شام نے پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے سابق ایئر کموڈور عبدالستارعلوی کو 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں خدمات انجام دینے پر تمغہ بہادری سے نوازا ہے۔
1967 میں تیسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران کھوئے ہوئے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے اکتوبر 1973 میں عرب ریاستوں کے ایک اتحاد نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تھا۔
1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر کے جزیرہ نما سینا، شام کی گولان کی پہاڑیوں کے تقریبا آدھے حصے اور مغربی کنارے کے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو 1948 سے اردن کے زیر انتظام تھے۔
1973 کی جنگ عرب اسرائیل تنازع کا حصہ تھی۔ ریاست اسرائیل کے قیام (1948) کے بعد سے اس تنازعے میں کئی جھڑپیں اور جنگیں ہو چکی ہیں۔
26 اپریل، 1973 کو عبدالستارعلوی نے، جو اس وقت ایک نوجوان فلائٹ لیفٹیننٹ تھے، جاری لڑائی کے دوران شامی فضائیہ کا مگ 21 لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی میراج طیارہ مار گرایا تھا۔
عبدالستار علوی نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان سے گفتگو میں بتایا کہ 1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو وہ رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے جنگ میں حصہ لینے گئے تھے اور انہیں حکومت پاکستان یا پاکستان فضائیہ نے نہیں بھیجا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ادارے سے اجازت لے کر ذاتی چھٹی پر وہاں گئے۔ ان سے جب سوال کیا کہ اسرائیلی طیارہ گرانے کے بعد جب پاکستان واپس آئے تو یہاں کیا تاثرات تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ’واپس آنے کے 25 سال تک تو خاموشی رہی کسی کو پتہ نہیں چلا کیونکہ یہ ایک ملکی راز تھا۔ 25 برسوں کے بعد معاملہ کھلا تو سب کو پتہ چلا۔‘
پاک فضائیہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’فلائٹ لیفٹیننٹ ستار علوی کی 32 ویں فضائی لڑائی میں شام کی فضائی حدود کا دفاع کرنے میں پاکستانی پائلٹوں کی بہادری اور مہارت نظر آئی۔‘
’اس واقعے نے فضائی لڑائی میں فوری ردعمل، سٹریٹجک سوچ اور طیاروں کی مہارت کی اہمیت کو اجاگر کیا جبکہ فضائی جنگ کے نتائج نے ایک برادر ملک کی خودمختاری کے تحفظ اور اس شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے میں پاکستانی پائلٹوں کی جرات اور عزم کا مظاہرہ کیا۔‘
پی اے ایف کے مطابق ’شامی عرب فضائیہ اور شامی حکومت کی جانب سے شام کے سفیر ڈاکٹر رمیز الرائے نے ستارعلوی کو تمغہ بہادری اور یادگاری سرٹیفکیٹ سے نوازا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حکومت شام کی جانب سے یہ اعتراف پوری پاکستانی قوم کے لیے فخر کا لمحہ اور آنے والی نسلوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔‘