مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے منگل کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج اپنی تاریخ کا حساب دیں۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ کا ’ہمیں حساب دیا جائے۔ ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا، یوسف رضا گیلانی کی برطرفی اور نواز شریف کی برطرفی کا، آئین معطل کرنے کا عدلیہ سے حساب لیا جائے۔ یہ اپنے پرکھوں کا حساب دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ان لوگوں کا احتساب ہو گا جنہوں نے جنرل مشرف کو آئینی ترمیم کرنے کا اختیار دیا؟ وہ ادارہ اپنا ماضی پاک کرنے کے لیے کیا کرے گا؟ ہم لوگ اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں۔
’ہم نے بھی آمروں کی حمایت کی ہے اور اس کی قیمت ادا کی ہے، انہوں نے نہیں ادا کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے بہت حساب دیے ہیں، ہمیں بھی حساب دیا جائے۔ ہمارے گریبان پر عوام کے ہاتھ ہوتے ہیں، وہ ہم سے حساب مانگتے ہیں۔‘
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ ’ہمارے سامنے والے ادارے نے ہم سے ایک تاریخ کی پروسیڈنگز مانگی ہیں۔ ایک نہیں سو دفعہ دیں، ہم عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں، ہماری کوئی کارروائی راز نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ’عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی، ایوان کی کارروائی ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے، میری تقریر لائیو نشر ہو رہی ہے، مگر عدالتی کارروائی نشر نہیں کی جاتی، ہمیں سپریم کورٹ کا احترام ہے، سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس دینے ہیں دے دیں، مگر سپیکر قومی اسمبلی بھی سپریم کورٹ سے عدالتی کارروائی کا ریکارڈ طلب کریں۔‘
’ضرور دیں۔ لیکن اسی سپریم کورٹ نے کہا کہ دو جج دست بردار ہو گئے ہیں۔ کیا ہمیں یہ کارروائی مل سکتی ہے کہ جن کا کہا گیا کہ پہلے وہ دست بردار ہو گئے ہیں دوبارہ پھر انہی کو بٹھا کر تین دو کا فیصلہ کروایا گیا۔‘
خواجہ آصف کا سپریم کورٹ کے بارے میں کہنا تھا کہ ’یہ ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ اسمبلیوں کا وقت پورا نہ ہو۔ کہتا ہے کہ فلاں تاریخ کو الیکشن کروا لیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سپریم کورٹ میں 15 آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں، ہمیں کہا گیا ہے مذاکرات کریں۔ ہم مذاکرات کر رہے ہیں، یہ تجاوز ہے۔ وہ پہلے خود مذاکرات کریں، اس کے بعد ہمیں ہدایات دیں۔ ہدایات دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ آئین میں یہ نہیں لکھا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم سہولت کاری کے آگے دیوار بن جائیں۔ وزیرِ اعظموں کی گردنیں لینے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔
وزیروں کے لیے ٹریفک بند نہیں ہوتی، ان کے لیے بند ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا استحقاق ہے۔ اگر جنگ لڑنی ہے تو جنگ لڑیں گے۔ پارلیمان ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ اپنے وزیرِ اعظم کو بلی نہیں چڑھائے گی۔
’ہماری تنخواہ ایک لاکھ 61 ہزار ہے، ذرا ان سے پوچھیں ان کی تنخواہ کیا ہے، پنشن بھی، تاحیات محافظ بھی، گاڑیاں بھی، پلاٹ بھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اپنی ماضی کی غلطیوں پر ہم سب سے معافی مانگتے ہیں انہیں بھی معافی مانگنے دیں۔‘
خواجہ آصف کے خطاب پر اپنے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ ’آج رات کو مذاکرات ختم ہو جائیں گے۔‘
انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں وہ جملہ کیسے کہوں جو عدلیہ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ یہ جنگ شروع ہے اس جنگ نے اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔ عدلیہ جیتے گی، آئین جیتے گا۔‘