پاکستان میں مشہور آرٹسٹ حیدر علی نے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ایک تصویر مقبول عام ٹرک آرٹ کے انداز میں بنائی ہے جسے انہوں نے روایتی پھول پتیوں سے مزین کرتے ہوئے چند زبان زدعام گانوں کے بول بھی لکھے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہی انہوں نے انگریزی میں جسٹس (انصاف)، مساوات اور بلیک لائیو میٹرز (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں) کے الفاظ بھی درج کیے ہیں۔
حیدر علی پیشے کے اعتبار سے ٹرک آرٹسٹ ہیں اور اس سلسلے میں وہ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک اسکول بھی بنا رکھا ہے جہاں وہ اپنے شاگردوں کو ٹرک آرٹ سکھاتے ہیں۔
مذکورہ پینٹنگ انہوں نے اپنے گھر (جس کا بالائی حصہ درس گاہ بھی ہے) کی چھت پر بنائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے ان کے گھر میں گفتگو کی اور اس پینٹنگ کے بارے میں تفصیلات پوچھیں، جس پر حیدر علی نے بتایا کہ وہ کرونا (کورونا) کے باعث ہونے والے عالمی لاک ڈاؤن سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی لندن سے کراچی آئے تھے جہاں انہوں نے ایک ہوٹل پینٹ کیا تھا۔
’لاک ڈاؤن کے زمانے میں کرنے کے لیے کچھ کام نہیں تھا اور فارغ بیٹھنا میری عادت ہی نہیں تو میں نے گھر میں پینٹنگز بنانا شروع کردیں، اسی دوران امریکا میں احتجاج شروع ہوا تو میں نے وہاں کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ پینٹنگ بنائی۔‘
اپنی اس پینٹنگ میں لکھے گئے گانوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا وہ بچپن ہی سے یہ گانے سنتے ہوئے جوان ہوئے اور ان گانوں کو وہ اکثر گنگناتے رہتے تھے، اس لیے بالی وڈ کے گانوں کا انتخاب کیاگیا۔
اسی طرح انگریزی الفاظ اور جملوں کے لیے انہوں نے اپنے دوستوں سے مدد لی کیونکہ حیدر کے بقول انہیں انگریزی نہیں آتی اور عالمی سطح پر یہ پیغام جانا بھی ضروری تھا۔
حیدر علی کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ یہ پینٹنگ وہ شہر میں کسی ایسی جگہ بناتے جہاں لوگ بڑی تعداد میں دیکھ سکتے، تاہم انہیں شکوہ ہے کہ ’آئی ایم کراچی‘ نامی تنظیم کے ساتھ مل کر انہوں نے شہر میں جہاں کہیں بھی دیواریں، پل اور اس کے ستون پینٹ کیے وہ حکومت نے مٹادیے۔
’میں نے ایئرپورٹ کے پاس موجود فلائی اوور کے ستون ملک کے ٹرک آرٹ کے انداز میں رنگے تھے اور ہر ستون پر علیحدہ ڈیزائن تھا، مگر وہ مٹا دیے گئے، اس لیے یہ پینٹنگ میں نے گھر کی چھت پر بنانے پر اکتفا کیا۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’باہر آخر کہاں بناتا، پہلے تو اجازت لینے ہی میں مشکلات پیش آتیں۔‘
حیدر کا کہنا تھا کہ ٹرک آرٹ کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے اور اسے تو یونیورسٹی میں پڑھانا چاہیے مگر ہمارے یہاں اس کی قدر نہیں کی جارہی۔ ’میں دنیا بھر میں سفر کرتا ہوں، کئی بین الاقوامی چینلز نے میرے انٹرویو کیے ہیں اور میرے کام کو سراہا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’پاکستان میں بھی گورے کالے کا مسئلہ ہے اور یہاں لڑکیوں بلکہ لڑکوں کو بھی کالے رنگ کی وجہ سے رشتے نہیں ملتے، اس لیے شاید امریکا سمیت دنیا بھر اور پاکستان میں بھی جارج فلائیڈ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے لوگوں کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصب سے چھٹکارا مل جائے۔‘