فاطمہ زہرہ اور ان کے شوہر شاہد دونوں ملازمت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو زندگی میں سب کچھ دیں۔ وہ اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ دونوں پورے دن کام کرتے ہیں اور ان کا بیٹا وحید اپنی دادی کے ساتھ گھر پر رہتا ہے۔
وہ اپنی دادی کے بہت قریب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑا پیار تھا۔ وہ اکثر گھنٹوں باتیں کرتے۔ اس کے دوست گھر آتے اور دادی کے ساتھ ٹی وی دیکھتے، باتیں کرتے۔ رات کو پورا خاندان ساتھ کھانا کھاتا اور گپ شپ ہوتی۔
پھر وحید اپنے دوستوں کے ساتھ آن لائن گیمز کھیلنے لگا۔ اس کی پسندیدہ گیمز فورٹ نائٹ، گرینڈ تھیفٹ آٹو، پب جی تھیں جو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ اس میں کوئی تشویش کی بات نہیں تھی، لیکن پھر گیموں کا دورانیہ بڑھتا چلا گیا۔ اب وحید دن بھر گیمیں کھیلتا۔ رفتہ رفتہ اس نے راتوں کو جاگ کر کھیلنا شروع کر دیا۔
حد تو اس وقت ہوئی جب اس نے اپنی دادی کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ ایک دادی کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اکیلی تڑپتی رہی مگر ان کے پوتے نے ان کی خبر تک نہیں لی۔ شام کو جب فاطمہ اور شاہد گھر آئے جب جا کر دادی کو دوا دی گئی۔
ان کو پتہ چلا کہ ان کا بیٹا پورے دن کمرے میں بند رہا کیونکہ وہ گیم کھیل رہا تھا۔ پوچھنے پر اس نے کوئی خاص جواب نہیں دیا۔ اسی وقت فاطمہ کو اندازہ ہو گیا کہ آن لائن گیمز بند کرنے کا وقت آ گیا ہے اور آہستہ آہستہ بیٹے کا آن لائن ٹائم کم کروایا۔
فاطمہ نے کہا، ’ایسا کرنا بہت مشکل تھا لیکن کیونکہ میں اکثر آن لائن یوز کے بارے میں خبریں دیکھتی ہوں مجھے معلوم تھا کہ زبردستی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مجھے اپنا بیٹا واپس چاہیے تھا مگر یہ کرنے کے لیے بہت صبر کرنا پڑا۔ آج ہمارا بیٹا آن لائن جاتا ہے لیکن کم وقت کے لیے۔ اللہ کا بہت شکر ہے کہ ٹھیک وقت پر ہم نے اس نشے کو روک دیا ورنہ پتہ نہیں ہم کیا کرتے۔‘
شاہد نے کہا: ’شاید ہمارا بیٹا بڑا تھا اس لیے ہم اس کو آن لائن کے نشے سے بچا سکے۔ اگر اس کی عمر کم ہوتی تو بہت مشکل ہو جاتا۔ دنیا بھر میں آن لائن گیموں کی لت پر تحقیق ہو رہی ہے اور سائنس دان معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آن لائن رہنے سے لوگوں میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔‘
فاطمہ اور شاہد ان خوش نصیب والدین میں سے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کو صحیح وقت پر بچا لیا۔ مگر ہزاروں والدین ہیں جو ایسا نہیں کر پاتے۔
ان مسائل کا بڑا حصہ انٹرنیٹ سے منسلک ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کی نسل انٹرنیٹ کی نسل ہے تو یہ بالکل غلط نہیں ہو گا۔ بہت چھوٹی عمر سے یہ بچے آن لائن ہیں اور ان کو اس کے استعمال کرنے کی کوئی تربیت بھی نہیں دی گئی۔ وہ نیچرل یوزرز ہیں۔
ساجدہ کے دو بچے ہیں جن کی عمریں 11 اور 14 سال ہیں۔ ان بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے اس کا استعمال آ گیا تھا جبکہ شاید ان کی ماں باپ کو نہیں آتا تھا۔ جب کووڈ پھیلا تو پوری دنیا کی طرح ان بچوں کی زندگی بھی انٹرنیٹ کے گرد گھومنے لگی۔ پڑھائی سے لے کر تفریح تک سب کچھ آن لائن تک محدود ہو گیا۔ اسی عرصے میں ساجدہ کے بچے آن لائن گیمز کھیلنے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شروع میں تو اس بات کی اہمیت ساجدہ کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن ایک بار کووڈ ختم ہوا تو ساجدہ کو احساس ہوا کہ اس کے بچے آن لائن کو پیارے ہو گئے ہیں۔ ہر وقت گیمز کھیلتے جس کی وجہ سے وہ باقی چیزوں کو نظر انداز کرنے لگے تھے۔ ان پر ساجدہ اور اس کے شوہر کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ تھوڑے دنوں بعد ساجدہ کو بچوں کے سکول سے معلوم ہوا کہ وہ پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہے اور اگر یہ جاری رہا تو وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
ساجدہ نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا اور بچوں کے فونز لے لیے اور انٹرنیٹ بند کر دیا جس سے گھر میں قیامت آ گئی۔ بچے اپنے والدین سے بدتمیزی کرنے لگے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ بچوں نے ماں سے بات کرنی چھوڑ دی اور گھر کا ماحول ہر وقت خراب رہتا۔ اور بچوں نے بدتمیزی کی حدیں پار کر دیں۔
ساجدہ نے اپنے بچوں کو نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھایا تو پتہ چلا کہ اس کے بچوں کو بے چینی، ڈپریشن اور خود اعتمادی کی کمی ہو گئی ہے اور ان کو اصلی دنیا سے بہتر آن لائن میں رہنے سے سکون ملتا ہے۔ ساجدہ کو شدید حیرت ہوئی کہ آن لائن رہنے سے کتنے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔
بہت مشکل سے اس کے بچوں کا علاج ہوا اور اب وہ بہتر ہو گئے ہیں۔ لیکن ساجدہ کا کہنا ہے کہ ماں باپ کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو آن لائن کے نشے کا عادی بنا رہے ہیں، جس کے نتائج بہت خراب ہو سکتے ہیں۔
آج کل کے بچے پر بہت چھوٹی عمر سے معلومات کی بوچھاڑ ہے جس کی وجہ سے ان کا ہر چیز کا نظریہ پہلے آنے والی تمام نسلوں سے مختلف ہے۔ ان کو کم عمری میں بہت ایکسپوژر مل رہا ہے جبکہ ان کا دماغ ابھی اتنی معلومات حاصل اور سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ ابھی ان بچوں کے پاس دنیا کو پرکھنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
دوسری جانب ان کے والدین کو انٹرنیٹ کی ورچوئل دنیا کے بارے میں ان کے مقابلے میں بہت کم معلومات ہیں اور یہ بات بچوں کو بھی پتہ چل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر لاعلمی میں بہت خطرناک لوگوں سے آن لائن تعلقات بنا لیتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آن لائن ایسے بہت لوگ ہوتے ہیں جو ان کی معصومیت کا فائدہ اٹھائیں گے جن کا کام ہی لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کو نقصان دینا ہے۔ ایسے لوگ بے حد شاطر ہوتے ہیں اور ان کی انٹرنیٹ پر موجودگی کا مقصد فقط شکار ڈھونڈنا ہے۔
1993 میں انٹرنیٹ کو دنیا میں متعارف کروایا گیا تھا جبکہ یہ ایک دہائی سے تجرباتی مراحل میں تھا۔ آج عالمی آبادی کا نصف سے زائد حصہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ڈیٹنگ سے لے کر گیمنگ تک، علم حاصل کرنے سے لے کر جرائم کرنے تک لوگ اب انٹرنیٹ سے جڑ گئے ہیں، لہٰذا بچوں کی زندگیوں میں انٹرنیٹ لازم و ملزوم ہو گیا ہے اور آہستہ آہستہ بچے حقیقی دنیا اور انسانی جذبات سے عاری دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں نہ ان کو کسی سے تعلق رکھنا پڑتا ہے اور نہ کسی ذمہ داری کی فکر۔ وہ بس اپنی ورچوئل دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں سب کچھ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔
بچے، نوجوان اور بڑے سب انٹرنیٹ کے سحر میں کھوتے جا رہے ہیں۔ دن دن بھر لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے کیونکہ جو تسکین آن لائن ملتی ہے وہ عام زندگی میں کہاں۔ مگر اس سحر کا خطرناک پہلو سامنے آنے لگا ہے۔ 2010 میں جنوبی کوریا کے ایک شادی شدہ جوڑے کی تین ماہ کی بیٹی بھوک سے مر گئی کیونکہ وہ دونوں گھنٹوں کمپیوٹر گیم میں ورچوئل کردار کی دیکھ بھال کرنے میں مگن تھے۔ دونوں ہر روز کئی کئی گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ کیفے جاتے جہاں وہ یہ گیم کھیلتے اور ان کی بچی گھر میں اکیلی رہتی جس کو وہ کبھی کبھار آ کر دودھ پلاتے۔
اس وقت اس خبر نے لوگوں کے دل دہلا دیے تھے مگر اب جب انٹرنیٹ کا استعمال عام ہو گیا لگتا ہے لوگوں کو اس کے زیادہ استعمال کرنے کے خطرات نظر نہیں آ رہے ہیں خاص طور پر اس بات سے کہ ان کے بچوں کو کتنے خطرات کا سامنا ہے۔ بچے زیادہ تر آن لائن گیمز کھیلتے ہیں جس سے ان والدین کو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ کم سے کم وہ کسی فحش ویب سائٹس پر تو نہیں جا رہے۔
والدین کتنے معصوم ہیں۔ وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ ان کے بچے آن لائن گیمز جیسے لوڈو، روبلوکس، کال آف ڈیوٹی، پب جی وغیرہ کھیل کر بالکل غیر محفوظ ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کوئی آن لائن گیم خطرناک ہو۔ 2016 میں بلیو وہیل چیلنج نامی ایک آن لائن گیم آیا تھا جس کو کھیلنے کے بعد کئی بچوں اور نوجوانوں نے خودکشی کر لی تھی۔ "بلیو وہیل چیلنج" کا مقصد تھا کہ نوعمروں کو 50 دنوں میں 50 کام کرنے ہوتے تھے اور آخر میں ان کو اپنی جان دینی ہوتی تھی۔
روبلوکس، کال آف ڈیوٹی، پب جی کھیلنے والوں میں ابھی تک ایسی کوئی چیز رپورٹ تو نہیں ہوئی مگر ہر گیم کا مزاج الگ ہے۔ جو نہ صرف اخلاقیات کے خلاف ہوتے ہیں لیکن دماغ کو دہرے پیغامات دیتے ہیں جس سے لوگ جرائم کو قبول کرنے لگیں جیسے کال آف ڈیوٹی یا گرینڈ تھیفٹ آٹو، جن میں لوگوں پر فائرنگ اور چوری کرنی ہوتی ہے۔
ان کو کھیل کر لوگوں کو تشدد برداشت کرنے اور جرم کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور ورچوئل دنیا کی یہ احساسات اصل دنیا اور زندگی پر اثر کرنے لگتے ہیں۔
پب جی جیسی گیمز بھی آن لائن گیمز ہیں جو کھیلنے والے کو دنیا میں کسی بھی حصے میں کھیلنے والے سے جوڑتے ہیں۔ اور ان میں سے چند لوگ مجرم ہوتے ہیں جو نو عمر بچوں سے آن لائن دوستی کرتے ہیں، اور ان سے فحش باتیں کر سکتے ہیں اور ان کو اغوا بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے۔
سوشل میڈیا بےضرر نشہ نہیں ہے۔ ماہرین اس کے اثرات پر ریسرچ کر رہے ہیں اور بعض ممالک نے چھوٹے بچوں کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا جس میں گیمز بھی شامل ہیں استعمال کرنے سے دماغ میں ڈوپامین نامی مادہ پیدا ہوتا ہے جو خوشی اور تسکین کا احساس دیتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر انسان کے موڈ کو بہتر کرتا ہے اور لوگوں کو اچھا لگنے لگتا ہے۔ ماہرین نے تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ قدرتی طور پر دماغ میں ڈوپامین کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر سوشل میڈیا کے استعمال سے دماغ زیادہ ڈوپامین پیدا کرتا ہے جو کہ نارمل نہیں ہے اور اس سے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کے مزاج پر اثر پڑتا ہے۔ بےچینی ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
جس طرح کچھ لوگ انجیکشن ہیروئن اور دوسری منشیات کی ترسیل کا طریقہ کار ہے، اسی طرح سمارٹ فون جدید دور کا انجیکشن ہے۔
رپورٹ سوشل میڈیا کے بارے میں کہتی ہے کہ سماجی رابطے سوشل میڈیا ایپس نشہ آور ہو گئے ہیں، جس سے ہمیں جبری ضرورت سے زیادہ استعمال کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ ایپس ہیروئن، یا میتھ، یا الکحل کی طرح ہمارے دماغ کے انعامی راستے میں ایک ہی وقت میں ڈوپامائن کی بڑی مقدار کے اخراج کا سبب بن سکتی ہیں۔ وہ ایسا محسوس کرنے والی خصوصیات کو بڑھا کر کرتے ہیں جو انسانوں کو پہلے ایک دوسرے کی طرف راغب کرتی ہیں۔
پھر نیاپن ہے۔ ڈوپامین ہمارے دماغ کی تلاش اور دریافت کے افعال سے متحرک ہوتی ہے، جو ہمیں بتاتی ہے، ’ارے، اس پر دھیان دو، کچھ نیا آیا ہے۔‘ اس میں مصنوعی ذہانت کے الگوردم شامل کریں جو یہ سیکھتے ہیں کہ ہم نے پہلے کیا پسند کیا ہے اور نئی چیزیں تجویز کرتے ہیں جو ایک جیسی ہیں لیکن بالکل ایک جیسی نہیں ہیں، اور ہم چل رہے ہیں۔
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بچوں آن لائن جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق آن لائن ان مجرموں کی تعداد خاصی زیادہ ہے جو بچوں کی نامناسب تصویروں اور ویڈیوز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایسا مواد بہت وائرل ہوتا ہے اور لوگ اس سے لاکھوں کماتے ہیں۔ اس مواد کو آن لائن حاصل کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن گیمز جہاں لوگ اپنی شناخت کروائے بغیر کسی سے بھی بات کر سکتا ہے۔ ایسے مجرم بچوں سے دوستی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے نامناسب تصاویر یا ویڈیوز لیں۔ یا ان سے ملیں۔
ان لوگوں کو بچوں سے بات کر کے ان کا اعتماد حاصل کرنے کے طریقے آتے ہیں اور اس سے بچے نہ جانے میں اپنے آپ کو غیر محفوظ کر لیتے ہیں۔ برطانیہ میں ایسے لوگوں کے خلاف کافی کام ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی حکومت نے Child Safety Online: A Practical Guide for Providers of Social Media and Interactive Services (2016) تیار کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو آن لائن کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے The Online Safety Act (2022) بنایا تاکہ لوگوں کو بالخصوص بچوں کو آن لائن محفوظ بنایا جا جائے۔ اس کے علاوہ یو این، یورپی یونین اور کئی ممالک نے سکولوں میں سمارٹ فون کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے جن میں الجزائر، کمبوڈیا، چلی، مصر، فن لینڈ، ہنگری، قازقستان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور روس شامل ہیں۔
کئی ممالک جیسے امریکہ، برازیل، کینیڈا اور انڈیا کی کئی ریاستوں اور صوبوں نے سکولوں میں سمارٹ فون پر پابندی لگانا شروع کر دی ہے۔
جہاں سوشل میڈیا یا کوئی بھی ذریعہ ابلاغ استعمال کرنا سب کا بنیادی حق ہے اور صدیوں کی جدوجہد سے لوگوں کو آزادی رائے کا حق ملا ہے وہیں ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے خطرات اور برائیوں سے نہ صرف آگاہ کریں بلکہ بچائیں۔
اس سلسلے میں ہمارے قانون سازوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مناسب قانون سازی کریں۔ آسانی یہ ہے کہ انہیں پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ دوسرے ملکوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی قسم کے قانون متعارف کروا سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔