شادیاں — طرز و ثقافت کے بدلتے رنگ

وقت چاہے کتنا بھی کروٹیں لے اور نئے ’رجحان‘ آ جائیں میٹھی رسومات اور سادگی اپنی جازبیت اور گہرے معنی رکھتے ہیں، شاید اسی لیے آج بھی نکاح کے چھوہارے اور جوتا چھپائی کی رسمیں چلی آ رہی ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے والے نئے جوڑوں کی دنیا کو دیکھنے کی روش خاصی عملی ہوتی ہے (پکسا بے/vatsalrbhatt)

میری شادی کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اب جن رجحانات پہ شادیوں کی ثقافت مرتب ہو رہی ہے وہ ذرا ہٹ کے ہیں۔

مایوں یا مانجھے کی رسم ہوا کرتی تھی جس سے کسی بھی گھر میں شادی کی رسموں کا آغاز ہوا کرتا۔

ہلدی اور ابٹن کے ساتھ پھولوں کی ملی جلی خوشبو، پیلے جوڑے، گیندے کے ہار اور گجرے، میوہ اور سوجی کی خاص پینڈیہاں حلوائی سے بن کے آتیں اور جناب میلاد پڑھنے کے ساتھ گھر میں شادی کی رسومات کو کک آف ملتا۔

دوسری طرف لڑکے کا مانجھا ہوتا۔ پیلا کُرتا اور سفید شلوار میں ملبوس دولہا کے بازو پہ روایتی گوٹے سے بنا امام ضامن باندھ دیا جاتا۔

گھر کی بڑی بوڑھیاں ایسے موقعوں پہ رسم و رواج کا پاٹ پڑھانا اپنا جیسے فرض سمجھا کرتیں۔ ماں باپ خوشی میں بیٹی کے رخصت ہونے کی ایک خلش سی آنکھوں میں لیے نظر آتے جن میں رسموں کے دوران آنسوؤں کی گھلاوٹ بھی شامل ہو جاتی۔

اب بھی سب کچھ ہوتا ہے مگر ذرا ہٹ کے اور اس نئے پن کو صحافی سمیرا نقوی نے، جن کی شادی کو تین دہائیوں سے زائد وقت گزرا ہے، کچھ یوں بیان کیا۔

’میرے والد وقت کے ساتھ چلنے والے انسان تھے اور میرے سسر خاص روایتی مزاج کے ماننے والے، لہٰذا میری شادی میں دولہا دلہن کی ذرا کم ہی سنی گئی، لیکن والد اور سسر ضرور ایک دوسرے کے باہمی مشورے سے شادی کی رسومات اور دنوں کا تعین کرتے رہے۔

’میں اور میرے شوہر بالکل بھی لمبے چوڑے شادی پروگراموں کے حق میں نہ تھے لیکن ہم نے بڑوں کی مانی۔ آج سے دو سال قبل اپنی بیٹی کی شادی کے وقت ہم والدین نے بیٹی اور ہونے والے داماد کے ساتھ کافی باتوں پہ اتفاق رائے کیا، یوں کہا جائے کہ 70 فیصد بچوں کی مانی اور 30 فیصد اپنی منوائی‘۔

’اپنی من مانی کیا تھی بس بیٹی کو سمجھایا کہ شادی میں دلہن خود ڈانس نہیں کیا کرتی اور ہم ڈھولکی ضرور کریں گے۔ بچوں نے شادی کے کئی فنکشن کرنے پہ مشترکہ خوشی منانے کو ترجیح دی۔‘

اب نئے جوڑے جو شادی کے بندھن میں بندھ رہے ہوتے ہیں ان کی دنیا کو دیکھنے کی روش خاصی عملی ہوتی ہے۔ وہ رواجوں سے زیادہ ’طرز یا ٹرینڈ‘ کو اہمیت دے رہے ہوتے ہیں، چاہے معاملہ رسموں کا ہو یا نئی زندگی کی شروعات کا۔

سمیرا نقوی سمجھتی ہیں کہ جہیز سے بڑھ کر ضروری ہے کہ بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اپنی ضروریات اور ترجیحات کو کھلے دل سے اپنا سکے۔

انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے بھی اسی کو بہتر سمجھا اور ان کے بیٹی داماد نے اسی کو اپنایا۔

شاہانہ امروہوی نے، جن کا تعلق یوپی کے شہر امروہہ سے ہے، جب وہاں کے ریت رواجوں کو انڈپینڈنٹ اردو سے بانٹا تو آج کے مقابلے میں ان کا بتایا دور صدیوں دور لگا کہ ’جب لڑکی ایک ماہ کے لیے اپنے ہی گھر میں جیسے ’نظر بند‘ ہو جائے، اس کا نام مایوں تھا۔

اس دن سے لڑکی کی شادی کی شروعات ہو جاتی بقول شاہانہ امروہوی’ لڑکی کو اس کے کمرے تک محدود کر دیا جاتا، وہ نہ بالوں میں مانگ نکال سکتی تھی نہ ہی کوئی میک اپ، امروہہ میں مایوں کی دلہن کو روایتی پیلا نہیں بلکہ گلابی جوڑا پہنایا جاتا ہے، سر میں تیل لگتا اور ہاتھ پیروں پہ ابٹن ملا جاتا۔

’اسے دودھ دہی زیادہ کھلایا جاتا اور مرچ مصالحے کے بغیر کھانا ملتا۔ کوئی اس سے ملنے آ جا نہیں سکتا تھا اور شادی کے دن بھی میک اپ اپ وغیرہ نہ ہوا کرتا۔ مسی اور کاجل ہی اس کا سنگھار ہوتے۔

’اس کے جوڑے کو قینچی نہیں لگتی تھی، بس گلا اور آستینیں جوڑ دی جاتیں اور دوپٹے میں گوٹا وغیرہ لگا دیا جاتا۔ ہاں زیور ضرور سب پہنائے جاتے جن میں سیدھا جھومر سرفہرست ہوتا۔

’گانے وغیرہ خوب گائے جاتے مایوں کے دن رنگ کھیلا جاتا اور ڈھولکیاں ہوا کرتیں۔‘

شاہانہ امروہوی نے ایک برس پہلے اپنی نواسی کی جب شادی کی تو ان کا ماننا تھا کہ اب وقت ایسا بدلا کہ دلہن کون سی ہے پتہ نہیں چلتا۔

سب لڑکیاں شادی کے ہر فنکشن میں ایک ہی جیسا سنگھار کرتی ہیں۔ لیکن ان کی بیٹی لبنی جرار نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی بیٹی کے مایوں پہ رنگ کھیلا اور شادی کے دن تک دلہن کو میک اپ بالکل نہیں کرنے دیا۔

’ہم نے روایتی گیت بھی گائے۔ بیٹی کو یہ سمجھانے میں ضرور وقت لگا کہ تم دلہن ہو ڈانس فلور تمہارے لیے نہیں تم صرف ڈانس بیٹھ کر ہی انجوائے کرو۔‘

لبنی جرار کے بقول ’یہ ریت رواج شادی کی رسومات کو خوبصورتی دیتے ہیں لیکن انہیں عملی زندگی سے جوڑ کے ہی دیکھنا چاہیے تاکہ ہم وقت سے ہمقدم رہ سکیں۔‘

اب رسومات سے زیادہ ’ٹرینڈز‘ کو اپنانے کا دور ہے یعنی پہناوے، خوشی منانے کے انداز اور پکوان سبھی غیر روایتی انداز کے ہوتے ہیں اور ڈھولک سے زیادہ رقص پہ توجہ ہوتی ہے۔

پہلے ’سہاگ‘ گائے جاتے تھے اب نوجوان ان رسوموں سے اس قدر محظوظ نہیں ہوتے بلکہ سب کچھ ’پریکٹیکل‘ ہوتا ہے۔

بلوچ شادیوں کے بدلتے طرز پہ حمیرا نوشیروانی نے کہا ’اب رسومات وقت کے ساتھ بہت بدل گئی ہیں، پہلے دلہن کے لیے شادی سے سات روز قبل ’کلہ‘ لگایا جاتا تھا جو اس کے کمرے میں ایک بند خیمے کی مانند خوب بڑا ہوتا۔

اس میں دلہن اپنی دوستوں کے ساتھ سات دن بیٹھا کرتی، گھر سے باہر نہ جاتی، کلے میں ہی کھاتی پیتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نہ کوئی میک اپ کر سکتی تھی اور نہ باہر نکل سکتی تھی، شادی کے دن بھی کاجل اور دنداسہ استعمال کیا جاتا جو سنگھار میں شامل ہوتا، وہ سادہ کپڑے پہنتی اور روایتی زیور سے آراستہ ہوتی، نکاح کے بعد دولہا کلے میں ہی آتا اور تین دن وہیں قیام کرتا۔

اب دلہن دلہا پارلر اور ہال جاتے ہیں، شادی کی رسومات جو بچی کچھی رہ گئی ہیں وہیں ہال میں ہی ادا کی جاتی ہیں۔ پہلے شادیاں سات ساتھ دن چلا کرتیں اب تو بس مہندی شادی ولیمہ اور شادی نمٹ گئی۔

لاہور کی خاتون خانہ ابریزہ سعد نے شادیوں میں، لوگوں میں بڑھتے دکھاوے اور اپنی چادر سے اوپر پاؤں پھیلانے کے ’رجحان‘ کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا۔

ان کے بقول ’اب لوگ سہولت کا ساتھ دیتے ہیں پہلے شادیاں گھروں میں یا گھروں کے قریب میدان میں شامیانہ لگا کے کی جاتی تھیں لیکن اب ہال اور پارلر کی سہولت سب کو چاہیے۔

چاہے وہ آپ قرض لے کر ہی کیوں نہ حاصل کریں۔ اب شادی بیاہ کی خوبصورتی رسومات اور روایتوں سے نہیں بلکہ دکھاوے اور برابری سے پوری کی جاتی ہے۔

جہاں تک دکھاوے اور نت نئی ریتوں کا تعلق ہے تو خیبر پختونخوا بھی اسی میں جکڑا ملتا ہے۔ پشاور کی رہائشی خاتون خانہ روبینہ افتخار نے بتایا کہ ’پہلے ہال میں شادی کا تصور اور دلہن کی پارلر سے تیاری اور ولیمے کا اگلے دن انعقاد سبھی نہ تھے۔

’لیکن وقت بدلا اور سہولیات کی فراہمی جہاں میسر ہوئی اور جہاں نہیں بھی تھی وہاں بھی سب ایک دوسرے کے برابر نظر آنے کے لیے ہال اور پارلر کو شادی کا لازمی جزو سمجھنے لگے۔

روایتی دیہاتی شادیاں پہلے بہت سادگی سے گھروں کے اندر اور ہجروں میں ہو جایا کرتی تھیں۔ سادہ خوراک، گانوں اور اتںڑ کے دائرے کے گرد جھوما کرتے تھے یہ فنکشن اور لوگوں کی خوشیاں۔

نہ بھاری بھرکم جوڑے ہوا کرتے تھے اور نہ ہی رنگ برنگی خوارکیں۔ سادگی میں ہی سبھی سانجھی خواشیاں تھیں۔‘

جہاں تک بات ہے صوبہ سندھ کے بدلتے شادی رواجوں کی تو کراچی میں مقیم منیبہ ابراہیم نے، جو سندھ کی رہائشی اور ایک محقق ہیں، بتایا کہ ’نکاح کے بعد ہمارے رواج میں دولہا دلہن کا آرسی مصحف تو نہیں ہوتا لیکن ہلکے پھلکے انداز میں ان کے سر آپس میں ٹکرائے جاتے ہیں اور بڑی بوڑھیاں خیر برکت کے سہرے گایا کرتی تھیں۔

’اب نئی نسل کو وہ سہرے یاد ہیں نہ ان میں دلچسپی تو ایک طرح سے ان روایتوں کو محفوظ کرنے کا بھی فقدان ہو رہا ہے۔ اب برائڈل ڈریسز آ گئے ہیں پہلے دلہن ہاتھ کے کڑھے جوڑے میں تیار کی جاتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔‘

وقت چاہے کتنا بھی کروٹیں لے اور ’رجحان‘ آ جائیں میٹھی رسومات اور سادگی اپنی جازبیت اور گہرے معنی رکھتے ہیں، شاید اسی لیے آج بھی نکاح کے چھوہارے اور جوتا چھپائی کی رسم چلی آ رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ