دو وجہیں جن کی بنا پر اس بار پی ایس ایل کی رونقیں ماند ہیں

پی ایس ایل کے دس سال مکمل ہونے والے ہیں مگر اس بار شائقین کے جوش و خروش میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔

دو دن بعد 11 اپریل کو جب راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوں گی تو اس کے ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دس سال مکمل ہو جائیں گے۔

لیکن ماضی کے برعکس اس بار بظاہر پی ایس ایل کی رونقیں ماند نظر آ رہی ہیں اور شائقین میں وہ جوش و خروش اور گہماگہمی نظر نہیں آ رہی جو روایتی طور پر پی ایس ایل کا خاصہ رہا ہے۔

اس کی دو بڑی وجہیں ہیں، ایک تو یہ کہ پاکستانی قومی کرکٹ کی ٹیم کی حالیہ مہینوں میں ناقص کارکردگی نے شائقین کے دل توڑ دیے ہیں، اور دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی لیگ آئی پی ایل پہلے ہی سے شروع ہو چکی ہے، اور پاکستان میں بھی لوگ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود امید ہے کہ جب پی ایس ایل میں اچھے میچ کھیلے جائیں گے اور کھلاڑی اپنی بھرپور کارکردگی دکھائیں گے تو لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچے میں کامیاب رہیں گے۔

آج سے دس سال پہلے 2016 پی ایس ایل کئی برس کی جدوجہد کے بعد شروع ہوئی تھی، لیکن پاکستان میں نہیں، بلکہ دبئی کے میدانوں میں، کیوں کہ اس وقت پاکستان میں سکیورٹی حالات کی وجہ سے کھلاڑی آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

پہلے دو سال دبئی ہی میں تمام میچ کھیلے جاتے رہے، مگر پھر 2018 میں پی ایس ایل میں ایک انقلاب برپا ہوا اور ٹورنامنٹ کے آخری تین میچ پاکستان منتقل ہو گئے۔

اس کے بعد سے پی ایس ایل کے تمام میچ پاکستان ہی میں کھیلے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔ جہاں ماضی میں ڈیپارٹمنل کرکٹ کی وجہ سے کھلاڑیوں کو کچھ سہارا ملتا تھا، مگر رفتہ رفتہ وہ نظام بھی بوسیدہ ہوتا چلا گیا۔

ایسے میں پی ایس ایل نے آ کر قومی کرکٹ کی پشت پناہی کی ہے۔ جہاں قومی سلیکشن کا عمل برسوں سے مخصوص شہروں اور حلقوں میں محدود سمجھا جاتا رہا، وہیں پی ایس ایل نے کرکٹ کے نئے مراکز تخلیق کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیلنٹ ہنٹ سکیم

لاہور قلندرز کی مثال لیجیے، جس نے ملک کے پسماندہ اور غیر معروف علاقوں میں باقاعدہ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کیے۔ حارث رؤف، جنہیں راولپنڈی کی ایک مارکیٹ میں سیلزمین کے طور پر جانا جاتا تھا، انہی ٹرائلز سے نکلے اور اب دنیا کے تیز ترین بولروں میں شمار ہوتے ہیں۔

اسی طرح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے محمد حسنین کو دریافت کیا، جنہوں نے پی ایس ایل میں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز گیندیں کروا کر سب کو حیران کر دیا۔

پی ایس ایل کی سب سے بڑی خوبی شاید یہ ہے کہ اس نے پاکستانی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سپر سٹارز کے ساتھ کھیل کر ان سے سیکھنے کے مواقع فراہم کیے۔ شاہین شاہ آفریدی نے خود تسلیم کیا ہے کہ پشاور زلمی کی طرف سے کھیلتے ہوئے جب ڈیرن سیمی، کائرون پولارڈ یا ڈیوڈ ملر جیسے سینیئر کھلاڑیوں سے ملے، تو ان کے اعتماد اور پیشہ ورانہ تیاری میں زمین آسمان کا فرق آ گیا۔

اسی طرح شاداب خان کے لیے جے پی ڈومینی اور مصباح الحق کی رہنمائی ایک یونیورسٹی سے کم نہیں تھی۔ اب وہ نہ صرف اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان ہیں بلکہ قومی ٹیم کے بھی اہم آل راؤنڈر ہیں۔

اس کے علاوہ جو کھلاڑی پی ایس ایل کی وجہ سے ابھر کر سامنے آئے ان میں حسن علی، صائم ایوب، محمد حارث، احسان اللہ، شاہ نواز دھانی اور آصف علی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی: پی ایس ایل کا امتحان

2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر جب لاہور میں حملہ ہوا تو وہ کرکٹ کی دنیا کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیمیں پاکستان آنے سے انکاری ہو گئیں اور پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے۔

مگر پی ایس ایل کے ذریعے نہ صرف کھلاڑی بلکہ عالمی سکیورٹی ماہرین، براڈکاسٹرز، اور سپانسر بھی پاکستان آئے، اور یہاں سے واپس جا کر مثبت پیغام دیا۔

اسی وجہ سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہوئی اور اگرچہ اکتوبر 2017 میں سری لنکا نے آٹھ سال بعد پاکستان میں پہلا بین الاقوامی میچ کھیلا تھا، مگر پی ایس ایل کی وجہ سے باقی ٹیموں کو بھی اعتماد ملا اور اب سوائے انڈیا کے تقریباً سبھی بڑی ٹیمیں پاکستان آ چکی ہیں۔

ڈیرن سیمی کو پاکستان میں اتنا پیار ملا کہ وہ “ستارۂ پاکستان” ایوارڈ کے مستحق قرار پائے۔

2017 سے لے کر 2023 تک، فائنل، پلے آف اور مکمل سیزن پاکستان میں ہونا اس لیگ کی سیکیورٹی اور منتظمین پر عالمی اعتماد کا مظہر ہے۔

کوچز، ڈیٹا اینالسٹ، اور فٹنس ماہرین: ایک نیا کلچر

پی ایس ایل کے ذریعے پہلی بار پاکستانی کرکٹ میں جدید کوچنگ کا کلچر متعارف ہوا۔ ہر فرنچائز نے اپنا ہیڈ کوچ، فیلڈنگ کوچ، بولنگ کوچ، نیوٹریشنسٹ، ڈیٹا اینالسٹ اور فزیوتھراپسٹ اور مینٹور رکھا۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے تو ویسٹ انڈیز کے عظیم کھلاڑی ویوین رچررڈز کو اپنا مینٹور مقرر دیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈریسنگ روم میں رچرڈز کے پائے کے کھلاڑی سے بقیہ ٹیم نے کیا تقویت حاصل کی ہو گی۔

اسلام آباد یونائیٹڈ جیسی ٹیموں نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بایومیٹرک ڈیٹا، فٹنس ٹریکرز، اور ڈیٹا انالسس کے ذریعے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر باریک بینی سے کام کیا۔

آئی پی ایل بمقابلہ پی ایس ایل: کیا کوئی موازنہ ہے؟

ظاہر ہے، مالی اعتبار سے پی ایس ایل، انڈین پریمیئر لیگ کے قریب بھی نہیں پہنچتی، آئی پی ایل کی فرنچائزز کی قیمتیں، براڈکاسٹ رائٹس، اور سپانسرشپ دنیا کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

مگر جہاں تک کھلاڑیوں کی گرومنگ، ٹیلنٹ ہنٹنگ، اور ملک کے کرکٹنگ ڈھانچے پر اثر کا سوال ہے، تو پی ایس ایل نے مختصر وقت میں حیران کن نتائج دیے ہیں۔

کیا پی ایس ایل کا اثر دیرپا ہو گا؟

یہ سوال اب تجزیہ نگاروں، کھلاڑیوں اور پی سی بی سب کے لیے اہم ہے۔ پی ایس ایل نے بےشک نئے کھلاڑی، نیا اعتماد اور نیا معیار فراہم کیا، مگر اس اثر کو نچلی سطح تک پھیلانا اور سال بھر جاری رکھنا اب پی سی بی کی اصل آزمائش ہے۔

اگر سکولوں، ضلعی ٹیموں اور اکیڈمیوں میں بھی وہی ماحول پیدا کیا جائے جو پی ایس ایل کی فرنچائزز میں موجود ہے، تو پاکستان کرکٹ کو اچھے کھلاڑی مل سکتے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کے ذریعے ان کھلاڑیوں کو قومی سٹیج پر اپنے ہنر آزمانے اور دکھانے کا موقع ملتا ہے جو قومی کرکٹ ٹیم میں شامل نہیں ہو پاتے۔ یہ لیگ پاکستانی نوجوانوں کو کھیل کے میدان میں ایک نیا خواب دیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو اور پی ایس ایل 10

انڈپینڈنٹ اردو نے حسبِ سابق اپنے ناظرین کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دیے ہیں، جو آنے والے دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ