سات مارچ 2014 کو رات گئے 227 مسافروں اور عملے کے ایک درجن ارکان نے کوالالمپور ہوائی اڈے پر کھڑے ملائیشین ایئر لائنز کے بوئنگ 777 میں سوار ہونے کی تیاری کی۔ وہ ایم ایچ 370 نامی معمول کی پرواز پر بیجنگ پہنچنے کی توقع کر رہے تھے۔
یہ فلائٹ نمبر ہوا بازی کی تاریخ کے سب سے گہرے راز کے لیے شارٹ ہینڈ بن گیا ہے اور متاثرین کے رشتہ دار 10 سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے پیاروں کے بارے میں نہیں جان پائے ہیں۔
طیارے نے آٹھ مارچ کی صبح 12 بج کر 42 منٹ پر معمول کے مطابق اڑان بھری اور رات ایک بج کر 19 منٹ پر کپتان نے ملائیشیا کے ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی جانب سے ویتنام کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی ہدایت ملنے کی تصدیق یہ کہتے ہوئے کی: ’شب بخیر، ملائیشین تھری سیون زیرہ۔‘ یہ آخری الفاظ تھے جو طیارے سے سنے گئے۔
ایک منٹ بعد کوالالمپور میں کنٹرولرز نے طیارے کو ملائیشین ساحل سے ویتنام جانے والے راستے کے تقریباً ایک تہائی فاصلے پر ’ایگری‘ سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ چند سیکنڈز کے اندر ہی ایم ایچ 370 ریڈار سکرین سے غائب ہو گیا۔
بوئنگ 777 سے سیٹلائٹس کو تکنیکی ڈیٹا (جسے ’پنگز‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے) کی ترسیل آخری زبانی پیغام کے سات گھنٹے اور طیارے کے بیجنگ میں اترنے کے وقت کے تقریباً دو گھنٹے بعد وقفے وقفے سے صبح 8.19 بجے تک جاری رہی۔
بعد والے ہفتوں کے دوران ریڈار ٹریکنگ کے جان توڑ تجزیے اور ایک کے بعد ایک نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ جنوب مشرقی ایشیا کے جزیرہ نما علاقے کے اوپر مغرب کی جانب پرواز کرنے کے لیے اپنا راستہ تبدیل کر چکا تھا اور پھر بحر ہند کے اوپر جنوب کی طرف مڑ گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب کوئی مسافر طیارہ سمندر کے اوپر سے غائب ہوجاتا ہے تو اس جہاز کو تلاش کرنے کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہے: ممکنہ راستے کا حساب لگانا، پانی کی سطح پر ملبہ تلاش کرنا اور ایک چھوٹے سے متعین علاقے میں سمندر کی تہہ میں اسے تلاش کرنا۔
2009 میں ایئر فرانس کی پرواز اے ایف 447 کا ملبہ بحر اوقیانوس میں اسی طرح ملا تھا۔
نام نہاد ’بلیک باکسز‘ نے پائلٹ کی غلطیوں کے المناک سلسلے کا انکشاف کیا جس کی وجہ سے بحر اوقیانوس کے اوپر ریو ڈی جنیرو تا پیرس پرواز میں 228 افراد مارے گئے تھے۔
ایک ناتجربہ کار پائلٹ کے رد عمل نے غیر ضروری طور پر صورت حال کو مزید خراب کر دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ ابتدائی تکنیکی مسائل اتنے شدید نہیں تھے کہ اپنے طور پر کسی بڑے حادثے یا تباہی کا باعث بن سکتے۔
ایم ایچ 370 کا فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر سمیت فلائٹ ڈیک پر موجود افراد کے بارے میں معلومات بھی طیارے کے متعلق قیمتی شواہد فراہم کر سکتی ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ متاثرین کے اہل خانہ اور عزیزوں کو ان کے سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں۔
پھر بھی طیارے کی تلاش نے پوری ٹرانسپورٹ سیفٹی کمیونٹی کو شکست دے دی ہے۔ لامحالہ یہ خلا قیاس آرائیوں سے بھر گیا ہے۔ بہت سے نظریات کو آسانی سے مسترد کیا جا چکا ہے، جن میں سے کچھ یہ تھے کہ شمالی کوریا کے میزائل نے ایم ایچ 370 کو نہیں مار گرایا اور نہ ہی طیارہ قازقستان کے ہینگر میں چھپا ہوا ہے۔
لیکن یہ امکانات کا ایک سمندر چھوڑ گیا ہے۔
جب بوئنگ طیارے نے کوالالمپور سے اڑان بھری تو کیا اس میں 239 سے زائد افراد سوار تھے؟ ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا، ممکنہ طور پر جان بوجھ کر: کیا کسی نے جان بوجھ کر طیارے کا رخ موڑا اور 777 کو سمندر میں گرایا؟ یا یہ صرف راستے سے بھٹک گیا اور ایندھن ختم ہو گیا؟
گمشدہ طیارے کا پتہ لگانے سے معمہ حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن 10 سال بعد اور بحر ہند کے ایک حصے کی تہہ میں دو بار تلاش کے بعد، ثبوت کے طور پر تھوڑا سا ملبہ ملا ہے جو ساحلوں پر بکھرا ہوا ملا ہے۔
حادثے کے 19 تفتیش کاروں نے اس بارے میں سرکاری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا: ’ٹیم ایم ایچ 370 کی گمشدگی کی اصل وجہ کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔‘
یہ اہم سوالات ہیں اور بہت سے جوابات ابھی تک معلوم نہیں۔
واقعات کا تسلسل کیا تھا؟
ملائیشین ایئر لائنز کا طیارہ کوالالمپور سے معمول کی پرواز پر بیجنگ کے لیے روانہ ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاز میں 239 افراد سوار تھے تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کم از کم ایک اور شخص بھی ہو سکتا ہے جو فلور کے نیچے چھپا ہوا تھا۔
رات ایک بج کر 19 منٹ پر کپتان نے ملائیشین ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی جانب سے دی گئی ہدایات ملنے کی تصدیق کی جس میں کہا گیا تھا: ’گڈ نائٹ ملائیشین تھری سیون زیرو‘۔ یہ ایم ایچ 370 سے ریکارڈ کی جانے والی آخری ریڈیو ٹرانسمیشن تھی۔
سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کپتان نے دی گئی فریکوئنسی کی تصدیق نہیں کی، جو ریڈیو ٹیلی فونی کے طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔‘
ملائیشین سے ویتنامی ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے حوالے کیے جانے کے دوران طیارہ غائب ہوتا دکھائی دیا۔
دنیا کو کسی قسم کی خرابی کا پتہ اس وقت چلا جب ویتنام میں ایئر ٹریفک کنٹرولر بوئنگ 777 سے رابطہ نہ کر سکے۔
کافی الجھنوں اور ان فرضی رپورٹوں کے بعد کہ طیارے کا رخ کمبوڈیا کی طرف موڑ دیا گیا تھا یا وہ تکنیکی مسائل کے ساتھ جنوبی چین میں اترا تھا، ایم ایچ 370 کو لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طیارہ بحیرہ جنوبی چین میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
ایک ہفتے تک امدادی کارکنوں نے ملائیشیا اور ویتنام کے درمیان پانیوں میں جہاز کا ملبہ تلاش کیا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بعد کوالالمپور میں ایک ڈرامائی پریس کانفرنس میں ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے اعلان کیا کہ طیارہ لاپتہ ہونے کے بعد کئی گھنٹوں تک پرواز کرتا رہا۔
ہمیں کیا پتہ چلا کہ طیارہ کہاں ہو سکتا ہے؟
ریڈار اور سیٹلائٹ ہسٹری کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اچانک راستہ تبدیل کیا، جزیرہ نما ملائیشیا میں پرواز کی، پینانگ کے جنوب سے شمال مغرب اور پھر جنوبی بحر ہند کی طرف مڑ گیا۔
آخر کار طیارے کا ایندھن ختم ہو گیا اور وہ اپنی مطلوبہ منزل سے ہزاروں میل دور آسٹریلیا کے مغرب میں بحر ہند میں گر کر تباہ ہو گیا۔
اندازہ لگایا گیا کہ یہ طیارہ آسٹریلیا کے مغربی ساحل کے قریب نام نہاد ’سیونتھ آرک‘ کے قریب تھا۔
پرتھ کے شمال میں واقع آسٹریلوی فضائیہ کے ایک اڈے سے، متوقع حادثے کے علاقے سے جاسوسی پروازوں کا آغاز ہوا۔ سمندر کی تہہ میں دو غیر معمولی اور بالآخر ناکام تلاش کے منصوبے بنائے گئے تھے۔
آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو کے تعاون سے تاریخ کی سب سے بڑی زیر آب تلاش دو سال بعد جنوری 2017 میں روک دی گئی تھی۔
اس کے بعد ایک امریکی فرم اوشیئن انفینیٹی نے 2018 میں کئی ماہ سمندر کے ایک مختلف حصے کی تلاش میں گزارے۔
طیارے کے کچھ ٹکڑے بحر ہند کے ساحلوں پر آنے لگے، لیکن طیارے کے ’فلیپرون‘ پر اُگ آنے والے بارناکلز کی انواع کے تجزیے کے بعد بھی تفتیش کار ملبے کا پتہ لگانے کے قریب نہیں تھے۔
کیا پائلٹ ذمہ دار تھا؟
تفتیش کاروں نے طیارے کی گمشدگی کی وضاحت کرنے کے لیے بہت سی وضاحتوں کا جائزہ لیا ہے۔ ان سب میں بڑی خامیاں ہیں۔
شاید کم سے کم امکان اس بات کا ہے کہ طیارے کے کمانڈر کیپٹن زہری شاہ نے جان بوجھ کر اپنے ہی طیارے کو ہائی جیک کیا تاکہ یا تو اپنی جان لے سکیں اور اس میں سوار تمام افراد کو مار دیں یا جہاز کو اتار کر چھوڑ جائے اور خود زندہ بچ جائیں۔
ایک عام نظریہ یہ ہے کہ کپتان زہری شاہ نے فرسٹ آفیسر کو فلائٹ ڈیک سے باہر لاک کر دیا۔ انہوں نے مواصلاتی نظام کو بند کردیا جو ایم ایچ 370 کو ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے ساتھ رابطے میں رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ انہوں نے آکسیجن ماسک پہنا ہوا تھا اور طیارے کو ڈی پریشر کیا۔
ماؤنٹ ایورسٹ سے زیادہ اونچائی پر مسافر اور عملے کے دیگر افراد جلد ہی آکسیجن کی کمی (ہائپوکسیا) کی وجہ سے مر جاتے۔
اس کے بعد کپتان نے تھائی لینڈ اور ملائشیا کے درمیان سرحد کے ساتھ طیارے کو اڑایا تاکہ دونوں طرف فوج کی تشویش کو بڑھانے سے بچا جا سکے، اس سے پہلے کہ وہ جنوب میں کسی ایسی جگہ کا رخ کرے جہاں انہیں یقین تھا کہ یہ کبھی نہیں ملے گا۔
لیکن سرکاری رپورٹ میں کہا گیا: ’بے حسی، اضطراب یا چڑچڑے پن کی کوئی معلوم ہسٹری نہیں تھی۔ ان کے طرزِ زندگی، باہمی تنازعات یا خاندانی تناؤ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔‘
فرسٹ آفیسر 27 سالہ فارق عبدالحمید تھے۔ وہ تربیتی کپتان کے بغیر اپنے پہلے بوئنگ 777 مشن پر تھے اور اس سے پہلے انہوں نے صرف پانچ بار یہ طیارہ اڑایا تھا۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی ’کام کرنے کی صلاحیت اور پیشہ ورانہ نقطہ نظر اچھا بتایا گیا۔‘
اس کے علاوہ یہ امکان نہیں ہے کہ طیارے کا اتنا محدود تجربہ رکھنے والا کوئی شخص اس طرح کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوگا۔
اگرچہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کش پائلٹوں کی جانب سے متعدد حادثات پیش آئے ہیں - خاص طور پر بارسلونا سے ڈسلڈورف جانے والی جرمن ونگز کی پرواز 9525 کی المناک تباہی، جس میں فرسٹ آفیسر نے خود کو اور 150 دیگر افراد کو مار دیا تھا- اس کے بعد کے حادثے میں اتنی تاخیر کبھی نہیں ہوئی۔
اس کے علاوہ تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا: ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پی آئی سی (پائلٹ ان کمانڈ یعنی کپتان) اور ایف او (فرسٹ آفیسر) کو ذاتی تعلقات میں حالیہ تبدیلیوں یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا ان کے درمیان کوئی تنازع یا مسائل تھے۔
’عملے پر کوئی مالی دباؤ یا مستقبل کے دیوالیہ پن، حالیہ یا اضافی انشورنس کوریج یا حالیہ طرز عمل میں تبدیلیاں نہیں ہوئیں۔‘
تفتیش کاروں نے دونوں پائلٹوں کی ریڈیو گفتگو کا بھی تجزیہ کیا اور کہا کہ انہیں ’اضطراب یا تناؤ کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘
ماہرین کے خیال میں ایم ایچ 370 کی گمشدگی کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو کی جانب سے سمندر کی تہہ کی دو سالہ تلاش کی قیادت کرنے والے مارٹن ڈولان کا کہنا ہے کہ اس کام کی منصوبہ بندی انتہائی احتیاط سے کی گئی تھی: ’یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک کیا گیا تھا۔‘
ایوی ایشن سکیورٹی گرو فلپ بام اس بات سے اتفاق کرتے ہیں: ’زیادہ تر ایجنسیوں کو یقین ہے کہ ایم ایچ 370 کا نقصان ایک مجرمانہ کارروائی کا نتیجہ تھا اور یہ کہ طیارے کو جان بوجھ کر اور دستی طور پر اس کی مطلوبہ پرواز کے منصوبے سے موڑنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
’پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کس نے کیا اور وہ اس وقت کہاں تھے؟‘
ان کا خیال کیا ہے؟
’مجھے اب بھی یقین ہے کہ پائلٹ کی مدد سے ہونے والی خودکشی اس نقصان کی سب سے زیادہ ممکنہ وجہ ہے کیونکہ اس سے تبدیلی کے تقریباً ہر پہلو کی وضاحت ہو سکتی ہے اور یہاں تک کہ کسی بھی متبادل منظر نامے کے لیے ثبوت بھی کم ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’دیگر تمام منظرناموں میں کم از کم ایک دوسرا شخص جاننے والا ہو گا، سوائے کسی چھپے ہوئے شخص کے جو مکمل طور پر آزادانہ طور پر کام کر سکتا تھا اور اسی وجہ سے، مجھے اب بھی لگتا ہے کہ چھپے ہوئے شخص والے منظر نامے کا ایک مضبوط امکان ہے۔‘
یہ نظریہ یہ ہے کہ فلائٹ ڈیک میں چھپے ہوئے ایک شخص نے کنٹرول سنبھال لیا، یا تو خود کش مشن میں یا کسی دور دراز جزیرے پر اترنے کے ارادے سے۔
کیا کوئی مسافر یا عملے کا رکن ذمہ دار ہوسکتا ہے؟
جہاز میں مسافروں کی بڑی تعداد سمیت عملے کے 10 افراد کو دیکھتے ہوئے بہت سارے ممکنہ محرکات ہو سکتے ہیں۔
کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہوا بازی کے حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ جیسا کہ نائن الیون کے المناک واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیک پوائنٹ سے گزرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسافر سے طیارے اور اس میں سوار افراد کو کوئی خطرہ نہیں۔
طیارے میں مجموعی طور پر 227 مسافر (جن میں تین بچے اور دو شیر خوار بچے بھی شامل تھے) سوار تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چین سے تھا، اس کے بعد ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔
دو ایرانی مسافر بالترتیب ایک اطالوی اور ایک آسٹریا سے چوری کیے گئے پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن تھے جو کسی بدنیتی پر مبنی ارادے کے بجائے مغرب تک پہنچنے کے خواہاں تھے۔
عملے کے تمام 10 ارکان شادی شدہ تھے اور ان کے بچے تھے، کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے طیارے کو ہائی جیک کرنے کا امکان نہیں تھا۔
کیا ہم کبھی سچ جان پائیں گے؟
ایوی ایشن سکیورٹی کے ماہر فلپ بام کہتے ہیں: ’مجھے کچھ حد تک یقین ہے کہ ملبہ مل جائے گا اور آخر کار اس کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔ یہ یقین نہیں کہ یہ میری زندگی میں ہو گا یا نہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent