بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبے میں کالعدم تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی سمیت 70 ساتھیوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے ایک پریس کانفرنس میں کالعدم تنظیم سے شمولیت اختیار کرنے والوں کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی پالیسی واضح ہے اور ریاست قومی دھارے میں واپس آنے والوں کو ویلکم کہے گی۔
’(شمولیت سے معلوم ہوتا ہے کہ) بلوچ رہنماؤں کا ریاست پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔‘
صوبائی وزیر نے کہا کہ کالعدم تنظیم نے انڈیا کی ایما پر اپنے ملک کے خلاف کارروائیاں کیں اور ان تنظیموں کو فنڈنگ پڑوسی ملک کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام اب انڈیا کے مذموم عزائم سمجھ گئے ہیں۔ ان کے بقول: ’غلط فہمیاں اور دوریاں ختم ہونی چاہییں۔‘
صوبائی وزیر نے کہا کہ کالعدم تنظیموں نے بلوچ خواتین کو بھی شدت پسند کارروائیوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
قومی دھارے میں شامل ہونے والے بی این اے کمانڈر اور بلوچ رہنما سرفراز بنگلزئی نے اس بات کی تائید کی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تنظیم سے نظریاتی اختلاف تھا اور وہ خواتین کو کارروائیوں میں ملوث کرتے تھے اور بچوں کو ’فدائی‘ بنانے کی تیاری کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس موقعے پر کہا: ’میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘
بلوچ رہنما نے اپنے پیغام میں کہا کہ بندوق مسئلے کا حل نہیں ہے اور بچوں کو تعلیم کی راہ پر گامزن کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: ’اور لوگ بھی قومی دھارے میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ بھٹکنے والوں کی حالت دیکھ کر آیا ہوں۔ ان کے گھر والے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔‘
اس سال اپریل میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ خفیہ ادارے نے بلوچستان میں ایک کامیاب آپریشن کے دوران کالعدم جماعت بلوچ نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گلزار امام عرف شنبے کو حراست میں لے لیا۔
بیان میں بتایا گیا تھا کہ گلزار امام بی این اے کے بانی اور سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے انضمام سے وجود میں آئی تھی۔
اس کے بعد گلزار امام شنبے نے ایک پریس کانفرنس میں قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
’معافی کا طلب گار ہوں‘
23 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں شنبے نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’گرفتاری کے بعد مجھے اپنے ماضی کو دیکھنےکا موقع ملا اور اس تجربے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مسلح جدوجہد کا جو راستہ میں نے اختیار کیا وہ غلط تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دونوں جانب سے اس لڑائی میں جتنے لوگ مارے گئے ان سب سے معافی کا طلب گار ہوں۔‘
’مسلح جدوجہد سے مسائل حل نہیں ہوں گے، نقصان صرف بلوچ قوم کا ہو رہا ہے، بلوچ قوم اس کی وجہ سے پسماندگی کی طرف گئی ہے۔‘
گلزارامام نے مزید کہا ’میرا تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے ہے، میں 15 سال سے بلوچ مسلح جدوجہد میں متحرک رہا ہوں، اب میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ آئین اور قانون کے تحت لڑی جاسکتی ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔