پاکستان اور افغانستان کی نسلیں جو خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھ گئیں

پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں اطراف مقیم خاندانوں کے بچوں کو بہلا پھسلا یا اغوا کر کے ٹی ٹی پی میں بھرتی اور بعد ازاں خودکش حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

26 اپریل 2022 کو کراچی یونیورسٹی سے منسلک کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب خودکش بم دھماکے کے بعد پولیس تباہ ہونے والی گاڑیوں کے آس پاس کی جگہ کا معائنہ کر رہی ہے (اے ایف پی)

نوجوان احمد پر گھبراہٹ طاری تھی۔ اس نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانک کر اپنے دماغ کو مصروف کرنے کی کوشش کی اور اپنے پاس سے گزرنے والی کاروں، رکشوں اور پیدل چلنے والوں کو اپنے روزمرہ کے کام کرتے ہوئے دیکھنا شروع کر دیا۔

احمد (فرضی نام) نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے لیکن اسے معلوم تھا کہ پاکستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والا ڈرائیور اور اس کا ہینڈلر اکرام کہیں بھی گاڑی کو روک کر اسے باہر نکلنے اور اس جگہ کے اردگرد گھومنے کا حکم دے سکتا ہے، جب تک کہ اسے افغانستان کے شہر خوست میں موجود ہیڈ کمانڈر کی جانب سے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے وہ مخصوص کوڈورڈ نہ مل جائے، جو اس نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ازبر کیا تھا۔

وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے کیوں کہ کمانڈر نے اسے ہزاروں بار اس اعلیٰ مقصد کے بارے میں بتایا تھا اور یہ کہ اپنی جیب کے نیچے چھپا ہوا وہ بٹن دبانے کے فوری بعد جنت میں ایک عظیم انعام اس کا منتظر ہو گا، جو دو تاروں کے ذریعے اس کی قمیض کے نیچے سینے کے گرد پٹے ہوئے بھاری دھماکہ خیز مواد کے پیکٹوں سے جڑی ہوئی تھیں۔

اسے سختی سے کہا گیا تھا کہ وہ اس جگہ نظروں میں آئے بغیر اس مقام پر کھڑا ہو جائے جہاں اسے اتارا جائے گا اور کمانڈر کے اگلے حکم کا انتظار کرے۔

’بس یہاں رک جاؤ‘ اکرام نے ڈرائیور کو حکم دیا۔ جیسے ہی گاڑی رکی اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور مصروف چوراہے کو دیکھا جہاں سے درجنوں عام پاکستانی شہری سردیوں کے کپڑوں کی خریداری کر رہے تھے۔

اسے لگا جیسے وہ سڑک سے گزرنے والے ہر شخص کو محسوس کر سکتا ہے۔ آخرکار وہ لمحہ آنے ہی والا تھا جس کے لیے وہ وہ گذشتہ تین ماہ سے مشق کر رہا تھا۔ گاڑی جانے کے بعد احمد اپنے خیالوں میں گم تھا، جب ہینڈلر کا دیا ہوا فون بج اٹھا۔ اس نے پیغام دیکھا جس میں ’لوئے افغانستان‘ تحریر تھا۔

احمد فون اپنے دل کی دھڑکن سن سکتا تھا جب اس نے اپنی جیب کے اندر انگوٹھے کے نیچے چھوٹا سا بٹن محسوس کیا۔ اس نے اپنے اردگرد بہت سے چہروں کو دیکھا اور بٹن دبا دیا۔ احمد کو پہلے کچھ محسوس نہیں ہوا پھر اچانک تیز روشنی کی چمک دکھائی دی اور سب کچھ ختم ہو گیا۔

احمد کی کہانی واحد یا پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں جانب بہت سے لوگوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے سرحد کے دونوں جانب آباد غریب خاندانوں کو انتہائی خوفناک حقیقت کا سامنا ہے جن کے بچوں کو اغوا یا انہیں بھلا پھسلا کر افغانستان میں مقیم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی میں بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبوں میں سینٹرز میں تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

ٹی ٹی پی کی طرف سے عام طور پر مذہب کے نام پر مقامی لوگوں کا استحصال کرنا اور انہیں قتل عام کے لیے سرحد پار بھیجنا ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں بات کرنے، اسے اجاگر کرنے اور روکنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ایک ملک بلکہ پورے خطے کی سلامتی، تحفظ اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔

اس طرح کے ہتھکنڈوں کے زمینی نتائج اعداد و شمار سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ 2023 میں پاکستان میں 75 فیصد خودکش بم حملوں میں افغان شہری براہ راست ملوث تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان خودکش بمبار آتے کہاں سے ہیں؟ انہیں اپنے گھر چھوڑنے، دہشت گردی کی تربیت دینے اور پاکستان میں کہیں خود کو دھماکے سے اڑانے کے لیے کس چیز کا لالچ دیا جاتا ہے؟ وہ خود ایسا کرتے ہیں یا ان کی حوصلہ آفزائی دشمن ملک یا غیر ریاستی عںاصر یا کوئی اور کرتا ہے؟ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو سرحد کے دونوں طرف کے کچھ دیہاتوں کے نوجوان لڑکوں کو پی بی آئی ای ڈی (پرسنل بورن امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس جسے خودکش بمبار بھی کہا جاتا ہے) بنانے کے لیے افغانستان کے مرکز میں تربیتی سینٹرز میں لے جانا آسان لگتا ہے۔ دیہی افغانستان کے سماجی اور اقتصادی حالات کو نہ سمھجنا مضحکہ خیز ہوگا جو خودکش بمباروں کی ترسیل کے نظام کا اہم حصہ ہے۔

خودکش حملے ٹی ٹی پی اور افغانستان میں موجود دیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے اپنائے گئے ترجیحی طریقہ کار ہیں کیونکہ یہ دوسرے دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مہلک اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو اس طریقے سے ہتھیاروں کو چھپانے، آخری لمحات میں ایڈجسٹمنٹ کرنے میں آسانی ہوتی ہے، چونکہ یہ خودکش حملے ہوتے ہیں اس لیے انہیں اپنے حملہ آوروں کے فرار یا انہیں ریسکیو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بموں کا جھنجھٹ۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اگرچہ 1981 اور 2006 کے درمیان ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں میں سے صرف چار فیصد خودکش تھے لیکن ان حملوں سے 32 فیصد اموات (14,599) ہوئیں۔ خودکش حملوں میں سے 90 فیصد افغانستان، عراق، اسرائیل، فلسطینی علاقوں، پاکستان اور سری لنکا میں ہوئے جب کہ 2015 کے وسط تک تمام خودکش حملوں میں سے تقریباً تین چوتھائی صرف تین ممالک افغانستان، پاکستان اور عراق میں ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خودکش حملوں کو نفسیاتی جنگ کے ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد آبادی میں خوف پیدا کرنا، ان علاقوں کو محدود کرنا جہاں عوام محفوظ محسوس کرتے ہیں اور معاشروں کو ایک جوڑنے والے اعتماد کے تانے بانے کو ختم کرنا۔ ٹی ٹی پی یہ جانتی ہے اور اس سب کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔

اس کی زیادہ تر قیمت غریب خاندانوں ادا کرنا پڑ رہی ہے جن کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا اور اکثر اگلی نسل کے واحد کمانے والے کو چھین لیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے دہشت گردی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔

اس کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ 90 فیصد ایسے کیسز ہیں جہاں خودکش حملوں کے لیے گھروں سے اٹھائے گئے بچوں اور کم عمر لڑکوں میں سے زیادہ تر واپس جانا چاہتے ہیں یا ان کے والدین انہیں واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

اس کے باوجود بھی ٹی ٹی پی نے اس سخت اقدام کو جاری رکھتے ہوئے درجنوں بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف تاریک غاروں اور دہشت گردی کے تربیتی مراکز میں رکھا ہوا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے اور معلومات پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ