زخمی ٹرمپ کی تصویر امریکی انتخابات کا رخ بدلے گی

سابق صدر پر کیا جانے والا حملہ نہ صرف اگلے چند مہینوں بلکہ امریکی سیاست کے مستقبل کو نئی شکل دے گا۔

رپبلکن صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 13 جولائی 2024 کو امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ کے بعد امریکی سیکرٹ سروس کے اہلکار سکیورٹی حصار میں سٹیج سے لے جا رہے ہیں (اے پی)

یہ وہ تصویر ہے جو پوری دنیا میں دیکھی جائے گی۔ اس تصویر کو امریکہ کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ اس تصویر میں ڈونلڈ ٹرمپ چہرہ خون آلود ہونے کے باوجود اپنی جگہ قائم دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی خفیہ سروس کے افسروں نے انہیں گھیرے میں لے رکھا ہے اور ان کے منہ سے بار بار ’لڑائی‘ کا لفظ نکل رہا ہے جبکہ افسروں نے انہیں حفاظتی تحویل میں لے لیا۔

اس تصویر نے مجھے دوسری عالمی جنگ کی شاید سب سے مشہور تصویر کی یاد دلا دی جب امریکی میرین کور نے بحرالکاہل میں واقع جزیرے ایوو جیما میں امریکی پرچم لہرایا۔ گذشتہ رات ڈونلڈ ٹرمپ پرچم کی طرح تھے جنہیں سکیورٹی تقریباً بزور بازو اپنے ساتھ لے گئی۔

سابق صدر محفوظ رہے لیکن اگر گولی مزید ایک یا دو انچ دائیں جانب ہوتی تو حالات بہت مختلف ہوتے۔ سیاسی تشدد کے ایک اور واقعے کے بارے میں سن کر واقعی مایوسی ہوتی ہے۔ ایک واقعہ جس کی تاریخ بذات خود جمہوریہ کے آغاز تک جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جان ولکس بوتھ، چارلس جے گوئٹیو، لی ہاروی اوسوالڈ اور جان ہنکلی جونیئر جیسے ناموں پر مشتمل اس فہرست میں اب ہم تھامس میتھیو کروکس کو بھی شامل کر سکتے ہیں، جو کسی موجودہ یا سابق امریکی صدر کی زندگی پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے والے تازہ ترین شخص ہیں۔

تھامس میتھیو کروکس کے مقصد کے بارے میں کچھ معلوم ہونا بہت قبل از وقت ہے۔ وہ رجسٹر رپبلکن تھے لیکن انہوں نے ترقی پسندانہ مقاصد کے لیے بھی چندہ دیا۔

بوتھ نے لنکن کو سیاست اور غلامی کے خاتمے پر آنے والے غصے کی وجہ سے قتل کیا۔ اوسوالڈ نے ڈیلس میں جے ایف کینیڈی کو اس طرح سے گولی ماری جس نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا، جس سے واقعی کیا ہوا کہ اس کے بارے میں بہت سے سازشی نظریات پیدا ہوئے۔ ہنکلی نے ریگن کو مارنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جوڈی فوسٹر کو متاثر کرنا چاہتے تھے، جس وہ محبت کرتے تھے۔

قتل کی ان تمام کوششوں، خواہ وہ کامیاب ہوں یا ناکام، میں جو قدر مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ طاقتور اسلحہ آسانی کے ساتھ دستیاب ہے، جس کی مدد سے اپنے منتخب کردہ ’ہدف‘ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پنسلوینیا میں ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) ہجوم ہتھیار رکھنے کے حق کی بھرپور حمایت کر رہا ہے اور اسے سانس لینے کے حق کی طرح بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔

2020 کی انتخابی مہم کے اختتام پر پنسلوینیا میں ہونے والی ٹرمپ کی آخری ریلی تھی جس میں، میں نے شرکت کی۔ یہ ریلی سکرنٹن میں ہوائی اڈے کے قریب ہو رہی تھی۔ ان ریلیوں کی سکیورٹی اس سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے، جو آپ عام طور پر برطانیہ میں دیکھتے ہیں۔

پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے اور آپ کے سٹیج کے قریب جانے سے پہلے میٹل ڈیٹیکٹرز اور چھڑیوں کی مدد سے ہوائی اڈے کی طرز کی سکیورٹی ہوتی ہے۔ امریکی سیکرٹ سروس کے پاس کسی بھی ایسی قریبی عمارت کو بند کرنے کا کافی اختیار ہوتا ہے، جو خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کا حملہ آور قریبی فیکٹری کی چھت پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس حوالے سے سکیورٹی کے سنجیدہ سوالات کا جواب دینا باقی ہے۔

اس واقعے کا نتیجہ تشویش ناک ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ جو بائیڈن نے فوری طور پر اپنے مخالف پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی مذمت کی۔ انہوں نے ایسی بات کی جو مثبت ہے، تاہم بائیڈن کا یہ کہنا کہ اس طرح کے سیاسی تشدد کے بارے میں کبھی ’نہیں سنا گیا‘ بالکل درست نہیں۔

آئیے ہم فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسے اس لمحے کے صدمے سے منسوب کرتے ہیں، جب ٹرمپ ’لڑائی‘ کا لفظ دہراتے رہے۔ اس وقت جب حفاظتی نکتہ نظر سے انہیں دور لے جایا گیا۔ کیا امریکہ کو اس وقت لڑائی کی واقعی زیادہ ضرورت ہے؟ ہم پہلے ہی صدارتی الیکشن کے بعد چھ جنوری کے بلوے کے دوران سیاسی تشدد دیکھ چکے ہیں۔

کسی بھی دوسرے مقابلے کی طرح سیاست میں ’لڑائی‘ کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کی قومی ٹیم کے مینیجر گیریتھ ساؤتھ گیٹ اور فٹ بال کے کھلاڑی ہیری کین انگلینڈ کی ٹیم پر اسی لڑائی کے لیے زور دیں گے جب وہ آج شام برلن میں میدان میں اتریں گے، لیکن لڑائی کے لفظ کو حکم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے چھ جنوری کو دیکھا، ’اوتھ کیپرز‘ اور ’پراؤڈ بوائز‘ جیسے گروپوں کی موجودگی میں امریکہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں اس سمت میں زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ چھ جنوری کے واقعات کی تحقیقات کے دوران دیے گئے شواہد کے مطابق ٹرمپ نے سیکرٹ سروس کے ساتھ اس بات پر جھگڑا کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کے جنوب میں واقع ایلپس نامی علاقے میں کس کو داخل ہونے کی اجازت ملے، جہاں ٹرمپ نے اپنے حامیوں پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی کانگریس کی عمارت میں داخل ہو کر ملک کی خاطر ’بھرپور لڑائی‘ لڑیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر