بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ اگر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں نام نہاد الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں نہ لیں تو ہم جانتے ہیں کہ انہیں کیسے شکست سے دوچار کرنا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ گذشتہ چار سے پانچ دہائیوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات کے اتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صوبے کے سیاسی حالات، وہاں کے مسائل اور اپنی آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ ’اگر اس ملک کی پارلیمانی تاریخ کو دیکھا جائے تو بلوچستان کے سیاست دانوں میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، سردار عطا اللہ مینگل، گل خان نصیر اور دیگر سیاسی اکابرین نے انتہائی مشکل حالات کے باوجود سیاست کی ہے اور مشکلات برداشت کی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست میں اداروں کی بے جاہ مداخلت ہے، ہر الیکشن میں نئی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں اور سیاسی تقرری و تبادلے ہوتے ہیں، جو ہمارے لیے ندامت کا باعث ہیں۔‘
بقول عبدالمالک بلوچ: ’پاکستان میں سیاسی جماعتیں موروثی ہیں اور لوگ اپنے مفادات کے حوالے سے پارٹیاں بدلتے ہیں، فکری حوالے سے نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں نام نہاد الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں نہ لیں تو ہم جانتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے شکست سے دوچار کریں گے۔
بقول عبد المالک بلوچ: ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سے میرا سب سے بڑا جھگڑا یہ تھا کہ آپ کب ان نام نہاد الیکٹیبلز سے بلوچستان کے عوام کو آزادی دلوائیں گے۔ آپ لوگ ان کو (اپنی پارٹی میں) نہ لیں، ہم سیاسی کارکن ان کو شکست دیں کیونکہ وہ (الیکٹیبلز) ہوا کے رخ کو دیکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسے سیاسی حوالے سے ڈیل نہیں کیا جا رہا بلکہ سٹریٹیجکل طریقے سے ڈیل کیا جا رہا ہے۔
’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں جو شورش ہے وہ مشرف کی پیدا کردہ ہے، جس کے سبب آج بے شمار نوجوان چاہے ان کا عسکریت پسندوں سے تعلق ہو یا عام لوگ ہوں، وہ مارے جا رہے ہیں۔‘
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ’یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے انسانی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک اس مسئلے کو بندوق کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، یہ مسئلہ روزبروز زیادہ ہوگا کم نہیں۔ اس کا علاج صرف اور صرف بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے اپنے دور میں مذاکرات کا آغاز کیا تھا جو ایک حد تک کامیاب بھی رہے لیکن میرے جانے کے بعد ان کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔‘
ساتھ ہی عبدالمالک بلوچ نے کہا: ’اب مذاکرات کے لیے صورت حال مختلف ہے۔ 2013، 2014 اور 2015 میں حالات مختلف تھے، اب صورت حال مختلف ہے، حالات بدل چکے ہیں، لیکن پھر بھی ہماری خواہش ہے کہ ہم اس شورش کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے نوجوان اس نظام سے اس لیے نالاں ہیں کیونکہ یہاں کے نوجوانوں کو سنا نہیں گیا، انہیں ہر لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا ہے، بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق و اختیار نہیں ہے۔
بقول عبدالمالک بلوچ: ’بلوچستان کو سیاسی زاویے سے دیکھا جانا چاہیے، فوجی زاویے سے نہیں۔‘
آئندہ عام انتخابات میں سکیورٹی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالات تھوڑی بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ یہاں شورش ہے اور وہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے جبکہ لاہور اور سندھ میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔‘
بلوچستان کے متوقع وزیراعلیٰ کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت بھی وزیراعلیٰ بننے کا شوق نہیں تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی نامزدگی پر نواز شریف اور محمود خان کا شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’میری خواہش ہے کہ بلوچستان اسمبلی کو ہم نیشنل پارٹی کی خواتین سے بھر دیں کیونکہ جب تک یہ خواتین اسمبلیوں میں نہیں ہوں گی، وہ عوام کی صیح معنوں میں خدمت نہیں کرسکتیں۔‘
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ دو بار صوبائی وزیر، رکن صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وزیراعلیٰ بننےکے بجائے وہ ایسی مضبوط، فکری، منظم اور شعوری پارٹی بنانا چاہتے ہیں، جو عوام کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرسکے۔