میں پاکستان کی ایک نامور جامعہ کے شعبۂ ابلاغِ عامہ میں تدریس اور تحقیق سے منسلک ہوں۔ ایک دن میں نے اپنی کلاس میں طلبہ سے پوچھا کہ ان میں سے کتنے لوگ اردو میڈیا میں کام کرنا چاہتے ہیں؟
حیرت انگیز طور پر ان میں سے کسی نے بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ جب میں نے چند طلبہ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اردو میڈیا میں رائج زبان نہ بول سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ پوری کلاس میں صرف ایک طالبہ نے کہا کہ وہ اردو میں مضمون لکھ سکتی ہے، جبکہ باقیوں نے گویا اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
ان طلبہ کی اردو میڈیا میں عدم دلچسپی اور اردو میں خطرناک حد تک کم ہوتی ہوئی اہلیت آنے والے برسوں میں اردو میڈیا کے وجود اور بقا کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
ان طلبہ کا تعلق جنریشن زی سے ہے۔ یہ سنہ 1997 سے سنہ 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی بول چال، طرزِ زندگی اور اقدار و آداب ان سے پہلے والی نسلوں سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی اپنی ایک مخصوص زبان اور اظہار کا انداز ہے اور یہ اسی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن سمارٹ فون اور تیز رفتار انٹرنیٹ کے ساتھ گزارا ہے۔ انہیں نہ اپنے گھروں میں کتابیں ملیں، نہ گھروں سے باہر لائبریریاں ملیں۔ انہوں نے ٹی وی پر ایسے نیوز اینکرز کو سنا ہے جو خود درست اردو بولنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے بارہویں جماعت تک اردو ضرور پڑھی ہے لیکن محض ایک مضمون کے طور پر۔ باقی تمام مضامین انہیں انگریزی میں پڑھائے گئے ہیں۔ انہیں نصاب، کتابیں، علوم انگریزی میں ہی ملے ہیں۔
ان کے بچپن میں ہی گھروں میں اخبار آنا بند ہو چکے تھے۔ ان میں سے اکثریت کے والدین ان کے ساتھ انگریزی میں گفتگو کرتے آئے ہیں۔ یہ خود بھی آپس میں انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ ان کا اردو سے تعلق محض ایک آدھ مشہور شعر یاد رکھنے یا قوالی نائٹس میں اردو قوالیوں پر سر دھننے تک محدود ہے۔
وہ لاعلم ہیں کہ اردو کتنی خوبصورت، جامع اور بھرپور زبان ہے، جس کی قدیم تاریخ ہے، اس میں اعلیٰ ادب، تاریخ، مذہبی علوم اور دیگر فنون پر لاکھوں کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔ خود اردو صحافت کی صدیوں پر پھیلی ہوئی درخشاں تاریخ ہے۔
لیکن اس لاعلمی میں جنریشن زی کا قصور نہیں ہے۔ ہم نے انہیں وہ ماحول ہی فراہم نہیں کیا جو انہیں اردو زبان کے قریب لا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹیوں میں آنے کے بعد ان کا اردو سے زبردستی کا تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جامعات میں انہیں انگریزی زبان ہی میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جامعات اردو زبان کی تدریس یا فروغ پر اس لیے بھی زیادہ توجہ نہیں دیتیں کیونکہ یہ ان کی عالمی درجہ بندی کے پیمانوں میں معاون نہیں ہوتا۔
جامعات کی عالمی درجہ بندی کا انحصار مختلف عناصر پر ہوتا ہے جن میں سب سے اہم کسی بھی جامعہ میں ہونے والی تحقیق ہے۔ جامعات پروفیسروں اور طلبہ کو زیادہ سے زیادہ تحقیق کرنے اور بہتر سے بہتر جرنل میں چھپنے پر مجبور کرتی ہیں۔ بہت سی جامعات میں طلبہ کے گریڈ اور پروفیسروں کی نوکری اور ترقی معیاری جرنل میں تحقیق کی اشاعت سے منسلک ہوتے ہیں۔
ان جرنل میں اشاعت کے لیے بہترین انگریزی ضروری ہے۔ اسی وجہ سے جامعات میں طلبہ کو اردو زبان سیکھنے کی تلقین نہیں کی جاتی، حتیٰ کہ شعبہ ابلاغِ عامہ میں بھی اس پر زور نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ ایسے شعبہ جات کا مقصد ابلاغِ عامہ میں محقق پیدا کرنے کے علاوہ میڈیا انڈسٹری کو بہترین ٹیلنٹ فراہم کرنا بھی ہے۔
لیکن جس پروفیسر پر زیادہ سے زیادہ تحقیق کرنے اور اسے بہترین جرنل میں شائع کروانے کا دبائو ہو، وہ طلبہ کو اردو میڈیا کے لیے کیسے تیار کرے گا؟
چین جیسے ممالک میں درس و تدریس قومی زبان میں کی جاتی ہے اور تحقیق بھی اپنی ہی زبان میں کی جاتی ہے، اس کے باوجود ان کی کئی جامعات دنیا کی بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ ہم چین کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے لیکن اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔ مگر افسوس، اردو ہماری قومی ترجیحات میں شامل نہیں۔
اس تناظر میں کہیں نہ کہیں قصور اردو میڈیا کا بھی ہے۔ اردو میڈیا کا حال پچھلی کئی دہائیوں میں بے حال ہوا ہے۔ مالکان اور ایڈیٹرز کا زیادہ زور انگریزی میڈیا پر ہوتا ہے۔ اردو میڈیا پر وہ معیاری صحافت نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں، اردو میڈیا نے اپنے بزنس ماڈل میں جدت لانے کی کوشش نہیں کی۔ مالی وسائل کی کمی کے باعث کئی اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس بند ہو چکے ہیں، جو باقی ہیں وہ بھی باصلاحیت افراد کو مناسب معاوضہ دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔
جین زی اپنے سے پہلے والی نسلوں سے مختلف ہے۔ یہ چپ چاپ اچھے حالات کا انتظار نہیں کرنا چاہتے، بلکہ فوری طور پر بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ صحافت میں عموماً آمدنی محدود ہوتی ہے، اس لیے پاکستانی جامعات کے ابلاغِ عامہ کے زیادہ تر طالب علم کارپوریٹ شعبوں جیسے کہ تعلقاتِ عامہ، ابلاغیات اور اشتہارات میں کام کرنا چاہتے ہیں۔
ان شعبوں کی نوعیت چونکہ مختلف ہے اس لیے ان میں کام کرنے کے انداز بھی کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ ان اداروں میں صارفین کے لیے بہت سے پیغامات رومن اردو میں تیار ہونے لگے ہیں، کیونکہ یہی زبان اس نسل کو زیادہ آسان اور فطری محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح ہم اگلی دہائی میں ان کی اردو زبان میں رہی سہی قابلیت بھی ختم کر دیں گے۔
جنریشن زی اور اس کے بعد آنے والی جنریشن ایلفا میں اردو زبان کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں۔ سرکاری سطح پر اردو زبان کی ترویج کریں۔ سرکاری تقریبات اردو میں منعقد کریں۔ زیادہ سے زیادہ اردو اخبارات اور جرائد شائع کریں۔ جامعات میں طلبہ کے لیے اردو میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا لازمی قرار دیں۔
ابلاغِ عامہ کے طلبہ کو انڈسٹری سے متعلق کورسز انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی پڑھائے جائیں تاکہ وہ اردو میڈیا میں کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ان کورسز کے ساتھ ساتھ کم از کم چار سمیسٹرز میں اردو زبان پڑھائی جائے تاکہ طلبہ نہ صرف اردو میں مؤثر انداز میں کام کرنا سیکھیں بلکہ اس زبان کو بخوبی سمجھ اور برت بھی سکیں۔
شاید ایسے ہم طویل عرصے میں اردو میڈیا کو بچانے کے قابل ہو سکیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔