاعدہ کرکٹ شروع ہوگئی۔
اس دوران بہت سے افغان کھلاڑی پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا حصہ بھی بن چکے تھے جن میں موجودہ ٹیم میں شامل سابق کپتان محمد نبی بھی تھے جو پاکستان کسٹمز کی ٹیم کا حصہ تھے۔
آئی سی سی اور پاکستان کی بھرپور کمک
افغانستان میں کرکٹ کو فروغ دینے میں آئی سی سی اور پاکستان نے بھرپور حصہ لیا۔ آئی سی سی نے افغانستان کرکٹ بورڈ کے قیام کے بعد مالی مدد دی اور انفرا سٹرکچر کے بنانے میں جدوجہد کی۔
پاکستان نے افغان کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینے میں مدد دی۔ ویزے کے عمل کو آسان بنایا اور ان کی کوچنگ کے لیے راشد خان، راشد لطیف، انضمام الحق، کبیر خان اور دیگر کوچز کوافغانستان بھیجا تاکہ افغان کرکٹ ترقی کرسکے۔
آئی سی سی نے متحدہ عرب امارات کی مدد سے افغان ٹیم کی پریکٹس اور ٹریننگ کے لیے دبئ میں انتظامات کیے جس نے ٹیم میں نئی روح پھونک دی۔
زمین سے آسمان کا سفر
افغانستان کی ٹیم نے اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوٹی ٹیموں کے ساتھ شروع کی لیکن جلد ہی وہ بڑی ٹیموں کے مقابلے پر آگئی۔
2010 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پہلی بار کوالیفائی کرنے کے بعد ان کا سفر رکا نہیں۔
2015 کا ورلڈکپ ان کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا جب وہ پہلی دفعہ ورلڈکپ میں شریک ہوئے اور سکاٹ لینڈ کو ہرا کر خبروں کی زینت بن گئے۔
اس ورلڈ کپ کے بعد افغانستان کی ٹیم کی کارکردگی میں بہت نکھار آیا اور وہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور آئر لینڈ جیسی بڑی ٹیموں کوشکست دے کر ٹیسٹ سٹیٹس کی امیدوار بن گئی۔
انڈیا کے خلاف 2018 میں اولیں ٹیسٹ کھیلا اور پھر اس کے بعد مزید ٹیسٹ میچ کھیلے لیکن اپنے مزاج اور پیسوں کی برسات کے باعث ان کی زیادہ توجہ محدود اوورز کے میچوں پر رہی ہے۔
آئی پی ایل کے دروازے کھل گئے
افغانستان کرکٹ کو سب سے زیادہ شہرت آئی پی ایل سے ملی جہاں ان کے کئی کھلاڑی بھاری معاوضے پر فرینچائزز نے خریدے۔
راشد خان جو ٹیم کے سب سے اہم رکن اور دنیائے کرکٹ کے سرفہرست لیگ سپنر ہیں ان کی قیمت خرید نے سب کو حیران کر دیا جب 2017 میں 18 سال کی عمر میں 6 لاکھ ڈالر ان کی ویلیو تھی جنھیں آخری سیزن میں گجرات ٹائٹنز نے 20 لاکھ ڈالر کے عوض حاصل کیا۔
ان کے ساتھ مزید سات افغان کھلاڑی آئی پی ایل کا حصہ ہیں اس کے ساتھ وہ دنیا بھر میں ہر ٹی ٹوئنٹی لیگ میں بھاری معاوضے پر کھیلتے ہیں۔
مجیب الرحمن، محمد نبی، نور احمد، ابراہیم زدران، رحمٰن گرباز، فضل حق فاروقی اور نوین الحق وہ کھلاڑی ہیں جو پی ایس ایل سمیت ہر لیگ کی پہلی خواہش ہیں۔
رواں ورلڈ کپ کا نقطہ عروج
ورلڈ کپ 2023 میں افغانستان کی ٹیم نے حیرت انگیز کارکردگی دکھائی ہے۔ انگلینڈ اور پاکستان کے خلاف ان کی کامیابیاں اتفاقیہ امر نہیں برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔
انگلینڈ کی ٹیم اس ورلڈکپ میں اعزاز کا دفاع تو دور کی بات اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے پریشان ہے لیکن پاکستان ٹیم کے خلاف افغانستان کی کارکردگی نے سب کے دل موہ لیے ہیں۔
ان کی بولنگ کا انداز اور پھربیٹنگ میں دنیا کی ایک بہترین بولنگ کو جس کمال مہارت سے، ہدف کو عبور کرنے کے لیے کھیلا اس نے بڑے بڑے کرکٹ پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔
کم ترین سہولیات، نامناسب حالات اور ضروری اشیا کی عدم دستیابی کے باوجود افغانستان کی ٹیم نے جس جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے کرکٹ کو پروان چڑھایا وہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔
پاکستان اور انگلینڈ کو واضح مارجن سے شکست نے اس ٹیم کو دنیا کی آٹھ بڑی ٹیموں میں شامل کر دیا ہے۔
راشد خان جنہوں نے اگرچہ مشکل حالات کم دیکھے اور اپنی ابتدائی کرکٹ کا خاکہ پاکستانی سرزمین پر تشکیل دیا ہے وہ ان حیران کن نتائج کو ٹیم سپرٹ سے زیادہ افغانستان کے ان لاکھوں عوام کو دیتے ہیں جن کی دعاؤں اور جذبوں نے اپنے سے کئی درجہ مضبوط ٹیموں کو شکست دی۔
وہ جب میچ کے بعد جیت کی خوشیاں آپس میں بانٹتے ہیں تو انہیں وہ لاکھوں لوگ یاد آتے ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ایک کرکٹ کی جیت کو دنیا جیت لینے سے تعبیر دیتے ہیں۔
راشد خان آج افغانستان کے ہر دل عزیز کھلاڑی ہیں اور ہر افغانی نوجوان انہیں اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔
ان کی شاندار کارکردگی اورٹیم کی جیت پر موجودہ طالبان حکمران بھی کشادہ دلی سے تہنیت پیش کرتے ہیں لیکن راشد کو وہ وقت بھی یاد ہے جب گذشتہ سال لڑکیوں کی تعلیم پر انہوں نے احتجاجی پیغام سوشل میڈیا پر دیا تو طالبان سے دھمکیاں ملی تھیں۔
راشد خان یا محمد نبی، سب کھلاڑی اپنی بنیادی کرکٹ کے لیے پاکستان کے شکر گزار ہیں لیکن پاکستان سے میچ کے بعد ان کا انداز مناسب نہیں تھا۔
میچ کے خاتمے پر ابراہیم زدران کا اپنا ایوارڈ پاکستان سے بے دخل ہونے والے غیر قانونی مہاجرین کے نام کرنا پاکستانیوں کو پسند نہیں آیا۔
آسٹریلیا سے میچ عزت کی بات ہے
منگل کو ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں افغانستان کا اہم میچ آسٹریلیا کے ساتھ ہے۔
افغان ٹیم کو شکوہ ہے کہ آسٹریلیا نے سال رواں کے اوائل میں ایک روزہ میچ کی سیریز یہ کہہ کر منسوخ کردی تھی کہ جب تک لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں رہتی ہیں کوئی باہمی کرکٹ نہیں ہوگی۔
اب وہ سوال کر رہے ہیں کہ آسٹریلیا کس طرح ورلڈکپ میں کھیلنے کو تیار ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاسٹ بولر نوین الحق نے انسٹاگرام پر دو روز قبل لکھا تھا کہ باہمی سیریز سے انکار کرنے والا آسٹریلیا کا ورلڈکپ میں سامنے آنا مضحکہ خیز ہے۔
افغانستان جس کے سات میچوں میں آٹھ پوائنٹس ہیں اس کے لیے بقیہ دو میچ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بہت اہم ہیں کہ ایک میچ بھی جیتنے کی صورت میں ان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بہت زیادہ امکانات ہوں گے۔
آسٹریلیا کی ٹیم اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مچل مارش دستیاب نہیں۔ سٹیو سمتھ بھی بیمار ہیں، جبکہ میکسویل زخمی ہیں۔
دوسری طرف افغانستان کی ٹیم مکمل فٹ اور جوش و جذبے سے لبریز ہے وہ یہ میچ افغانستان کی عزت کی خاطر جیتنا چاہتے ہیں۔
اصل قوت، بولنگ پوری طرح ہتھیار بند ہے۔ فضل حق فاروقی، نوین الحق، عظمت الاسلام فاسٹ بولرز کے ساتھ سپنرز مجیب الرحمن، راشد خان، محمد نبی اور نور احمد کی بولنگ قابل دید ہوگی۔
اگر پچ میں کچھ سپن ہوا تو کینگروز مشکل میں پڑسکتے ہیں جن کے لیے بھی یہ جیت ضروری ہے۔
افغانستان کی ٹیم کی ورلڈکپ میں زبردست کارکردگی کے پیچھے ایک نام کوچ جوناتھن ٹروٹ کا ہے۔
انگلینڈ کے اپنے وقت کے زبردست بلے باز جن کی بیٹنگ نے ایشز میں فتح دلائی تھی۔
آج اپنی صلاحیتوں کو افغان کھلاڑیوں میں منتقل کرچکے ہیں۔ افغان اوپنرز کی زبردست بیٹنگ نے پاکستان سے میچ چھین لیا تھا اس میں ٹروٹ کی جھلک تھی۔
انڈیا کی دوسری ٹیم
افغانستان کی ٹیم کو انڈیا میں بے تہاشا محبت اور پیار ملا ہے۔ سابق کرکٹرز، میڈیا اور شائقین مکمل سپورٹ کررہے ہیں۔ جس طرح پاکستان کے خلاف میچ میں انہیں ہر طرف سے حوصلہ ملا اس نے کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ انڈیا کی دوسری ٹیم ہے۔
سچن ٹنڈولکر تو آسٹریلیا کے ساتھ اہم میچ سے قبل حوصلہ بڑھانے افغانستان ٹیم کی ٹریننگ میں پہنچ گئے۔
اس محبت کے پیچھے شاید حالیہ افغانستان، پاکستان تعلقات میں تنازعات کی کیفیت بھی ہے۔
زندگی کی سہولیات سے عاری ملک افغانستان جس کا کوئی مناسب کرکٹ نظام نہیں، کوئی عمدہ گراؤنڈ نہیں، اقتصادی پابندیوں کاشکار ملک جس کے لیے کرکٹ عیاشی تصور کی جاتی ہے۔
اس کی ٹیم کے لیے ورلڈکپ کسی عیاشی سے کم نہیں جس کا قومی ترانہ میچ شروع ہونے سے قبل جب بجایا جاتا ہے تو وہ موجودہ طالبان حکومت کا نہیں ہے لیکن آئی سی سی کے پاس اس کے سوا کچھ ہے بھی نہیں۔
مہم جو طبیعت کے عادی، پہاڑوں کی سختی اپنے جسموں میں سموکر افغان کھلاڑی جب آسٹریلیا کے خلاف کھیلنے اتریں گے تو ان کےعزم و حوصلہ کو کینگروز کے لیے شاید شکست دینا آسان نہ ہو اور ایک اور بڑی جیت افغانستان کے پژمردہ عوام کے چہروں پر خوشیوں کا سورج طلوع کر دے۔