ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ پچھلے دنوں اس وقت دم گھٹنے سے وفات پاگئے جب ایک سفید فام پولیس افسر نے گرفتاری کے دوران اپنا گھٹنا ان کی گردن پر تقریباً نو منٹ تک رکھا۔ ویڈیو میں صاف ظاہر ہے کہ جارج التجا کرتے رہے مگر پولیس افسر کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور بلآخر جارج اس دنیا میں نہ رہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس اندوہناک ویڈیو نے ہر شخص کے دل پر اثر کیا اور مختلف شہروں میں پولیس میں اصلاحات کے لیے مظاہرے شروع ہو گئے۔
شاید یہ عوامی ردعمل چند دنوں میں ٹھنڈا پڑ جاتا لیکن امریکی صدر نے اپنی متعصبانہ ٹویٹ کے ذریعہ لوگوں کے جذبات مزید بھڑکائے۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کے وائٹ ہاؤس کے خونخوار کتے مظاہرین کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ریاستوں کے گورنروں پر انہوں نے یہ بھی زور دیا کے صدر سے فوج بلانے کی درخواست دی جائے تاکہ ان مظاہروں کو بزور بازو کچل دیا جائے۔ یہ تمام اقدامات اس قدر سنگین تھے کے سابق وزیر دفاع جم میٹس کو یہ بیان دینا پڑا کے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے ذریعہ متنازع نہ بنایا جائے۔
دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کے کئی مایہ ناز لوگوں نے یا تو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کیا یا ٹرمپ کو الیکشن میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے ووٹ نہ دینے کی بات کی۔ سابق صدر بش کے وزیر خارجہ کولن پاؤل نے اس بات کا اعلان کیا کے وہ جو بائیڈن کی بحیثیت امیدوار توثیق کرتے ہیں۔ مختلف سروے یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کے شاید صدر ٹرمپ دوسری چار سالہ مدت کے لیے انتخاب نہ جیت پائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے مختلف ملکوں پر نہ صرف اقتصادی پابندیاں لگاتا رہا ہے بلکہ حکومتوں کی امداد بھی روک لیتا تھا۔ موجودہ تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ہے کہ امریکہ خود تنقید کا نشانہ بنا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے جارج فلائیڈ کے واقعے اور سیاہ فام لوگوں کے خلاف پولیس کی زیادتیوں پر تنقید کی ہے اور انہیں اصلاحات کا مشورہ دیا ہے۔ روس، چین اور یورپی ممالک اس میں نمایاں ہیں۔ فرانس، انگلستان اور افریقہ کے کئی ملک میں لوگوں نے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج بھی کئے ہیں۔
آج کی دنیا بدل رہی ہے۔ امریکہ کے عروج کا سورج اپنی آب و تاب کھو رہا ہے۔ چین اور روس ایک دفعہ پھر دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ پرانے بین الاقوامی ادارے یا تو ٹوٹ رہے ہیں یا انتہائی کمزور ہو گئے ہیں۔
نئے علاقائی اتحاد بن رہے ہیں۔ تاریخ میں جب ایک اہم طاقت زوال پزیر ہو اور دوسری اوپر آ رہی ہو تو جنگ ہوئی ہے۔ اس وقت بھی ایک عالمگیر جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ امید ہے سیاستدان اور پالیسی ساز اس بات کا عادہ کریں گے اور جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات ختم کریں گے۔