پاکستانی تھیٹر، ڈرامہ اور فلم اداکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور مصنف سہیل احمد کو کون نہیں جانتا؟ کامیڈی کے بے تاج بادشاہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تھیٹر چھوڑ چکے ہیں، لیکن ان کی سٹیج پرفارمنسز کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں محسوس یہ ہوا کہ سہیل احمد نے دلبرداشتہ ہو کر تھیٹر کو خیرباد کہا۔
تھیٹر چھوڑنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا: ’جب میں نے تھیٹر چھوڑا اس وقت میں سب سے زیادہ پیسے لیتا تھا، لیکن میں نے چھوڑ دیا اس لیے کہ مجھے لگا جیسے میرے ملک کی عزت خراب ہو رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’کسی کو بتا ہی نہیں سکا کہ جو ڈرامے ہم کر رہے ہیں ان کے بارے میں لوگ اب کیا کہنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان ڈراموں میں جس قسم کے فن کا ہم مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
سہیل احمد کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو الزام دیے بغیر 10 سال چیختے رہے، اپنی طرف اشارہ کر کے کہتے رہے کہ ہم خراب ہو گئے ہیں، ہم نے تھیٹر برباد کر دیا ہے، لیکن کسی نے نہیں سنا۔
’یہاں تک کہ حکمرانوں کو بتایا لیکن بدقسمتی کہ 75 سال ہو گئے پاکستان کو بنے ہوئے آج تک کوئی خبر نہیں آئی کہ پارلیمنٹ یا کسی اسمبلی میں کلچر پر کوئی گفتگو ہوئی ہو۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی سطح پر بھی ثقافت کا دم چھلہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ ان کے لیے بھاڑ میں جائے ثقافت وہ سمجھتے ہیں کہ عزت و وقار صرف ان کا جنہوں نے انہیں وزیر اطلاعات و نشریات و ثقافت لگا دیا ہے۔‘
سہیل احمد نے مزید کہا: ’اب تو پاکستان کے کلچر کی تعریف ہی نہیں کر سکتے کہ ہمارا کلچر ہے کیا؟ میرے خیال میں تو جو اس ملک کی مرکزی طاقت ہوتی ہے یا حکمران اس کی طبعیت اور چاہت کا نام پاکستانی کلچر ہے۔‘
سہیل احمد نے 80 کی دہائی میں گوجرانوالہ کے تھیٹر سے کام شروع کیا، اور ان کے معروف ڈراموں میں شرطیہ مٹھے، فیقہ ان امریکہ، ڈبل سواری، کالی چادر، ٹوپی ڈرامہ، روٹی کھول دیو اور بڑا مزا آئے گا سمیت کئی دوسرے شاہکار شامل ہیں۔
سہیل احمد نے تھیٹر کے علاوہ ٹی وی سکرین پر بھی الو برائے فروخت، غریب شہر، فشار، شب دیگ، چوہدری اینڈ سنز، اور سسر ان لا سمیت درجنوں ڈراموں میں مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کے کردار نبھائے۔
انہوں نے فلموں میں بھی کام کیا اور ان کی انڈین اداکاروں کے ساتھ مل کر بنی پنجابی فلم ’بابے بھنگڑا پاؤندے نے‘ حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے۔
انہوں نے پنجاب نہیں جاؤں گی، جوانی پھر نہیں آنی، دم مستم، لندن نہیں جاؤں گی اور گھبرانہ نہیں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
سہیل احمد کو 2011 میں حکومت پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھیٹر ختم ہونے کے بعد سہیل احمد نے ٹی شوز میں نہ صرف خود کام شروع کیا بلکہ اپنے ان ساتھیوں کو بھی کام دلوایا جو تھیٹر کا کام چھوڑ کر روزی روٹی کی تلاش میں تھے۔
ہم نے سہیل احمد سے پوچھا کہ آخر پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی کیا وجہ بنی؟
اس سوال کے جواب میں سہیل احمد نے بتایا: ’ایک سیاہ دور گزرا ہے، کسی حکومت نے نہیں دیکھا، نہ کسی حکمران نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ ببو خان ہیرو بنا دیا، کالوشاہ پوریہ، ماجو ، ہمایوں گجر کو ہیرو بنا دیا، پولا سنیارا یہاں کا ہیرو ہے۔‘
سہیل احمد نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’ہم جو یہ گانے گا رہے ہیں یہ کون سی شاعری ہے؟ جسے سن کر شرم آتی ہے بہن، بیٹی اور باپ کے ساتھ بیٹھ کر سنتے ہوئے۔‘
ہم نے سہیل احمد سے پوچھا کہ انہیں کوئی امید ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری اور کلچر بالخصوص پنجابی کلچر پھر سے مقبول ہو گا؟
اس کے جواب میں سہیل احمد نے بتایا کہ وہ پنجابی سے محبت کرتے ہیں۔
’میں مشکور ہوں نصرت فتح علی خان کا، گرداس مان، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی کا۔ ان لوگوں نے پنجاب کی زبان اس کی تشہیر کی ہے اپنے آرٹ کے ذریعے۔‘
سہیل احمد نے مزید کہا: ’ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ میں ایک مرتبہ انڈین اداکار یش چوپڑا سے ملا تو انہوں نے مجھے کہا کہ کیا چکر ہے کہ آپ کے ٹیکنیشن بہتریں ہیں، سٹوری رائٹر تگڑا ہے، میوزک، گائیکی، شاعری کلاس کی ہے تو کیوں پاکستان میں بین الاقوامی سطح پر فلم اچھی نہیں بنتی۔‘
’میں نے ان سے بھی یہی کہا کہ چونکہ بجٹ ہمارا کم ہے لیکن میرے خیال میں اب ہمیں بجٹ کا بہانہ چھوڑ کر پوری دنیا تک پہنچنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عامر خان یا شاہ رخ خان کی فلم کی چائینیز یا انگریزی زبانوں میں ڈب کر کے پورے یورپ میں نمائش ہو سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں ایسا کر سکتے؟‘