فزکس اور کیمسٹری کے 2024 کے نوبیل انعامات نے ہمیں سائنس کے مستقبل کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ دونوں شعبوں میں انعام کا مرکزی عنصر مصنوعی ذہانت تھی۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ نوبیل انعام کے بانی الفریڈ نوبیل اس تمام صورت حال کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔
ہمیں یقین ہے کہ مزید بہت سے نوبیل انعامات ان محققین کو دیے جائیں گے، جنہوں نے اپنی تحقیق میں مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کیا۔ جوں جوں مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑھتا جائے گا ممکن ہے کہ ہم دیکھیں کہ نوبیل کمیٹی انعام کے لیے ’فزکس‘، ’کیمیا‘ اور ’فزیالوجی یا میڈیسن‘ جیسے شعبے چھوڑ دے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ انعام پانے والوں کا سائنسی پس منظر ان شعبوں کے ساتھ تعلق ڈھیلا ڈھالا ہو۔
اس سال کا فزکس کا نوبیل انعام امریکہ کے جان ہاپ فیلڈ کو، جو پرنسٹن یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور برطانوی نژاد جیفری ہنٹن، جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ہیں، کو دیا گیا۔ جہاں ہاپ فیلڈ ماہر طبیعات ہیں، وہیں ہنٹن نے تجرباتی نفسیات کی تعلیم حاصل کی اور بعد میں مصنوعی ذہانت کی طرف چلے گئے۔
کیمسٹری کا انعام بائیوکیمسٹ ڈیوڈ بیکر، جو واشنگٹن یونیورسٹی میں ہیں، اور کمپیوٹر سائنس دان ڈیمس ہسابس اور جان جمپر کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ یہ دونوں لوگ برطانیہ میں گوگل کی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ مائنڈ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
فزکس اور کیمسٹری کی کیٹگری میں مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیشرفتوں کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
ہنٹن نے ایک طریقہ کار تیار کیا، جسے استعمال کرتے ہوئے ڈیپ مائنڈ نے پروٹین کی اشکال کی پیشگوئی میں پیشرفت کی۔
فزکس کا نوبیل انعام حاصل کرنے والوں میں، خاص طور پر ہنٹن نے، مشین لرننگ کے طاقتور شعبے کی بنیاد رکھی۔ یہ مصنوعی ذہانت کا ایک حصہ ہے، جو الگورتھمز، یعنی مخصوص حسابی کام انجام دینے کے لیے قواعد کے مجموعے سے متعلق ہے۔
ہاپ فیلڈ کا کام آج کل خاص طور پر استعمال میں نہیں لیکن بیک پروپیگیشن الگورتھم (جو ہنٹن نے مشترکہ طور پر ایجاد کیا) نے سائنس کے مختلف شعبوں اور ٹیکنالوجی کو زبردست طریقے سے متاثر کیا۔ یہ نیورل نیٹ ورکس سے متعلق ہے، جو ایسا کمپیوٹنگ ماڈل ہے، جو انسانی دماغ کی ساخت اور کام کرنے کے طریقے کی نقل کرتا ہے تاکہ ڈیٹا کو پروسیس کیا جا سکے۔
بیک پروپیگیشن سائنس دانوں کو بڑے پیمانے پر نیورل نیٹ ورکس کو ’تربیت‘ دینے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
نوبیل کمیٹی نے اس اثر انگیز الگورتھم کو فزکس سے جوڑنے کی پوری کوشش کی۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ ربط براہ راست نہیں۔
مشین لرننگ نظام کی تربیت میں اسے انٹرنیٹ سے بڑی مقدار میں حاصل کیے گئے ڈیٹا سے روشناس کروانا شامل ہوتا ہے۔
ہنٹن کی پیشرفت نے آخر کار ایسے نظاموں کی تربیت کو ممکن بنایا۔ مثال کے طور پر جی پی ٹی (جو چیٹ جی پی ٹی) کے پیچھے کی ٹیکنالوجی ہے اور گوگل ڈیپ مائنڈ کے تیار کردہ اے آئی الگورتھمز، الفاگو اور الفافولڈ کی تربیت کی۔ اس طرح بیک پروپیگیشن کا اثر بہت بڑا رہا۔
ڈیپ مائنڈ کے الفافولڈ ٹو نے 50 سالہ مسئلہ حل کیا، یعنی پروٹینز کی پیچیدہ ساختوں کی پیشنگوئی ان کے مالیکیولر بلڈنگ بلاکس، امینو ایسڈز سے کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنس دان 1994 سے ہر دو سال بعد ایک مقابلہ کرواتے ہیں، جس کا مقصد امینو ایسڈز کے تسلسل سے پروٹین کی ساختوں اور شکلوں کی پیشگوئی کے بہترین طریقے تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس مقابلے کو کریٹیکل ایسسمنٹ آف سٹرکچر پریڈکشن (سی اے ایس پی) کہا جاتا ہے۔
گذشتہ چند مقابلوں میں سی اے ایس پی کے فاتحین نے ڈیپ مائنڈ کے الفافولڈ کے کسی نہ کسی ورژن کا استعمال کیا ہے۔ اس طرح ہنٹن کی بیک پروپیگیشن سے گوگل ڈیپ مائنڈ کے الفافولڈ ٹوکی شاندار پیشرفت تک ایک براہ راست لائن کھینچی جا سکتی ہے۔
ڈیوڈ بیکر نے روزیٹا نامی کمپیوٹر پروگرام کا استعمال کرکے نئی قسم کی پروٹینز بنانے کا مشکل کارنامہ انجام دیا۔
بیکر اور ڈیپ مائنڈ دونوں مستقبل کی ایپلی کیشنز کے لیے بہت بڑی صلاحیت کے حامل ہیں۔
نوبیل انعام میں کریڈٹ دینا ہمیشہ متنازع پہلو رہا ہے۔ نوبیل انعام میں زیادہ سے زیادہ تین محققین انعام شیئر کر سکتے ہیں لیکن سائنس میں بڑی پیشرفتیں تعاون پر مبنی ہوتی ہیں۔ سائنسی مقالات میں ایک، 20، 30 یا اس سے زیادہ مصنفین ہو سکتے ہیں۔ نوبیل کمیٹی کی طرف سے تسلیم کی گئی دریافتوں میں ایک سے زیادہ ٹیمیں حصہ ڈال سکتی ہیں۔
اس سال ہمیں بیک پروپیگیشن الگورتھم پر تحقیق کے کریڈٹ پر مزید بحثیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں جس کا دعویٰ مختلف محققین نے کیا اور فزکس جیسے شعبے میں ایک دریافت کی عمومی نسبت دینے کے لیے بھی۔
اب ہمارے پاس کریڈٹ کی مسئلے کا ایک نیا پہلو ہے۔ یہ بتدریج غیر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ آیا ہم ہمیشہ سائنس دانوں اور ان کے مصنوعی معاونین یعنی مصنوعی ذہانت کے ٹولز جو پہلے ہی ہمارے علم کی حدود کو آگے بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں، کے درمیان تعلق کو الگ کر پائیں گے یا نہیں۔
کیا ہم مستقبل میں مشینوں کو سائنس دانوں کی جگہ لیتے دیکھ سکتے ہیں، جہاں انسان کا کردار معاون کا ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو شاید مصنوعی ذہانت کے ٹولز بڑا نوبیل انعام حاصل کریں اور انسانوں کو اپنے لیے الگ کیٹگری میں انعام کی ضرورت پڑے۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی۔ یہاں اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔
کالم نگار نیل کرسٹیانی برطانیہ کی باتھ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور وہ اس موضوع پر دو کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔