70 کی دہائی میں انڈین پنجاب کے میوزیکل شوز یعنی ’اکھاڑوں‘ میں یملا جٹ، محمد صادق اور کلدیپ مانک چھائے ہوئے تھے۔ نئی آوازوں میں سریندر شندا تیزی سے مقبول ہو رہے تھے۔
یہ اکھاڑے عموماً شادی بیاہ پر سجتے، تنبو اور قناتیں لگا کر اکثر نیچے دریاں بچھا لی جاتیں۔ سٹیج پر گلوکار مائیک سنبھالتا، تمبی، ڈھولک اور ہارمونیم، یہ تھا آرکسٹرا۔ بعض اوقات ایک کے بجائے دو گلوکار جوڑی کی صورت میں سٹیج پر جادو جگاتے۔
پنجاب کے اکھاڑوں میں کیسے کیسے نامور پہلوان اترے۔ فوک انداز کی دھنیں گانے والے دھرتی کے بیٹے آج بھی پنجاب میں بہت مقبول ہیں، ان کا ورثہ ایک روایت کی شکل میں جاری ہے۔
یملا، صادق، مانک، شندا اور گرداس مان نے بےپناہ مقبولیت سمیٹی۔ مگر امر سنگھ چمکیلا شہرت میں ان سب سے آگے نکل گیا۔ وہ پنجاب کی لوک داستانوں کا حصہ ہے۔ یہ کسی بھی فنکار کی غیر معمولی کامیابی ہے۔
گائیکی کا انداز، گانوں کے بولڈ بول یا جوانی میں قتل؟ وہ کیا چیز تھی جس نے چمیکلا کو دیومالائی کردار بنا دیا؟ اور کیا امتیاز علی کی فلم باغی روح سے انصاف کر پائی ہے؟
فیکٹری مزدور دلت اور شہرت کے ابتدائی سال
1979 سریندر شندا کی شہرت کا نقطہ آغاز تھا۔ انہوں نے جالندھر اڈے پہ اپنا دفتر بنا رکھا تھا۔ ایک طویل عرصے تک سائیکل ہماری زندگیوں کا حصہ رہا۔
مزدور صبح گھروں سے نکلتے تو اس کے ہینڈل پر ایک پوٹلی لٹکی ہوتی جس میں دوپہر کا کھانا ہوتا۔ اسی انداز میں دھنی رام گھر سے نکلا اور فیکٹری کے بجائے شندا کے دفتر جا پہنچا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شندا بہت اچھا گلوکار تھا مگر اسے تمبی پر دسترس نہیں تھی۔ اونچی آواز کا یہ ایک تار والا آلہ پرانے زمانے میں سٹیج پرفارمینس کی جان تھا جسے پنجاب میں یملا جٹ نے مقبول بنایا۔ اس نے دھنی رام کو اپنے ساتھ رکھ لیا جو ’چمکیلا‘ کے نام سے معروف ہوا۔
آپ چمیکلا کے اکھاڑے دیکھیں تو وہ تمبی بجاتے ہوئے بازو کھول لیتا ہے جبکہ دوسرے گلوکار ایسا نہیں کرتے۔ دراصل گلوکار بننے سے پہلے وہ ساتھ کھڑا ہو کر تمبی بجاتا اور شندا گایا کرتا تھا، یہیں سے بازو لمبے کر کے بجانا اس کی عادت بن گئی۔
شندا اور سریندر سونیا کی جوڑی مقبول تھی۔ شندا کینیڈا کے ٹور پر سونیا کے بجائے خوبصورت گلشن کومل کو لے گئے۔ پیچھے سونیا اور چمیکلا کا البم ریکارڈ ہوا جس نے آگ لگا دی۔
چمیکلا کی گائیکی کا انداز روایت کا تسلسل تھا مگر گیتوں کے بول انتہائی بولڈ تھے۔ نوجوان ہمیشہ ایسی چیزوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ پنجابی سنگیت نئی کروٹ لے رہا تھا۔
امرجوت کور کے ساتھ جوڑی، شہرت، تنقید اور قتل
سونیا سینیئر فنکارہ تھی جبکہ چمیکلا کا خیال تھا کہ گیت اس کی وجہ سے ہٹ ہو رہے ہیں۔ معاوضے پر اختلاف سے جوڑی ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد چمیکلا اور امرجوت کی جوڑی بنی جس نے کسی وبا کی طرح پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشہور ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس دن ان کی بکنگ نہ ہو۔
یہ 80 کی دہائی کا زمانہ ہے جب پنجاب میں سکھوں کی خالصہ تحریک عروج پر تھی۔ اسے شدت پسند مذہبی عناصر کنٹرول کر رہے تھے۔ چمکیلا کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ اس دوران اس نے مذہبی گیت بھی ریکارڈ کروائے۔ اسے دھمکیاں دی گئیں مگر باغی روح کو کسی خاص ڈھانچے میں قید کرنا ممکن نہ تھا۔
چمکیلا اور ان کی اہلیہ امرجوت کور کو آٹھ مارچ 1988 کو ضلع جالندھر کے گاؤں مہسام پور میں قتل کر دیا گیا۔ ان کی عمر محض 27 برس تھی جبکہ بطور گلوکار اکھاڑے میں قدم رکھے دس سال بھی نہ ہوئے تھے۔
آٹھ آڈیو کیسٹیں چمیکلا کی کل کائنات ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔
چمکیلا کی کیسٹیں چھپا کر فروخت کی جاتیں
آپ نے وی سی آر کے زمانے میں سنا ہو گا کہ بعض فلمیں چھپا کر بیچی جاتی تھیں یا کتب فروشوں کے ہاں بعض کتابیں خفیہ طریقے سے اور زیادہ قیمت پر ملتی تھیں۔ مگر ایک فنکار ایسا بھی تھا جس کی آڈیو کیسٹ چھپا کر بیچی جاتی تھی۔
پروفیسر شمشیر سندھو چمکیلا کے دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ہم ایئرپورٹ پر گھوم رہے تھے، ٹائم پاس کرنے کے لیے ایک کیسٹ شاپ میں جا گھسے۔ ریکارڈ دیکھتے رہے، تھوڑی دیر بعد دکاندار نے پوچھ لیا کہ بھئی کیا چاہیے؟
ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ اس کے پاس چمیکلا کی کیسٹیں نہیں ہیں۔ جیسے ہی ہم نے نام لیا اس نے خفیہ دراز کھول کر ریکارڈ سامنے رکھ دیے اور زیادہ قیمت طلب کی۔
کس چیز نے چمکیلا کو لوک داستانوں کا حصہ بنایا
کلدیپ مانک پنجاب کے لیجنڈری گلوکار ہیں جنہیں بے پناہ عزت حاصل ہے۔ اگر آپ ان کے اکھاڑے سنیں تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ میں ایسے گیت گاتا ہوں جو ماں بہن کے ساتھ بیٹھ کر سنے جا سکتے ہوں۔ یہ دراصل چمکیلا کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ کیسا واہیات تھا۔
انڈین پنجاب کے فوک انداز میں گانے والے تقریباً تمام فنکاروں کا سٹائل ایک ہے، آلات موسیقی بھی ایک جیسے استعمال ہوتے ہیں۔ جو چیز چمکیلا کو باقی سب سے منفرد کرتی ہے وہ ہے بولڈ لیرکس۔
وہ قریبی رشتوں میں جنسی کشش اور خفیہ تعلقات کی نازک صورت حال کو چٹے پٹے انداز میں بیان کرتا ہے۔ اس کے ہاں بے پناہ تخلیقی وفور ہے۔
’اکوں تھالی وچ بیگانے پت پا کے توں وارو واری چکھ دی رہی‘ اور ’آٹے وانگوں گھندی پیگانے پت نے‘ یا ’کی ہو گیا چنا کی ہو گیا، تیری ماں دی تلاشی لینی باپو ساڈا گم ہو گیا‘ اور ’گھر سالی دے پھردا جیجا‘ جیسے کرارے گیت۔
بولڈ لیرکس کے علاؤہ چمکیلا کے پراسرار قتل نے انہیں دیومائی کردار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک طرف ان کی باغیانہ شخصیت اپنی طرف کھینچتی ہے تو دوسری طرف قتل ہمدردی کی لہر پیدا کرتا ہے۔
امتیاز علی کی چمکیلا
چمکیلا پر مختلف ناموں سے اب تک تین چار فلمیں اور ویب سیریز بن چکے مگر سب سے زیادہ ذکر امتیاز علی کی فلم کا رہا۔ یہ چمیکلا پر بننے والی بہترین مگر بحثیت مجموعی ایک اوسط درجے کی فلم ہے۔
ہالی وڈ کے ٹیرنٹینو کی اب تک آنے والی آخری فلم ’ونس اپان اے ٹائم ان ہالی وڈ‘ قتل کے ایک واقعے پر مبنی ہے۔ فلم کے پہلے سین میں قاتل واردات کے لیے جا رہے ہیں۔
پوری فلم قتل سے پہلے دن بھر کی روٹین پر مبنی ہے۔ اس فلم کی کہانی میں جان نہیں تھی لیکن سکرین پلے ایسا شاندار کہ اڑھائی گھنٹے آپ مبہوت ہو کر بیٹھے رہتے ہیں۔
امتیاز علی کی چمکیلا بھی قتل کی ایک واردات سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن مجال ہے ذرا بھی تجسس یا تھرل پیدا ہو۔ اس کے بعد پوری فلم لوگوں کی زبانی فلیش بیک میں چلتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ تھرڈ کلاس ڈاکومینٹری دیکھ رہے ہوں۔
آپ کرداروں کے ساتھ جذباتی طور پر جڑتے نہیں۔ کوئی مرکزی خیال ایسا نہیں جو مختلف واقعات کو جوڑ کر کسی جذباتی انتہا پر لا سکے۔
البتہ اے آر رحمنٰ کی موسیقی شاندار، اور خاص طور پر مرکزی کردار دلجیت دوسانجھ کی اداکاری جاندار ہے۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔