اسلام آباد:گرفتار خواتین کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حوالے کرنے کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں کے کیس میں آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کو حکم دیا ہے کہ سیکٹر آئی 10 میں موجود خواتین شرکا کو لانگ مارچ کے منتظمین کے حوالے کردیا جائے۔

تربت سے اسلام آباد آنے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ میں شریک خواتین جن کے خلاف 20 اور 21 دسمبر 2023 کی درمیانی شب پولیس نے کارروائی کی (ماہ رنگ بلوچ ایکس اکاؤنٹ)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں کے کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد اکبر ناصر خان کو حکم دیا ہے کہ سیکٹر آئی 10 میں موجود خواتین شرکا کو لانگ مارچ کے منتظمین کے حوالے کردیا جائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کے خلاف بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس کے آپریشن اور درجنوں افراد کی گرفتاریوں کے خلاف کمیٹی نے گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے بلوچ نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں تربت سے اسلام آباد روانہ ہوا تھا، جو بدھ کی شب وفاقی دارالحکومت پہنچا۔

جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو درخواست گزار وکیل عطا اللہ کنڈی روسٹرم پر آگئے۔

عطا اللہ کنڈی کے مطابق سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ہمیں کہا: ’ان لوگوں کو کہیں بسیں باہر کھڑی ہیں، یہ واپس چلے جائیں۔ اس معاملے پر ہماری ان سے تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی۔ ایس ایس پی نے ہمیں کہا کہ ہمیں وزیراعظم کی ہدایت ہے کہ انہیں واپس بلوچستان بھیجیں۔‘

بقول عطا اللہ کنڈی: ’انہوں نے تمام لائٹیں بجھا دیں۔ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروایا، پھر پتہ چلا کہ اسلام آباد میں کچھ طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بیٹھا دیا گیا ہے۔ انہیں ہراساں کیا گیا، بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کر دیا گیا۔‘

وکیل درخواست گزار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سارا معاملہ دیکھ کر ڈرائیوروں نے بسیں چلانے سے انکار کر دیا۔ اس دوران انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد تھانے پہنچے اور انہوں نے بھی کہا کہ کسی طرح انہیں یہاں سے بھیجیں۔ اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کر دیے۔ صبح پانچ بجے پولیس نے بیان جاری کیا کہ ہم نے انہیں بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’پولیس کی جانب سے کون پیش ہوا ہے؟‘ پولیس انسپیکٹر کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے سینیئر افسر کے بجائے جونیئر پولیس افسر کے عدالت میں پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’اب آئی جی یا سیکرٹری  داخلہ کو بلوائیں؟‘ اس کے ساتھ ہی عدالت نے پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’تمام لوگ کہاں ہیں، ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ آدھے گھنٹے میں عدالت کو رپورٹ جمع کروائیں۔‘

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت عالیہ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ’ہم نے مظاہرین کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا۔‘

جس پر چیف جسٹس نے آئی جی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’یہیں رک جائیں، آپ نے گرفتار افراد کو کہاں بھیجا؟ آپ نے بھیجا ہی کیوں؟ وہ اسلام آباد میں جہاں گھومنا چاہیں گھوم سکتے ہیں۔ وہ اسلام آباد رہیں، پرامن احتجاج کریں یا واپس اپنے گھر جائیں، ان کی مرضی ہے۔ آپ نے گرفتار مظاہرین کو کہاں رکھا ہے؟‘

جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’گرفتار خواتین سیکٹر آئی 10 میں خواتین کے ہاسٹلز میں ہیں۔‘ چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’آپ نے انہیں جہاں رکھا ہے، وکیل کو جگہ کا پتہ دیں۔‘

وکیل درخواست گزار عطا اللہ نے کہا کہ ’گذشتہ روز عدالت کے ساتھ غلط بیانی کی گئی کہ ان پاس خواتین نہیں ہیں۔ تمام گرفتار خواتین گذشتہ رات ویمن پولیس سٹیشن میں تھیں۔‘ انہوں نے غلط بیانی پر آئی جی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی استدعا بھی کی۔ 

عدالت نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’گذشتہ روز آپ نے کہا کہ ہمارے پاس خواتین نہیں ہیں۔‘ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ’ہم نے خواتین کو کہا تھا کہ جہاں جانا ہے لے جائیں، ہم نے سفری سہولیات دی ہیں۔‘

آئی جی اکبر ناصر خان نے سماعت کے دوران اسلام آباد سے گرفتار بلوچ مظاہرین کے اعداد و شمار سے لاعلمی کا اظہار کیا تو چیف جسٹس نے کہا: ’میں نے کل بھی پوچھا تھا، اب پھر سے پوچھ رہا ہوں کہ کتنے لوگ گرفتار ہیں؟‘

آئی جی نے جواب دیا کہ ’تھانہ کوہسار میں 216 افراد گرفتار تھے، ان میں سے کچھ کو جوڈیشل کیا گیا۔ ان میں سے 19 خواتین کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔ تھانہ ترنول میں گرفتار تمام مظاہرین کو علاقہ مجسٹریٹ نے رہا کیا، اس ایف آئی آر میں کل کچھ افراد گرفتار ہوئے ہیں جنہیں آج پیش کریں گے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ گرفتار ملزمان کا شناختی پریڈ کروایا گیا؟ جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ 162 افراد کو جوڈیشل کیا گیا اور ان کی شناختی پریڈ کی ضرورت نہیں۔

اس دوران عدالت نے وکیل درخواست گزار کو گرفتار خواتین سے ملاقات کرنے کی ہدایت کی جبکہ آئی جی اسلام آباد کو ہدایت دی کہ ’آپ نے انہیں باور کروانا ہے کہ کوئی فرد لاپتہ نہیں۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ’یہ نہیں ہوتا کہ آپ کچھ کریں گے اور وہ آگے سے چپ رہیں گے۔ احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے، ان پر تشدد کرنا، گرفتار کرنا اچھی بات نہیں۔‘

صحافی حامد میر بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’وزرا نے کل ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سب کو رہا کر دیا گیا۔ شام کو پتہ چلا کہ کسی کو رہا ہی نہیں کیا بلکہ چیک کرنے میں خود تھانے چلا گیا۔ ویمن تھانے کے باہر خواتین کو مرد و خواتین پولیس زبردستی گھسیٹ کر بسوں میں ڈال رہی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اس معاملے پر نگران وزیر فواد صاحب سے بھی رابطہ کیا۔ ایک بچی نے مجھے پکڑا تھا اور کہہ رہی تھی کہ میں نے نہیں جانا۔ پولیس سے جب پوچھا تو میرا موبائل چھینا گیا اور مجھے گالیاں دی گئیں۔‘

عدالت عالیہ نے صحافی حامد میر کو بھی تھانوں میں جانے کی ہدایت کر دی۔

آئی جی اسلام آباد کی حامد میر سے معافی

دوسری جانب پولیس افسر کی گذشتہ رات کی بدتمیزی پر آئی جی اسلام آباد نے صحافی حامد میر سے کمرہ عدالت میں معافی مانگ لی۔ 

آئی جی نے کہا: ’اگر حامد میر صاحب کے ساتھ میرے کسی افسر نے بدتہذیبی کی تو میں معافی چاہتا ہوں۔ صحافی اگر آئے تو ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے، تہذیب کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہئے۔‘

اس موقعے پر ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین انعام بٹ نے کہا: ’ہماری بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا۔ جمہوری نظام میں احتجاج ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے، جو رویہ گذشتہ دو راتوں میں ہمارے بچوں بچیوں کے ساتھ کیا گیا، شاید ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘

عدالت عالیہ نے وکیل درخواست گزار کو ہدایت کرتے ہوئے کہا: ’آپ یہ سارا معاملہ دیکھ لیں، کوئی مسئلہ آتا ہے تو میرے آفس سے رابطہ کر لیں۔ آج کی سماعت  پر تفصیلی فیصلہ جاری کروں گا۔‘

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی، جہاں کیس کی سماعت میاں گل حسن اورنگزیب کریں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مارچ اور گرفتاریاں

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا یہ لانگ مارچ بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے بلوچ نوجوان کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں تربت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔

 تاہم بدھ کی شب وفاقی دارالحکومت پہنچنے پر انہیں نیشنل پریس کلب کی جانب جانے سے روک دیا گیا، جس کے بعد مارچ کے شرکا نے موٹر وے ٹول پلازہ کے نزدیک 26 نمبر چونگی پر دھرنا دے دیا۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا اور 26 نمبر چونگی پر موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈ زون اور نیشنل پریس کلب کے باہر موجود مظاہرین کے ٹینٹ بھی اکھاڑ دیے گئے جبکہ کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاریوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔

اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ بلوچ مظاہرین کے لانگ مارچ کو وفاقی دارالحکومت کے ہائی سکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کے لیے ’غیر مہلک‘ طریقہ اختیار کیا گیا جبکہ کچھ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

دوسری جانب لانگ مارچ میں شریک ماہ رنگ بلوچ نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہمارے تمام مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں مختلف پولیس سٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔‘

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے گذشتہ رات اسلام آباد میں لاپتہ افراد سے متعلق لانگ مارچ کے شرکا پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فلسطین میں مظالم پر احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان میں ناانصافیوں پر خاموشی پر سوال اٹھایا تھا۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی اور غیر جمہوری رویے نے ثابت کر دیا کہ موجودہ حکومت ’انڈر ٹیکر‘ حکومت ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو میں بدھ کی رات اسلام آباد میں ہونے والے پولیس ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا استعمال کسی بھی طرح مہلک نہیں ہوتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاجیوں میں خواتین اور بچے شامل نہیں تھے۔

پولیس کارروائی کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اس وقت بھی بہت سے اعلیٰ سطح کے غیر ملکی وفود موجود ہیں۔ ’کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ کی اور ہماری جانیں خطرے میں ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے چھ گھنٹے صبر کا مظاہرہ کیا اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا گیا۔ ’مظاہرین میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے منہ چھپا رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔‘

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ان بلوچ شہریوں پر ریاستی تشدد کی پرزور مذمت کی ہے جو تربت میں بالاچ بلوچ اور دیگر لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد تک مارچ

کر رہے تھے۔

کمیشن کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے لاہور میں جاری ایک بیان میں کہا کہ پرامن مظاہرین کے ساتھ ریاست کا رویہ ان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ’عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے خلاف غیر ضروری طاقت استعمال کی گئی، ان پر پانی پھینکا گیا اور لاٹھیاں ماری گئیں۔

اطلاعات کے مطابق کئی عورتوں کوگرفتار کر کے انہیں ان کے مرد رشتہ داروں اور ساتھیوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ لانگ مارچ کی کوریج کرنے والی کم از کم ایک بلوچ خاتون صحافی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان