پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی عدم موجودگی تنازع نہیں بلکہ اس کا تعلق سیاسی انتظام سے ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’آئین کے مطابق سی سی آئی کی تشکیل وزیراعظم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، اور وزیراعظم کے نامزد کردہ وفاقی حکومت کے تین ارکان شامل ہیں۔‘
چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کی۔ مشترکہ مفادات کونسل صوبوں کے مشترکہ مفادات کا فورم ہے جہاں عمومی طور پر مالیاتی اور آئینی معاملات دیکھے جاتے ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل سکریٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اس آٹھ رکنی کونسل کے چیئرمین ہوں گے جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی بطور ارکان اس کونسل میں شامل ہیں۔
21 مارچ کو وجود میں آنے والی کونسل میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر سیفران انجینیئر امیر مقام رکن کے طور پر شامل ہیں۔ جبکہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو بھی بطور رکن مشترکہ مفادات کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اس کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اس کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے وزیر خزانہ کی مشترکہ مفادات کونسل میں وزیر خزانہ کی غیر موجودگی کو ’سیاسی انتظام‘ سے جوڑا ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ’وزیر خزانہ ایک بااختیار شخص ہیں جنہیں وزیراعظم کا اعتماد اور بھروسہ حاصل ہے۔
’میڈیا کے کچھ طبقے یہ منفی تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے جو بالکل درست نہیں ہے۔ وہ اپنے فیصلے لینے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں اور وزیراعظم بھی ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘
وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق ’مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس بہت سے دوسرے معاملات ہیں جن پر کام کرنا ہے۔ اگر سی سی آئی تشکیل دی گئی ہے اور وزرا کو رکن بنایا گیا ہے تو یہ کسی بھی طرح سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ وزیر خزانہ معیشت سے نمٹنے کے اہل ہیں۔ میرے خیال سے اس عمل کو غلط سمجھا جا رہا ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا وزیر خزانہ کا مشترکہ مفادات کونسل کا حصہ نہ ہونا جبکہ وزیر خارجہ کا رکن ہونا غیر معمولی بات نہیں؟
اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’اس معاملے کا تعلق سیاسی انتظام سے زیادہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا یہ کوئی تنازع ہے۔‘
عطا تارڑ نے کہا ’یہ تاثر ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور اسحاق ڈار کے درمیان کوئی جھگڑا ہے، بالکل غلط ہے۔
’آئین پاکستان کے آرٹیکل 153 دو کے مطابق وزیراعظم مشترکہ مفادات کونسل میں وفاقی حکومت سے تین ارکان نامزد کر سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب مبصرین وزیراعظم کے اس عمل پر شدید تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مالیاتی امور پر نظر رکھنے والے صحافی فرحان بخاری نے وزیر خزانہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں شامل نہ کرنے کے اقدام کو متنازع قرار دیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نو منتخب حکومت کا انداز الگ تھلگ ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی شروعات ہی متنازع فیصلوں سے ہوئی جس میں مشترکہ مفادات کونسل میں وزیر خزانہ کو شامل نہ کیے جانے سے متعلق فیصلہ بھی شامل ہے۔‘
’وزیرخارجہ کو معاشی معاملات میں شامل کرنا درست نہیں‘
فرحان بخاری نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وزیر خزانہ اس کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کرتے رہے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے تمام افعال کا تعلق بالآخر وزارت خزانہ سے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عجیب سی صورت حال ہے، اسحاق ڈار کا نواز شریف کا سمدھی ہونا ہی ان کی قابلیت ہے۔ انہیں معاشی معاملات میں شامل کرنا درست نہیں۔
’اگر انہیں وزیر خارجہ بنایا گیا ہے تو وہ وہی وزارت سنبھالیں۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ وہ اس وزارت کے بھی اہل تھے یا نہیں۔‘
فرحان بخاری کے مطابق ’ایسے وقت میں جب پاکستان کے حالات اتنے خراب ہیں، اس حکومت کے پاس غلطیاں کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں مگر یہ آئے روز نئے تنازعات میں پڑ رہے ہیں۔ یہی لگتا ہے کہ انہیں حالات کی نزاکت کا اندازہ نہیں۔‘
’وزیر خزانہ کا مشترکہ مفادات کونسل کا رکن نہ ہونا حیرانی کا باعث‘
دوسری جانب معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا نے وزیر خارجہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں شامل کیے جانے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وزیر خزانہ کو مشترکہ مفادات کونسل کا رکن نہ دیکھنا حیران کن ہے۔ یہ عمل کونسل کی فعالیت کو کمزور کرے گا۔ بلکہ یہ آئینی ادارے کی طرف سے ناقص فیصلہ سازی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بظاہر وزیر خزانہ کا مشترکہ مفادات کونسل سے نکالا جانا مسلم لیگ ن کے اندر پیدا ہونے والے جھگڑوں کا نتیجہ لگتا ہے جس نے تشکیل کے ایک ماہ کے اندر نئی حکومت پر منفی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔