جارج فلائیڈ کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار پر جیل میں چاقو سے حملہ

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افریقی نژاد سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو 2020 میں قتل کرنے والے امریکی پولیس افسر ڈیرک چوون پر جمعے کو جیل میں چاقو سے حملہ کیا گیا ہے۔

 سان ڈیاگو، کیلیفورنیا میں 20 جولائی 2021 کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر پرومینیڈ میں ایک یادگار نمائش میں دیگر تصاویر کے ساتھ جارج فلائیڈ  کی ایک تصویر آویزاں ہے، جنہیں 2020 میں ایک امریکی پولیس اہلکار ڈیرک چوون نے قتل کر دیا تھا (اے ایف پی)

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افریقی نژاد سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو 2020 میں قتل کرنے والے امریکی پولیس افسر ڈیرک چوون پر جمعے کو جیل میں چاقو سے حملہ کیا گیا ہے۔

سفید فام ڈیرک شوون نے2020 میں ایک 46 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی گردن نو منٹ سے زیادہ وقت تک گھٹنے سے دبائے رکھی تھی، جس کے نتیجے میں وہ چل بسے تھے۔

جارج فلائیڈ کی آواز ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ بعد میں ان مظاہرین کا نعرہ بن گیا جو، اس قتل کے بعد سڑکوں پر نکلے اور ’بلیک لائیو میٹرز‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مہم چلائی۔

 امریکی فیڈرل بیورو آف پریزنز نے زخمی ہونے والے شخص کا نام لیے بغیر خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو حملے کی تصدیق کی ہے۔

اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا کہ جنوب مغربی ریاست ایریزونا میں ’فیڈرل کریکشنل انسٹی ٹیوٹ (ایف سی آئی) ٹکسن میں ایک قیدی پر حملہ کیا گیا ہے۔ جیل کے عملے نے قیدی کی زندگی بچانے کے لیے اقدامات کیے اور انہیں مزید علاج اور تشخیص کے لیے ایک مقامی ہسپتال لے جایا گیا۔‘

ڈیرک شوون کو 2021 میں سیکنڈ اور تھرڈ ڈگری قتل کا قصوروار پایا گیا تھا اور انہیں ساڑھے 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اس کے بعد منیاپولس پولیس کے بارے میں محکمہ انصاف کی تحقیقات، جس کے نتائج جون 2023 میں شائع ہوئے تھے، میں کہا گیا کہ محکمے کے افسران باقاعدگی سے پرتشدد اور نسل پرستانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس میں ’بلاجواز طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔‘

 رپورٹ میں کہا گیا کہ ’یہ محکمہ قانون کے نفاذ کے دوران سیاہ فام اور مقامی امریکیوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر امتیازی سلوک کرتا ہے۔‘

 وسطی مغربی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس نے بھی فلائیڈ خاندان کی جانب سے دائر کیے گئے موت کے مقدمے کو نمٹا دیا اور ان کے رشتہ داروں کو 27 لاکھ ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

ڈیرک شوون نے سیکنڈ ڈگری قتل کے کیس میں سزا کے خلاف اپیل کی تھی، جسے امریکی سپریم کورٹ نے رواں ماہ کے اوائل میں مسترد کر دیا تھا۔

ایک حالیہ دستاویزی فلم میں انہوں نے جیل سے کہا: ’سزا سمیت پورا مقدمہ ایک دھوکا تھا۔‘

قتل کے بعد، ساتھیوں نے بعد میں ڈیرک چوون کی تصویر کشی ایک ایسے شخص کے طور پر کی جو ایک خاموش، سخت محنت کش اور اکثر شہر کے زیادہ مشکل علاقوں میں گشت کرتا تھا۔

ملازمت کے دوران انہیں اپنے پورے کیریئر میں چار تمغے ملے، لیکن تمام تفصیلات پر مشتمل عوامی ریکارڈ کے مطابق ان کے خلاف 22 داخلی شکایات اور تحقیقات بھی کی ہوئیں۔ ان متعدد شکایات میں سے صرف ایک شکایت کے جواب میں سرزنش کا خط آیا تھا۔ یہ شکایت ایک سفید فام خاتون نے 2007 میں کی تھی، جب زیادہ رفتار  کی وجہ سے انہیں ان کے روتے ہوئے بچے کے سامنے ان کی کار سے کھینچ کر نکالا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ