جب بھی عدالت سے کوئی بڑا فیصلہ آتا ہے دو طرح کے جملے فوری سننے کو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ نظریہ ضرورت زندہ ہو گیا اور دوسرا یہ کہ نظریہ ضرورت دفن ہو گیا۔
کچھ لوگ ان جملوں کا مفہوم سمجھتے ہیں لیکن اکثر یہ نہیں جانتے کہ اس کے پیچھے کہانی کیا ہے۔ نظریہ ضرورت ہے کیا اور ہماری عدلیہ کے ساتھ یہ لفظ کیسے نتھی ہو گیا ہے؟
نظریہ ضرورت ہے کیا؟
عمومی لفظوں میں اگر کہا جائے کسی ایسے مرحلے میں جب ایک طرف آئین اور قانون کھڑا ہوا اور دوسری جانب مفاد عامہ کا فوری تقاضا کچھ اور کہہ رہا ہو تو عدلیہ کے سامنے ایک ایسا راستہ بھی موجود ہو جہاں وہ آئین اور قانون کو بالائے طاق اور مفاد عامہ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کر سکے۔
اس کی گنجائش صرف ہنگامی حالات میں دی گئی ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں اس کے عملی مظاہر دیکھے گئے ہیں۔
پاکستان نے اس کو کب اور کیسے اپنایا؟
پاکستان کے قیام سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 26 جولائی 1947 کو پاکستان کی نئی دستور ساز اسمبلی کا حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے طے پایا کہ 1945 کے انتخابات میں مسلمان حلقوں اور وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہے ہیں، وہاں سے کامیاب ہونے والے ارکان ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین تصور ہوں گے۔
یہ طے ہوا کہ یہی دستور ساز اسمبلی پاکستان کا نیا آئین بنائے گی اور جب تک یہ آئین نہیں بن جاتا 1935 کا ایکٹ ہی پاکستان کا عارضی آئین تصور ہو گا۔
یوں قائم ہونے والی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 69 تھی جن میں سے 44 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس کا افتتاحی اجلاس 10 اگست کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوا تھا جس میں جوگندر ناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا، جبکہ اگلے روز قائداعظم کو متفقہ طور پر صدر منتخب کر لیا گیا جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد افتتاحی خطاب کیا جسے آج بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خطاب کیا اور پاکستان کو آزادی کی مبارک دی۔ سات سال بعد گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلی توڑ کر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔
یہ عمل اس وقت کیا گیا جب چھ دن بعد ملک کے پہلے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین تھے جنہوں نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اس مقدمے کا تفصیلی ذکر انڈپینڈنٹ اردو کے کالم نگار اور مصنف آصف محمود کی حال میں شائع ہونے والی کتاب ’پسِ قانون‘ میں درج ہے۔
یہ کتاب دراصل پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔ آصف محمود خود بھی وکیل ہیں اور انہوں نے جسٹس منیر کے فیصلے کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’مولوی تمیز الدین کے وکیل ڈی ایم پرٹ تھے اور گورنر جنرل کی وکالت سر آئیور جیننگز کر رہے تھے۔ گورنر جنرل نے وکیل کو جو فیس دی تھی وہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ سے سات گنا زیادہ تھی۔ دوسری جناب یہ حالت تھی کہ معاملہ جب سندھ ہائی کورٹ کے بعد فیڈرل کورٹ میں پہنچا تو مولوی تمیز الدین کے پاس وکیل کو دینے کے لیے فیس نہیں تھی۔ ان کی وکالت آئی آئی چندریگر نے کی۔‘
جب سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست نہیں
سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کی جانب سے عدالت میں جو موقف پیش کیا گیا اس کی رو سے پاکستان ابھی تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت چل رہا ہے اس لیے یہ آزاد ملک نہیں یہ ایک محکوم ریاست ہے جس پر حاکمیت تاجِ برطانیہ کی ہے اور دستور ساز اسمبلی کے کسی قانون کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک ملکہ کے نمائندے کے طور پر گورنر جنرل اس کی توثیق نہ کرے۔
گورنر جنرل کے مطابق چونکہ بادشاہت ملکہ کی ہے، حکم ملکہ کا ہے اور اختیار ملکہ کے پاس ہے اس لیے اس کا نمائندہ اگر اسمبلی کو گھر بھیج دیتا ہے تو اس نمائندے کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نمائندے کا حکم ملکہ کا حکم ہوتا ہے اور ملکہ کے حکم کی سرتابی کی اجازت نہیں ہے، اور یہ کہ عدالت کے پاس بھی ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ملکہ کے نمائندوں کے خلاف رٹ کی سماعت کر سکے۔
سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا اور قرار دیا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور یہ انڈیا انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 میں لکھا ہوا ہے۔ نیز عدالت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے معاملات میں اب پاکستان کی اسمبلی ہی فیصلہ ساز ہے اور گورنر اسمبلی توڑ نہیں سکتا، اسمبلی صرف اسی صورت میں تحلیل ہو سکتی ہے جب وہ خود دو تہائی اکثریت سے اس کا فیصلہ کر دے۔
عدالت نے مزید وضاحت کی کہ گورنر جنرل کا انتخاب بھی ہمارا ہی تھا اور ہم نے ماؤنٹ بیٹن کی بجائے قائد اعظم کو گورنر جنرل بنایا۔ چیف جسٹس کانسٹن ٹائن نے لکھا کہ قائد اعظم کے دور کی روایت تھی کہ اسمبلی نے جو قانون بنا دیا وہ گورنر جنرل کی منظوری کا محتاج نہیں وہ آزاد ملک کی پارلیمان کا بنایا ہوا قانون ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس نے حیران کن طور پر جسٹس منیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے موقف کو تسلیم کر لیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
تصور کیجیے کہ ملک کے قیام کے نو سال بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے اور برطانوی کراؤن کے نمائندے کے سامنے اس پوری پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اسمبلی سالوں کی مشق کے بعد کوئی قانون بنا دے تو بادشاہ کے نمائندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دے۔
جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ دستور ساز اسمبلی ریاست کا خود مختار ادارہ ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
جسٹس اے آر کارنیلیس کا اختلافی نوٹ
جسٹس اے آر نیلیس کا تعلق آگرہ کی ایک اینگلو انڈین فیملی سے تھا اور 1940 میں قرار داد پاکستان کے مسودے کی تیاری میں قائداعظم کے معاون کے طور پر تاریخی اجلا س میں موجود تھے۔
آپ انڈین سول سروس سے عدلیہ میں آئے تھے پاکستان کے قیام کے بعد ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے پاکستان کی شہریت حاصل کی۔ انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جوگندرناتھ منڈل کی بھی معاونت کی جنہوں نے پہلے اجلاس کی صدارت کی تھی۔
جب سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے فیصلے کو برقرار رکھا تو اس فیصلے میں اختلافی نوٹ صرف انہی کا تھا جنہوں نے لکھا کہ ’بطور جج میں صرف آئینِ پاکستان کا تابع ہوں کسی ملکہ کا نہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اس کے فیصلے کا اختیار اس کی اسمبلی کے پاس ہے اور اس کے فیصلوں کو کسی بادشاہ یا اس کے نمائندوں سے توثیق کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انڈیپنڈنس ایکٹ میں ایسی کوئی شق شامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس کارنیلس نے اپنے اختلافی نوٹ میں قائداعظم کے حلف کا بھی حوالہ دیا جس میں قائداعظم نے ملکہ کے نام کو کاٹ کر آئین پاکستان لکھوایا کہ وہ اس کے تحت حلف لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اگر گورنر جنرل ملکہ کے نمائندے کے طور پر پاکستان کی اسمبلی کے بنائے قانون کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس اسمبلی کو تحلیل کر دیتے ہیں تو یہ پورے ملک کے داخلی امور میں مداخلت سمجھی جائے گی جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
گورنر کی جانب سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو جب برطرف کیا گیا تو وہ ملکہ سے مداخلت کی اپیل کرنے برطانوی ہائی کمشنر کے پاس گئے جنہوں نے کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے، ملکہ اس میں مداخلت نہیں کریں گی۔
ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ برطانوی ہائی کمشنر پاکستان میں ملکہ برطانیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں پاکستان کی نہیں۔ یعنی ملکہ کے نزدیک ایسا کرنا پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہوتی۔
جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت آج تک قائم ہے؟
جسٹس منیر کے بارے میں ان کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت اپنے فیصلے میں وہ نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو بعد کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ ان کے فیصلے سے پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لاؤں کا راستہ کھل گیا جو آج تک بند نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی بھی صورت نظریہ ضرورت کے تحت ہوا ہے۔ البتہ یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی حدود میں مداخلت کی یا نہیں۔
اس حوالے سے سابق سینیئر نائب صدر سپریم کورٹ بار اور سابق صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اکرام چوہدری ایڈووکیٹ جن کا شمار سینیئر ترین وکلا میں ہوتا ہے، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جسٹس منیر نے پاکستان میں جس نظریۂ ضرورت کا دروازہ کھولا تھا وہ آج تک بند نہیں ہوا۔
’1977 میں ضیاء الحق سے لے کر 2000 میں مشرف کے غیر قانونی اقدام کو آئین کی چھتری فراہم کرنے تک ہماری عدلیہ کے بعض سرکردہ جج نظریہ ضرورت کو قائم دائم رکھے ہوئے ہیں۔
’یہ بھی حقیقت ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی تحریک کے بعد عدلیہ نے ایک کروٹ لی اور بعد میں مشرف جیسے طاقتور آدمی پر بھی مقدمہ چلا اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ بھی لگا۔
’لیکن پھر آپ دیکھیں تو جنرل باجوہ کی توسیع کے موقع پر نظریہ ضرورت کی جھلک انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں فریقوں میں دیکھی گئی۔‘
البتہ انہوں نے وضاحت کی کہ ’سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی بھی صورت نظریہ ضرورت کے تحت ہوا ہے۔ البتہ یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی حدود میں مداخلت کی یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی چاہتی ہے کہ وہ آئین و قانون سے بالاتر ہو اور اس کے لیے وہ عدالتوں اور مقننہ سمیت ہر ادارے کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نظریہ ضرورت اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر کام نہیں کرے گا۔‘