دنیا بھر میں احتجاج کے بعد امریکی شہر میناپولیس، جہاں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہلاکت ہوئی، کی سٹی کونسل نے پولیس محکمہ ختم کرکے دوبارہ تشکیل دینے کی منظوری دے دی ہے۔
امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلوئید کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے تناظر میں مظاہروں کی پھیلتی ہوئی آگ کے بعد میناپولیس کی سٹی کونسل نے اتوار کو پولیس محکمے کو ختم کرنے اور اس کی تنظیمِ نو کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہونے والی ہلاکت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مبینہ نسل پرستی کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور نسل پرستی کا یہ مسٔلہ قومی سیاسی ایجنڈے پر آ گیا ہے۔
25 مئی کو غیر مسلح فلائیڈ کی گردن کو مسلسل نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے دبانے والے مینیاپولیس پولیس کے سفید فام آفیسر ڈیرک چووِن پر سیکنڈ ڈگری قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے اور ان کو آج (پیر کو) عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
مینیاپولیس سٹی کونسل کی صدر لیزا بینڈر نے سی این این کو بتایا: ’ہم مینیاپولیس کے موجودہ پولیس نظام کو ختم کرکے اسے اپنی کمیونٹی کے ساتھ مل کر اس طرز کا نیا ماڈل بنانے کے لیے پرعزم ہیں جو حقیقت میں ہماری کمیونٹی کو محفوظ رکھے گا۔‘
تاہم میناپولیس کے میئر جیکب فری اس محکمے کو ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف شہر کی طاقتور پولیس یونین کے سربراہ باب کرول کو گذشتہ برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سٹیج پر دیکھا گیا تھا۔
سٹی کونسل کے اکثریتی ارکان نے پولیس نظام کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے تاہم ایک روز قبل شہر کے میئر جیکب فری کے خلاف 'ڈی فنڈ پولیس' ریلی میں نعرے بازی کی گئی اور انہیں ریلی چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
بعد میں انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ پولیس کے نظام میں نسل پرستی کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کے حامی ہیں تاہم پولیس کے پورے محکمے کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے ملک بھر میں دو ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں جو بیشتر جگہوں پر پرامن رہے ہیں۔
اتوار کو بھی فلوریڈا، واشنگٹن، نیو یارک اور دیگر شہروں میں مظاہرین نے پولیس کی اصلاحات اور سماجی انصاف کے مطالبات کے حق میں مظاہرے کیے۔
ریاست یوٹا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر مِٹ رومنی نے وائٹ ہاؤس کی جانب مارچ کرتے ہوئے جلوس میں شرکت کی اور اس کی تصاویر 'بلیک لائیوز میٹر' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر شیئر کیں۔
رومنی ٹرمپ کی مخالفت میں ری پبلکن پارٹی میں ایک غیر معمولی آواز رہے ہیں تاہم گذشتہ ہفتے ری پبلکن سینیٹر لیزا مرکووسکی بھی اس فہرست میں شامل ہو گئی تھیں جن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ پر تنقید جائز ہے۔
مظاہرین کے خلاف صدر ٹرمپ کے سخت رویے نے اعلیٰ ریٹائرڈ فوجی حکام کو بھی مشتعل کر دیا جو عام طور پر ایک ایسا گروپ ہے جو سویلین رہنما پر تنقید نہیں کرتا۔
سابق جوائنٹ چیفس آف سٹاف چیئرمین کولن پاؤل نے اتوار کو امریکی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ آئین سے ہٹ گئے ہیں۔
پاؤل نے کہا کہ ٹرمپ نے دنیا بھر میں امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے اور یہ کہ وہ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کریں گے۔
بش انتظامیہ میں امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے بھی صدر ٹرمپ کے رویے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ رائس نے سی بی ایس کو بتایا کہ وہ پر امن مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کی مکمل مخالفت کریں گی۔
انہوں نے مزید کہا: 'یہ کوئی میدان جنگ نہیں ہے۔'
صدر نے نیشنل گارڈ کے فوجیوں کو ملک کے دارالحکومت سے انخلا شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈی سی کے میئر مورییل باؤسر نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ہفتے کو احتجاج کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جب کہ ہزاروں افراد دارالحکومت کی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔
دوسری جانب امریکہ کے باہر بھی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔
لندن میں اتوار کو مسلسل دوسرے روز ہزاروں مظاہرین سٹرکوں پر موجود رہے۔ سی این این کے مطابق برطانیہ کے علاوہ سپین، نیدرلینڈز، بیلجیئم، پرتگال، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، فرانس، ہانگ کانگ اور دیگر ممالک میں بھی ہزاروں مظاہرین نے 'بیلک لائیوز میڑ' ریلیز میں شرکت کی۔