پاکستان کی وزارت داخلہ نے گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر عدلیہ کے ججوں کے خلاف ٹرینڈز چلانے کی تحقیق کے لیے متعلقہ اداروں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ججوں کے خلاف گھٹیا اور غلیظ مہم شروع کرنے والوں کی نشاندہی کر لی گئی ہے، جبکہ ڈائریکٹر آپریشنز ایف آئی اے وقار الدین نے بتایا کہ 500 سے زیادہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی ہوئی ہے، مزید کی نگرانی جاری ہے اور سب کو قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق ملوث لوگ ملک میں ہوں یا بیرون ملک، ان کے خلاف پیکا قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔
اس ٹیم میں وفاقی تحقیقاتی اتھارٹی (ایف آئی اے)، انویسٹی گیشن بیورو، آئی ایس آئی، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندگان کو شامل کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے 2021 میں ایکس (ٹوئٹر) پر اس وقت بنے ایک ہیش ٹیگ کی تحقیق کی تھی تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ اس ٹرینڈ کے بنانے والے اور اس کو پروموٹ کرنے والے کون تھے۔ اس وقت ایک ٹرینڈ تحریک انصاف کے دور حکومت میں چلایا گیا تھا۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر آٹھ نومبر 2021 کی صبح تقریبا نو بجے پاکستان کی عدلیہ اور ججز کے خلاف #لعنتی عدلیہ **ججز کے نام سے ایک ہیش ٹیگ بنایا جاتا ہے، جس میں عدلیہ اور ججز کے خلاف ٹوئٹس آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ آٹھ اور نو نومبر کو یہ ٹرینڈ پاکستان کے ٹاپ پانچ ٹرینڈز میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس ٹرینڈ میں پاکستانی عدلیہ کے کچھ ججز کے تصاویر سمیت مختلف پوسٹس بھی کی جاتی ہیں۔ ان میں کچھ نامناسب الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جبکہ ٹرینڈ میں اس وقت کی عدلیہ پر پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کے الزامات کے پوسٹرز جاری کیے جاتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ٹرینڈ کی تحقیق کیں تاکہ پتہ لگایا جاسکے کہ یہ ٹرینڈ کون چلا رہا تھا اور کس قسم کے ایکس صارفین نے اس ہیش ٹیگ میں حصہ لیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس تحقیق کے لیے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے معروف ویب سائٹ ’ٹرینڈز میپ‘ اور ٹویٹ بائنڈر کی پریمئم سروس جس میں مختلف ہیش ٹیگز کا تجزیہ کیا جاتا ہے خدمات حاصل کی تھیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ بنانے کا ممکنہ مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ اس کی کڑی ممکنہ طور پر عمران خان کی پانچ نومبر 2021 کو اٹک میں ایک تقریر بھی ہوسکتی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ شوگر ملز مافیا کے خلاف حکومت اس لیے کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا ہوا ہے۔
عمران خان نے بتایا تھا، ’چینی کو ذخیرہ کرنے کے خلاف قانون موجود ہے لیکن ان شوگر ملز مالکان نے اس قانون کے خلاف سٹے لیا ہوا ہے۔‘ اس بیان کے بعد چھ نومبر کو عدلیہ اور ججز کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی جس میں پی ٹی آئی کے کچھ آفیشل اکاونٹس سے بھی شوگر مافیا کے حوالے سے ٹویٹس آنا شروع ہوگئیں۔
آٹھ نومبر2021 کو پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے ایکس پر لکھا، ’ایک طرف اکیلا عمران خان کھڑا ہے اور دوسری طرف تمام مافیا اکھٹا ہوچکا ہے۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے مافیا ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ اسے ناکام کرے۔ کبھی پریشر گروپ تو کبھی حکومت گرانے کی دھمکی تو کبھی چینی چھپا کر سٹے آرڈر کے پیچھے چھپنا۔ خان ان سب کو ہرائے گا انشااللہ۔‘
ٹرینڈز میپ کی رپورٹ کے مطابق اس ایک ہفتے کے دوران عدلیہ کے خلاف ایکس پر اس ٹرینڈ میں مجموعی طور پر 19 ہزار سے زائد پوسٹس کی گئیں جن میں ری ٹویٹس کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ تھیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس ہیش ٹیگ میں فی منٹ کے حساب سے تقریبا 72 ٹویٹس کی گئیں۔ ان میں ان اکاونٹ کی جانب سے جو خود کو مرد ظاہر کرتے ہے 80 فیصد سے زائد پوسٹس کی گئیں جبکہ خواتین اکاونٹس کی جانب سے تناسب 19 فیصد رہا۔
اس ہیش ٹیگ میں سب سے زیادہ حصہ ان اکاونٹس نے لیا جو پاکستان میں موجود تھے۔ شہروں میں سب سے زیادہ پوسٹس لاہور سے کی گئیں جبکہ دوسرے نمبر پر کراچی رہا۔ اس ٹرینڈ میں بیرون ملک سے بھی ٹویٹس دیکھی گئیں تھیں۔
اس ٹرینڈ میں حصہ لینے والے اکاونٹس بظاہر اپنے آپ کو پی ٹی آئی کے حمایتی ظاہر کر تے تھے اور ان ٹاپ اکاونٹس میں وہ اکاونٹس بھی شامل تھے جو خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف ٹوئٹر پر ’منظم‘ مہم کا حصہ تھے۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ٹرینڈ میں سب سے زیادہ 15609 ٹویٹس آٹھ نومبر کو کیے گئے جس کے اگلے روز 400 جبکہ 10 نومبر کو اس ہیش ٹیگ میں 180 ٹویٹس کیے گئے۔
کن اکاونٹس نے حصہ لیا؟
ایکس یا ٹوئٹر پر جب بھی کوئی ٹرینڈ بنتا ہے تو اس میں کچھ اکاؤنٹس کم اور زیادہ تعداد میں ٹویٹس کرتے رہتے ہے اور جتنی ٹویٹس کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے، تو یوں وہ ٹاپ ٹرینڈ میں نمودار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
عدلیہ کے خلا ف ٹرینڈ میں بھی یہی دیکھا گیا تھا۔ جن ایکس صارفین نے اس ہیش ٹیگ اس وقت میں حصہ لیا تھا اس میں سے چند کے نام یہ ہیں:
@arfanahmad28
ایکس کے مطابق یہ اکاونٹ قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے اب تک معطل ہے۔
@pakistan63438394
یہ اکاونٹ بھی اب ایکس پر موجود نہیں ہے۔
@pakistanarmyz10
ایکس کے مطابق یہ اکاونٹ قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے اب تک معطل ہے۔
ٹاپ ری ٹویٹس والے اکاؤنٹس میں
@rehnumasamaji اور @arainshaan90 شامل تھے۔
ان اکاونٹس کی پوسٹس سے بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہے تاہم یہ پی ٹی آئی کے آٓفیشل اکاؤنٹس نہیں تھے۔
تحقیقات میں عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ میں حصہ لینے والے ٹاپ اکاؤنٹس کے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، مواد کا بھی تجزیہ کیا گیا کہ انہوں نے کس قسم کے مواد ایکس پر شیئر کیے تھے۔ ان تین اکاونٹس میں پہلے نمبر پر سرگرم ہینڈل نے عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ میں 70 اصل ٹویٹس کیے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر کے ٹاپ اکاونٹس نے یکے بعد دیگرے 42 اور 35 ٹویٹس کیے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان اکاؤنٹس کی جانب سے ایکس پر شیئر کیے گئے مواد کا جائزہ لیا تو اس میں دو ٹاپ کے اکاؤنٹس (pakistanarmyz10 اور@arfanahmad28) وہی اکاؤنٹس تھے جو پاکستان کے خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف کچھ عرصہ پہلے ایک ٹرینڈ چلانے میں بھی پیش پیش تھے۔
ان دونوں اکاؤنٹس کا ہینڈل تو تبدیل ہوگیا تھا لیکن ڈسپلے میں ایک ہی نام لکھا تھا جس بظاہر لگتا تھا کہ یہ دونوں اکاؤنٹس ایک ہی شخص چلا رہا ہے۔ ان اکاؤنٹس میں ایک نے پاکستان آرمی کا نام استعمال کیا ہے لیکن اس کا بظاہر پاکستان آرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان تینوں اکاؤنٹس کی جب مزید تحقیق کی گئی تو ٹرینڈ میپ کی رپورٹ کے مطابق ان کی جانب سے جتنے بھی ٹرینڈز میں حصہ لیا گیا ہے تو وہ زیادہ تر ایک خاص سیاسی نظریے (پی ٹی آئی ) کے حق میں تھے۔ عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ میں حصہ لینے والے سرگرم اکاونٹ نے ماضی میں جن ٹرینڈز میں حصہ لیا ان میں #westandwithfawadchaudhry،#امت_کا_ترجمان_عمران_خان،#خونی _لبرلز_بےلگام شامل تھے۔
ایکس پر @pakistan63438394 جب فعال تھا تو اگر اسے دیکھا جاتا تو ڈسپلے پر پی ٹی آئی کے جھنڈ لگے ہوئے تھے اور یہ اکاؤنٹ گذشتہ سال جون میں بنایا گیا تھا جس کے صرف 91 فالورز تھے اور یہ محض نو صارفین کو فالو کر رہا تھا جس میں عمران خان کا آفیشل اکاؤنٹ، وزیر اعظم ہاؤس کا آفیشل ہینڈل، صحافی کامران خان، بی بی سی اردو، صحافی عمران خان کے اکاؤنٹس شامل تھے۔ اس اکاؤنٹ کی جانب سے زیادہ تر مواد پی ٹی آئی کے حق میں شیئر کیے جاتے تھے۔
اب عدلیہ کے خلاف ہیش ٹیگ میں حصہ لینے والے دوسرے اہم اکاؤنٹس @arfanahmad28 کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔ ان اکاؤنٹس میں ایڈریس لاہور لکھا گیا ہے جبکہ یہ اپریل 2019 میں بنایا گیا تھا اور اکاؤنٹ کے فالورز کی تعداد 3639 تھی جبکہ یہ اکاؤنٹ 4990 صارفین کو فالو کر رہا تھا اور اسی کے ساتھ ہی عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ میں تیسرے نمبر پر ٹاپ اکاؤنٹ @pakistanarmyz10تھا جو عرفان آحمد کے نام سے ہی بنایا گیا تھا۔
تیسرے نمبرپر آنے والے اکاؤنٹ کے کور فوٹو پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی تصویر لگی تھی اور ساتھ عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ میں دوسرے نمبر پر سرگرم اکاؤنٹ @arfanahmad28کا ہینڈل درج تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں اکاؤنٹس ایک ہی شخص کے تھے تاہم انڈپینڈنٹ اردو کے تحقیق کے مطابق یہ پی ٹی آئی کے کوئی باضابطہ اکاونٹس نہیں تھا۔
یہ ہی عرفان آحمد نامی اکاونٹ بعد میں عدلیہ کے خلاف ایک اور ہیش ٹیگ # بغض _کے_مارے_مارے_اندھے_ججز کے نام سے بھی ہیش ٹیگ میں سرگرم دیکھے گئے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے پوسٹس بھی کیے تھے۔ اس اکاؤنٹس سے سب سے زیادہ نو نومبر 2021 کو ایک دن میں 1090 ٹویٹس کی گئی تھیں، جو سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق ایک غیرمعمولی سرگرمی نظر آتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرینڈز میپ کے رپورٹ کے مطابق یہ اکاونٹ ماضی میں جن ہیش ٹیگس میں سرگرم دیکھائی دیئے تھے ان میں #نانی کا ترجمان **، **#صحافی غداراپوزیشن، #مریم نواز حساب دو، #سرکاری حاجن (یہ ٹرینڈ عاصمہ شیرازی کے خلاف بنایا گیا تھا) شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق اس اکاؤنٹ نے سب سے زیادہ ری ٹویٹس @ayeshamalik_PTI اور @aishaPTI کے نام سے بنے اکاؤنٹس کو کیا جبکہ اس اکاؤنٹ سے سب سے زیادہ کوٹ کیے جانے والے ٹویٹس میں بھی زیادہ تر اکاؤنٹس وہی تھے جو پی ٹی آئی کے نظریے کے حمایتی تھے جس میں پی ٹی آئی کی آفیشل ایکس اکاؤنٹ بھی شامل تھی۔
رپورٹ میں ایسے اکاؤنٹس کا ذکر بھی موجود ہے جنہوں نے اس ہیش ٹیگ میں حصہ لیا تھا اور ان کے ٹویٹس سب سے زیادہ ری ٹویٹس ہوئے تھے۔ اس میں مجموعی طور پر آٹھ ٹاپ سرگرم اکاؤنٹس شامل تھے جن کی سرگرمی زیادہ تر پی ٹی آئی کے بیانیے کو فروغ دیتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ یہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس فالو کرتے تھے اور پی ٹی آئی ہی کے حوالے سے ٹویٹس بھی کرتے تھے۔
سب سے زیادہ ری ٹویٹ کرنے والے کون تھے؟
اس ٹرینڈ میں کیے گئے ٹویٹس کو سب سے زیادہ ری ٹویٹ کرنے والے دو اکاؤنٹس کا اس رپورٹ کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کیا تھا۔ اس میں ایک اکاؤنٹ @rehnumasamaji کے نام سے تھا جس کے کوور تصویر میں پی ٹی آئی کا جھنڈہ لگا ہوا تھا اور بائیو میں پنجاب لکھا تھا۔
اس اکاؤنٹ نے عدلیہ کے خلاف ہیش ٹیگ میں سب سے زیادہ پوسٹس کو ری ٹویٹ کیا تھا۔ اسی طرح اس اکاؤنٹ نے ماضی میں بھی ایسے ہیش ٹیگ میں حصہ ڈالا جو پی ٹی آئی کی حمایت میں بنائے گئے تھے۔ ماضی میں اس اکاؤنٹ نے جس ہیش ٹیگ میں حصہ لیا ہے اس میں سرخرو ہوگا عمران خان اور #ایک لاکھ نوکریاں شامل تھے جبکہ باقی زیادہ تر جن ہیش ٹیگ میں سر گرم نظر آئے وہ کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے تھے۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ سرگرم اکاونٹس میں سے ایک @arainshaan90 تھا جنہوں نے سب سے زیادہ عدلیہ کے خلاف ہیش ٹیگ میں ٹویٹس کو ری ٹویٹ کیا تھا۔ اس اکاؤنٹ کے بائیو میں لکھا گیا ہے کہ وہ الیکٹریکل انجینئر ہیں اور ساتھ میں پاکستان فوج اور عمران خان سے محبت کرتا ہوں بھی لکھا ہے۔
یہ اکاونٹ ابھی بھی موجود ہے لیکن 10 ستمبر 2022 کے بعد اس سے کوئی نیا پوسٹ نہیں کیا گیا ہے۔
اس اکاؤنٹ نے عدلیہ کے خلاف ہیش ٹیگ کے علاوہ ماضی میں بھی ایسے ہش ٹیگ میں حصہ لیا جو پی ٹی آئی یا عمران خان کے حق میں تھے جبکہ صحافیوں کے خلاف ایک ہیش ٹیگ میں بھی یہ سرگرم نظر آئے تھے۔ اس اکاؤنٹ نے جن ہیش ٹیگ میں حصہ لیا ان میں #امت کا ترجمان عمران خان، #کشمیرکاکپتان عمران خان، #اقرار الحسن کو گرفتار کرو، #خان انٹرنیشنل صادق امین،#کشمیر ہوگا کپتان کا جیسے ہیش ٹیگ شامل ہیں۔
اسد بیگ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی غیر سرکاری ادارے کے سربراہ ہیں اور پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا رائٹس اور جعلی (فیک) خبروں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں بہت کم آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی پروپیگینڈا کچھ آبادی کو پہنچ جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’پاکستان میں مس انفارمیشن آن لائن سپیس کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی سوشل میڈیا پر کوئی مہم چلا رہا ہے تو بالکل ٹھیک ہے اور اسی مہم کے آڑ میں اگر پروپینگینڈا اور مس انفارمیشن پھیلائی جاتی ہے تو یہ آن لائن سپیس کو نقصان پہنچا رہا ہے۔‘
اسد بیگ نے پی ٹی آئی کے ٹرینڈز کے بارے میں بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے طرح چاہتی ہے کہ اسے ہمیشہ مثبت کوریج مل سکے۔ ان کے بقول دوسرا المیہ پاکستان میں ایکو چیمبر کا ہے۔ ’ایکو چیمبر کا مطلب یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی صارف اپنی مرضی کے مطابق سچ جاننا چاہتے ہیں اور جو بھی ان کو سچ لگے بس اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور اسی وجہ سے جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔‘
پی ٹی آئی کا موقف
سابق وزیر اعظم عمران کے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے سابق فوکل پرسن (اس وقت وہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن تھے) ارسلان خالد سے جب پوچھا گیا کہ ججز کے خلاف ٹرینڈ میں حصہ لینے والے اکاؤنٹس خود کو پی ٹی آئی کے حمایتی کیوں ظاہر کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اس ٹرینڈ میں پی ٹی آئی کے کسی شخص نے حصہ نہیں لیا ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس وقت بات کرتے ہویے کہا کہ ’اس ٹرینڈ میں پی ٹی آئی کے کسی بھی فرد نے حصہ نہیں ڈالا ہے لیکن اگر آپ کو پی ٹی آئی کے خلاف رپورٹ بنانی ہے تو آپ بے شک بنا لیں۔‘
ارسلان نے مزید بتایا کہ مسلم لیگ ن کی مریم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایسے لوگوں کو فالو اور ری ٹویٹ کرتے ہیں جو لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن آپ لوگوں نے کبھی بھی ان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں کی لیکن پی ٹی آئی والے جو ایسا کچھ نہیں کرتے لیکن ان کے خلاف خبریں چلا رہے ہیں۔
میاں فرقان کاکاخیل خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے سوشل میڈیا ترجمان تھے۔ انہوں نے عدلیہ کے خلاف ٹرینڈز کے حوالے سے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ انہوں نے بارہا عوام کو بتایا تھا کہ اگر ان کو پی ٹی آئی کے نام پر کسی قسم کا پرپینگینڈا نظر آئے تو اس کی اطلاع پارٹی ذمہ داران کو دیں۔
تاہم فرقان کے مطابق مثبت مہم چلانا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن اس کو سوشل میڈیا قوانین کے مطابق ہونا چاہیے اور کسی کو بھی سوشل میڈیا پر پروپیگینڈے اور نہ ہی جعلی خبریں پھیلانے کا حق ہے۔
پاکستان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے ناموں سے بننے سوشل میڈیا اکاونٹس بھی عدلیہ کے خلاف وقتا فوقتا استعمال ہوتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے تو ججز کے نام لے کر ان پر کھل کر تنقید بھی ہے۔
جولائی 2019 میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ایک ٹی وی پروگرام میں دعوی کیا تھا کہ ان کے پاس احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ان دنوں جاری کی گئی مبینہ ویڈیو جیسی مزید دو ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔
نوٹ: یہ تحقیقاتی رپورٹ 2022 میں تیار کی گئی تھی جسے اب شائع کیا جا رہا ہے۔