تیرھویں ورلڈ کپ میں سابق چیمپئین پاکستان کا سفر کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں عین اس دن اختتام پذیر ہوا جب سارا انڈیا روشنیوں کا تہوار دیوالی منا رہا تھا۔ ایسے میں بظاہر پاکستان کے کیمپ میں اداسی مایوسی اور اندھیرا تھا۔
ایشائی ٹیموں کے لیے لمحہ فکریہ سیمی فائنل کی چار ٹیموں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ یہاں کے حالات کا فائدہ تین غیرایشیائی ٹیموں نے بھرپور انداز میں اٹھایا۔ ماضی کے عظیم بلے باز ظہیر عباس کے مطابق پاکستان کی نہ بلے بازی اور نہ گیند بازی میں کارکردگی مستقل ملی۔
یہ تیسرا ورلڈ کپ ہے بدقسمتی سے جس میں پاکستان سیمی فائنل کے لیک کوالیفائی نہیں کر سکا۔ امیدوں، مرادوں اور دعووں سے شروع ہونے والی ورلڈ کپ کی مہم بجھے بجھے انداز میں جس طرح آگے بڑھی وہ قدرت کی مدد کے باوجود کسی مہم جو کیفیت کی بالکل آئینہ دار نہیں تھی۔
آخری میچ ایسی ٹیم سے تھا جو دفاعی چیمپئین تھی لیکن رواں ورلڈ کپ میں اس کی بھی سب سے بدترین کارکردگی رہی۔ اگر پاکستان کے لیے یہ میچ سیمی فائنل کی مدہم سی امید تھا تو انگلینڈ کے لیے چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی ضمانت۔ ایک اور شکست اسے پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس اہم مقابلے سے باہر کرسکتی تھی۔
پاکستان کی توقعات تو ناممکنات میں شامل تھیں لیکن انگلینڈ کے لیے بہت کچھ تھا اور اس نے وہ سب حاصل بھی کرلیا۔ پاکستان ٹیم بےبسی اور بےکسی کا نمونہ بنی ہوئی تھی جبکہ انگلینڈ جوش اور ولولے سے لبریز۔
روایت کے مطابق پاکستانی بولنگ نے اس بلے باز کی فارم بھی واپس دلا دی جو مسلسل ناکام تھا۔ جونی بیرسٹو آخر میچ میں نصف سنچری کرگئے، فارم بھی ملی اور جیت بھی جبکہ پاکستانی بلے باز وہ کچھ بھی نہ کرسکے جو اب تک کرچکے تھے۔
کیا کچھ کھویا؟
ورلڈ کپ سے قبل پاکستان ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں سرفہرست ہونے کی وجہ سے ہر پنڈت کے خیال میں عالمی چیمپئن بننے کی دوڑ میں تھی۔ کئی ایک اسے احمدآباد میں فائنل میں دیکھ رہا تھا۔ سب کو بابر اعظم سے سنچریوں اور شاہین شاہ آفریدی سے خطرناک بولنگ کی توقع تھی لیکن پاکستان نے ناصرف جوش و ولولہ بلکہ اپنی ساری شان وشوکت بھی کھو دی۔
سب سے زیادہ انہوں نے شائقین کا اعتماد کھو دیا۔ جو بابر اور رضوان کو عظیم بلے باز کے روپ میں دیکھ رہے تھے وہ مایوس ہوگئے۔ رضوان تو ایک سنچری کرگئے لیکن بابر یکسر ناکام ہوئے۔ تین نصف سنچریاں ان کے شایان شان نہیں تھیں۔ وہ کمزور حریفوں کے خلاف بھی کچھ نہ کرسکے۔
اگر پہلی ناکامی دیکھی جائے تو بیٹنگ بالکل ناکام ہوئی۔ اوپنرز کبھی بھی بڑا آغاز نہ دے سکے۔ عبداللہ شفیق ایک سنچری کےعلاوہ ناکام رہے جبکہ امام الحق کی بیٹنگ نے پاکستان کو بہت زک پہنچائی۔ وہ خود رنز نہ کرسکے اور رفاقت بھی نہ دے سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فخر زمان نے اس وقت اپنی بیٹنگ کا ایک مرتبہ جوہر دکھایا جب پانی سر پر سے تقریبا گزر چکا تھا۔ وہ طوفانی بیٹنگ سے نیوزی لینڈ کے خلاف فتح تو دلاگئے لیکن انگلینڈکے خلاف پھر ناکام ہوگئے۔
شائقین کو گلہ ہے کہ فخر زمان کو پہلے میچ کے بعد ڈراپ کیوں کیا گیا لیکن اگر وہ تمام میچ کھیلتے تب بھی ایک دو اننگز ہی اچھی ہوتیں۔ وہ مستقل کارکردگی دکھانے میں آج تک ناکام رہے ہیں۔ فخر زمان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ شاٹس کا انتخاب نہیں جانتے اور اکثر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوجاتے ہیں۔
سعود شکیل نے تمام میچ کھیلے لیکن وہ کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے وہ کسی بھی طرح ماڈرن کرکٹ میں فٹ نہیں نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی بری کارکردگی پر سابق چیئرمین پی سی بی اور کھلاڑی رمیز راجہ نے غصے بھرا ویڈیو پیغام جاری کیا۔
My Man #ramizraja said it all. As i said previously as well This whole infrastructure of PCB needs a revamp. Changes faces at Cricket team level is just an excuse and its been happening since long. Its high time now to take out these culprits in PCB and take seriousness regarding… pic.twitter.com/nmOeW3maAS
— Haris Arshad (@harris00071) November 12, 2023
پاکستان کی باقی بیٹنگ محض خانہ پری کا اشتہار بنی رہی۔ افتخار احمد، شاداب خان، محمد نواز، سلمان علی آغا اپنے پیشروؤں کی طرح وقت پڑنے پر مردہ گھوڑے ہی ثابت ہوئے۔ افتخار احمد نے سخت مایوس کیا جبکہ سلمان آغا کو صرف تین میچ کھیلنے کو مل سکے جن میں بھی وہ کچھ نہ کرسکے۔
بولنگ کی ناکامی
پاکستان کی بولنگ انڈیا اس شہرت کے ساتھ پہنچی تھی کہ دنیا کی سب سے بہترین فاسٹ بولنگ ہے لیکن وہ بہت مہنگی بھی رہی اور بے ضرر بھی۔
شاہین شاہ آفریدی نے 18 اور حارث رؤف نے 16 وکٹ لیے لیکن دونوں کو زیادہ تر وکٹیں اس وقت ملی ہیں جب حریف ٹیم کے بلے باز تیز رنز کی خاطر جارحانہ انداز میں کھیل رہے تھے۔ اس لیے دونوں کی بولنگ کہیں بھی موثر نہیں دکھائی نہیں دی۔
حارث رؤف نے 533 رنز دے کر ورلڈ کپ کے سب سے مہنگے بولر کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی بولنگ ہر میچ میں پاکستان کو شکست کی طرف لے گئی جبکہ شاہین شاہ کی گیند بازی پر درست وقت پر وکٹ نہیں مل سکی۔
سپن بولنگ سب سے بدترین رہی
انڈیا کی پچیں جو سپن بولنگ کے لیے جنت سے کم نہیں تھیں وہاں پاکستانی سپنرز وکٹوں کو ترس گئے۔ آسٹریلیا کا دوسرے درجہ کا سپنر آدم زمپا تو 22 وکٹ لے گیا لیکن پاکستان کے سارے سپنرز مل کر صرف 16 وکٹ لے سکے۔
پاکستان کی سپن بولنگ اپنی کارکردگی میں صرف سری لنکا سے بہتر رہی ورنہ باقی تمام ٹیموں نے بہتر سپن بولنگ کی۔
پاکستان آخری دن تک فیصلہ نہ کرسکا کہ اسامہ میر سپنر ہے یا شاداب خان۔ دونوں بہرحال ناکام بھی رہے اور ٹیم پر بوجھ بھی۔ شاداب خان نے چھ میچوں میں دو اور اسامہ نے چار میچوں میں چار وکٹ لیں۔
محمد نواز اور افتخار احمد جز وقتی بولر رہے اور اپنی بےمقصد بولنگ سے کچھ حاصل نہ کرسکے۔
پاکستان کی فاسٹ بولنگ کی ناکامی کی مثال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے آخری ٹیل اینڈرز کو دس اوورز میں آؤٹ نہ کرسکے اور میچ ہار گئے۔
کیا کچھ مثبت بھی ہوا ہے؟
اگر اس ورلڈ کپ میں ناکامیوں کے بوجھ میں پھنسی ہوئی پاکستان ٹیم کے لیے کچھ مثبت ہوا ہے تو وہ سٹار ڈوم کی قلعی کھل جانا ہے۔ کمزور ٹیموں کے خلاف رنز کے انبار لگانے والے مہان بلے بازوں کو ورلڈ کپ میں ٹکر کے بولر ملے تو سب کچھ عیاں ہوگیا۔ اس سے اتنا تو پتہ چل گیا کہ اس ٹیم میں کچھ تبدیلیاں بہت ضروری ہیں۔ اگرچہ ایشیا کپ میں ناکام ہونے کے بعد وہ سب تبدیل ہو جانا چاہیے تھا جو ٹیم پر بوجھ ہیں تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔
پاکستان ٹیم کی فیلڈنگ کسی حد تک اچھی رہی اور کیچ ڈراپ کرنے کا تناسب کم رہا۔ فیلڈنگ نے خلاف روایت قدرے اچھی رہی۔
کپتانی کے مسائل
بابر اعظم کی کپتانی نے بہت زیادہ مایوس کیا۔ ان پر دوستی کے الزامات لگتے رہے اور وہ اہم مواقعوں پر درست فیصلے نہ کرسکے۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں وہ رنز کی رفتار روک نہ سکے جبکہ جنوبی افریقہ کے خلاف وہ اپنے بولرز سے آخری اوورز میں موثر بولنگ نہ کراسکے۔
ایک موقع پر جبکہ فیلڈ جارحانہ لینے کی ضرورت تھی وہ دفاعی فیلڈ ترتیب دیتے رہے جس سے ٹیل اینڈرز مہاراج اور شمسی پر دباؤ بڑھ نہ سکا۔ پاکستان کو افغانستان اور جنوبی افریقہ سے میچ جیتنا چاہیے تھا لیکن وہ جیت نہ سکے۔ اگر ان کی کپتانی پر ایک جملے میں بات کی جائے تو وہ چلے ہوئے کارتوس یا روایتی کپتانی آزماتے رہے جبکہ دوسرے کپتانوں نے جارحانہ حکمت عملی سے میچ جیتے۔
بابر اعظم خود اعتمادی کی کمی کا بھی شکار رہے۔ اور ٹیم کی بدترین کارکردگی کا دفاع کرتے رہے جبکہ انہیں غلط انتخاب پر بات کرنا چاہیے کہ کیا یہ ٹیم ان کی منتخب کردہ تھی یا پھر ہیڈ کوچ اور چیف سیلیکٹر کی۔
بابر اعظم کپتانی کے بوجھ سے شاید آزاد ہونا چاہیں گے۔ سرفراز احمد اور شان مسعود اس کے لیے سب سے بہتر چوائس ہیں۔ دونوں نے اس سیزن میں بہت عمدہ بیٹنگ کی ہے اور کراچی نے سرفراز احمد کی قیادت میں قائد اعظم ٹرافی جیتی ہے۔ آسٹریلیا کے مشکل ترین دورے میں دونوں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شان مسعود یارکشائر کی کپتانی کر رہے ہیں اور کاؤنٹی سیزن میں اچھی بیٹنگ کرکے آئے ہیں۔
کیا تبدیلیاں ضروری ہیں؟
اگر پاکستان کے تمام نو میچوں کا تجزیہ کیا جائے تو جو پانچ میچ ہار گیا ان میں افغانستان، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا سے شکست غیر معیاری بولنگ کے باعث ہوئی۔ حارث رؤف، حسن علی، شاداب خان اور اسامہ میر نے غیرمعیاری بولنگ کی۔ ان چاروں کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنا ضروری ہے۔ انڈیا اور انگلینڈ کے خلاف بیٹنگ بہت خراب رہی۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر کی ناکامی رہا۔ رضوان صرف دو اچھی اننگز کھیل سکے جبکہ بابر اعظم بھی تین اچھی اننگز کھیل سکے لیکن سعود شکیل، افتخار احمد، شاداب خان اور محمد نواز ناکام رہے۔ پاکستان کو ان تینوں کھلاڑیوں کی جگہ نئےکھلاڑی لانا ہوں گے۔
اوپنرز میں فخر زمان اور عبداللہ شفیق نے دو اچھی اننگز کھیلی لیکن اس کے علاوہ وہ کچھ نہ کرسکے۔ امام الحق یکسر ناکام رہے۔ انہیں ڈراپ کرنا ضروری ہے۔ ان کی جگہ صائم ایوبئ علی زریاب اور شان مسعود تیار ہیں جبکہ مڈل آرڈر کے لیے اسد شفیق نے اس ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ بیٹنگ کی ہے اور جگہ لے سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کے دورے میں ان کا تجربہ کام آسکتا ہے۔ وہ برسبین کی تیز ترین پچ پر سنچری کرچکے ہیں۔ دوسری جانب شان مسعود اوپننگ کے لیے سب سے قوی امیدوار ہیں۔
کیا بورڈ کا احتساب ہوگا؟
پاکستان ٹیم کی شکستوں میں پی سی بی کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور بیانات کا بھی بہت ہاتھ رہا ہے۔ چیئرمین ذکا اشرف کرکٹ سے نابلد ہونے کے باعث بچکانہ بیانات دیتے رہتے ہیں جبکہ مشیروں کے غلط مشوروں نے بابر اعظم سے تعلقات بھی کشیدہ کرا دیئے۔ بورڈ کے سی او او سلمان نصیر نے بابر اعظم کے واٹس ایپ پیغامات کو مشتہر کرکے بداعتمادی کو فروغ دیا۔ بورڈ کے بے وقت بیانات اور تبدیلیوں نے پاکستان کرکٹ کا مذاق بنا دیا ہے۔ انڈین میڈیا نے پی سی بی کو میوزیکل چیئر سے تشبیہ دے کر مذاق اڑایا تو سابق کھلاڑیوں نے اسے نااہل کے خطاب دیئے۔
بورڈ نے صحافیوں کی ایکریڈیشن میں جس جانبداری اور اقربا پروری کا مظاہرہ کیا اس پر بلوچستان کے وزیر اطلاعات کو پریس کانفرنس کرنا پڑی۔
ورلڈ کپ کا سفر تو ختم ہوچکا لیکن کرکٹ ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان کرکٹ میں اب سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ اور کپتان سمیت کوچنگ سٹاف کو فارغ کرنا بےحد ضروری ہے۔ کوچنگ سٹاف نے بھاری بھرکم معاوضہ کے باوجود کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ ڈائریکٹر کرکٹ مکی آرتھر کی غلط سوچ اور انتخاب میں فاش غلطیوں نے ٹیم کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔
اگر اس عبرتناک شکست کے عوامل اور بورڈ عہدیداروں کا احتساب نہیں ہوا تو شکستوں کا سلسلہ بڑھتا رہے گا اور مستحق باصلاحیت کھلاڑی اسی طرح اندھیروں کی نظر ہوتے رہیں گے۔