وہ ’سخت جان‘ کیڑے جو نوبیل انعام دلوانے میں مددگار ہوئے

دو امریکی سائنس دانوں نے ایک گول کیڑے میں ایسا آر این اے دریافت کیا جو کسی جاندار کے جسم میں خلیوں کے کام کا تعین کرتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر جینیات گیری رووکن کو اپنے دیرینہ دوست اور اب 2024 کے نوبیل انعام فزیالوجی یا میڈیسن کے شریک انعام یافتہ وکٹر امبروس کے ساتھ رات گئے آنے والی وہ فون کال واضح طور پر یاد ہے، جس میں انہوں نے جینیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اپنی اہم دریافت کا ذکر کیا تھا۔

یہ 1990 کی دہائی کا اوائل تھا، جب ایک دہائی قبل سے ایک دوسرے کو جاننے والے سائنس دان، جو راؤنڈ ورم (کیڑے) کی ایک غیر واضح نسل کے سحر میں مبتلا تھے، رات 11 بجے ڈیٹا پوائنٹس کا تبادلہ کر رہے تھے۔

گیری رووکن نے نوبیل انعام ملنے کی خبر سننے کے فوراً بعد بوسٹن کے نواحی علاقے میں اے ایف پی کو بتایا: ’یہ معمے کے ٹکڑوں کی طرح ایک ساتھ فٹ بیٹھتا ہے۔‘

نوبیل انعام حاصل کرنے والے سائنس دانوں نے جس چیز کا انکشاف کیا، وہ ایک چھوٹا سا جینیاتی مالیکیول یا مائیکرو آر این اے ہے، جو جانوروں اور پودوں میں نشو و نما کے کلیدی ریگولیٹرز کے طور پر کام کرتا ہے اور مستقبل میں بہت سی بیماریوں کے علاج میں پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے۔

عام پروٹینز میں پائے جانے والے جینز کے کوڈز کی نسبت اس مالیکیول کا کوڈ محض 22 ’حروف‘ پر مشتمل ہے، لیکن اس کے چھوٹے سائز کے برعکس اس مالیکیولر گیٹ کیپر کا کردار بہت اہم ہے۔

گیری رووکن وضاحت کرتے ہیں کہ ’وہ ٹارگٹ ہونے والے جین کو بند کر دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے فلکیات کا آغاز نظر آنے والی چیزوں کے دیکھنے سے ہوتا ہے اور پھر بعدازاں لوگ سوچتے ہیں کہ ’اگر ہم ایکسریز کے ساتھ دیکھیں تو ہم بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزہد کہا: ’ہم جینیات کو اس سے کہیں زیادہ چھوٹے پیمانے پر دیکھ رہے تھے، جتنا اسے پہلے دیکھا گیا تھا۔‘

گیری رووکن اور وکٹر امبروس کی دریافت کی جڑیں سی ایلیگنز نامی ایک ملی میٹر لمبے گول کیڑے کی ابتدائی تحقیقات میں تھیں۔

دونوں سائنس دان اس کیڑے کے دو جینز کے درمیان تعامل سے تعجب میں مبتلا ہوئے کہ یہ کیڑے کی معمول کی نشوونما میں خلل ڈالتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ (کیڑا) یا تو نوعمر حالت میں رہتا ہے یا وقت سے پہلے بالغ ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جانداروں کے تمام خلیوں میں موجود جینیاتی معلومات ڈی این اے سے میسنجر آر این اے (ایم آر این اے) میں ٹرانسکرپشن نامی عمل کے ذریعے بہتی ہیں اور پھر خلیے کی مشینری تک پہنچتی ہے، جسے ہدایات دی جاتی ہیں کہ کون سی پروٹین بنانی ہے۔

20 ویں صدی کے وسط سے سمجھا جاتا ہے کہ اس عمل کے ذریعے خلیات مخصوص ہو جاتے ہیں اور مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔

لیکن رووکن اور امبروس، جنہوں نے مختلف اداروں میں جانے سے پہلے ایک ہی تجربہ گاہ میں کام شروع کیا تھا، نے مائیکرو آر این اے کے ذریعے جین کی سرگرمی کو منظم کرنے کے لیے بنیادی طور پر ایک نیا راستہ دریافت کیا، جو ٹرانسکرپشن کے بعد جین کے اظہار کو کنٹرول کرتا ہے۔

انہوں نے اپنے نتائج کو 1993 میں پیپرز میں شائع کیا، لیکن پہلے تو اس دریافت کو مسترد کر دیا گیا، کیوں کہ بظاہر اس کا تعلق دودھ پلانے والے جانوروں سے نہیں ہے۔

رووکن کہتے ہیں: ’ہمیں ترقیاتی حیاتیات کی دنیا میں ایک عجیب و غریب چیز سمجھا جاتا تھا۔‘

انہیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ان کے کام کو اتنا زیادہ سراہا جائے گا۔

یہ سب کچھ 2000 میں بدلنا شروع ہوا، جب رووکن کی لیبارٹری نے ایک اور مائیکرو آر این اے دریافت کیا، جو زندہ جسموں میں موجود تھا، بشمول گول کیڑے سے مرغیوں اور انسانوں تک۔

اور پھر گذشتہ روز (سات اکتوبر کو) اسی دریافت نے انہیں نوبیل انعام دلوا دیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس