مصنوعی ذہانت کے ’اندرونی خیالات‘ بتانے والی الیکٹرانک زبان

سائنس دانوں کے مطابق نئی ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت کے ’اندرونی خیالات‘ کو سمجھنے کا منفرد موقع فراہم کرتی ہے، جو اب تک زیادہ تر ایک مبہم میدان رہا ہے، جسے عام طور پر بلیک باکس مسئلہ کہا جاتا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق کاربن پر مشتمل گریفین کی مدد سے تیار کی گئی یہ الیکٹرانک زبان مختلف ذائقوں کے درمیان انسانوں کے مقابلے میں زیادہ درستی کے ساتھ تمیز سکتی ہے (داس لیب)

سائنس دانوں نے ایک الیکٹرانک زبان تیار کی ہے جو مختلف ذائقوں کے درمیان انسانوں کے مقابلے میں زیادہ درستی کے ساتھ تمیز سکتی ہے۔

امریکہ کی پنسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ آلہ جو کاربن پر مشتمل گریفین کی مدد سے تیار کیا گیا، کیمیائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے، جنہیں طبی تشخیص سے کر خراب ہو جانے والے کھانا کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال جا سکتا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت کے ’اندرونی خیالات‘ کو سمجھنے کا منفرد موقع فراہم کرتی ہے، جو اب تک زیادہ تر ایک مبہم میدان رہا ہے، جسے عام طور پر بلیک باکس مسئلہ کہا جاتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے یہ کامیابی اس طریقے سے حاصل کی کہ انہوں نے ریورس انجینیئرنگ کرتے ہوئے سمجھا کہ عصبی نظام مختلف اقسام کے دودھ، کافی اور گیس والے مشروبات میں فرق کیسے پہچانتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے محققین کو ’عصبی نظام کے فیصلہ سازی کے طریقے کی جھلک ملی‘ جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کی حفاظت اور ترقی میں بہتری کا سبب بن سکتا ہے۔

پین سٹیٹ یونیورسٹی کے انجینیئرنگ سائنس اور مکینکس کے پروفیسر سپتارشی داس کا کہنا تھا کہ ’ہم مصنوعی زبان تیار کی کوشش کر رہے ہیں لیکن لیکن ہمیں ذائقے کا کیسے پتہ چلتا ہے، یہ معاملہ صرف زبان سے زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہماری زبان پر ذائقے کے ریسیپٹر ہوتے ہیں، جو کھانے کی اقسام کے ساتھ تعامل کرتے ہیں اور پھر معلومات کو گسٹیٹری کارٹیکس یعنی حیاتیاتی نیورل نیٹ ورک کو بھیجتے ہیں۔‘

الیکٹرانک زبان کا نیورل نیٹ ورک ذائقوں کی پہچان میں 95 فیصد سے زیادہ درستی حاصل کرنے میں کامیاب رہا، جب اس کا انسان کے منتخب کردہ پیمانوں سے مقابلہ کیا گیا۔

تحقیقی ٹیم نے شیپلی ایڈیٹیو ایکس پلینیشنز نامی ایک طریقہ استعمال کرتے ہوئے نیورل نیٹ ورک کے فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھا۔ اس نیٹ ورک نے انسان کے مقرر کردہ انفرادی پیمانوں کی بجائے ان معلومات کو ترجیح دی جو ذائقوں کی پہچان کے لیے اہم تھیں۔

پروفیسر داس نے کہا: ’ہمیں معلوم ہوا کہ نیٹ ورک نے ڈیٹا میں موجود زیادہ باریک خصوصیات کو دیکھا یعنی ایسی چیزیں جنہیں ہم انسان صحیح طور پر بیان کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

’اور چونکہ نیورل نیٹ ورک سینسرز کی خصوصیات کو مجموعی طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس سے روزمرہ کے مختلف حالات میں پیدا ہونے والے فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔ نیورل نیٹ ورک دودھ میں پانی کی مختلف مقدار کا تعین کر سکتا ہے اور اس تناظر میں دیکھتا ہے کہ آیا اس میں خرابی کے کوئی آثار موجود ہیں، جو اسے پینے میں حفاظت کے مسئلے کے طور پر اہم سمجھے جا سکتے ہیں۔‘

یہ تحقیق ’روبسٹ کیمیکل اینالیسس ود گریفین کیموسینرز اینڈ مشین لرننگ‘ کے عنوان سے ’نیچر‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی