موسمیاتی تبدیلی اپنے ساتھ کئی نئے چیلنجز لے کر آئی ہے، جن کے حل تیزی سے اپنانا ناگزیر ہیں۔ ضلع سوات میں گذشتہ سیلابوں سے انسانی جان و مال کا بہت نقصان ہوا، جس کی بڑی وجہ ایسی قدرتی آفتوں کی پیشگی اطلاع میں تاخیر سمجھی جاتی ہے۔
مستقبل میں سیلاب کی پیشگی اطلاع کے حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ اور سوات کی ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کالام میں پہلی بار آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے فلڈ ارلی وارننگ سسٹم (Flood Early Warning System) نصب کیا گیا ہے، جو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان گذشتہ کئی برس سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں کام کر رہا ہے۔
اس ادارے سے تعلق رکھنے والے عاصم حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سوات میں ان کا فلڈ ریکوری پروجیکٹ شروع ہوا، جس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے فلڈ ارلی وارننگ سسٹم بھی شامل تھا۔
بقول عاصم: ’اس سے قبل سوات میں کوئی ایسا نظام نہیں تھا، جو سیلاب کی بروقت اطلاع فراہم کر سکتا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے فلڈ ارلی وارننگ سسٹم پر کام شروع کیا اور کالام میں نظام لگایا گیا، جس میں کیمرے، سینسرز اور واٹر گیج نصب کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عاصم کا کہنا تھا کہ ان آلات کی مدد سے دریائے سوات میں پانی کی مقدار اور رفتار پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
’جو ڈیٹا ہمارے پاس آئے گا ان کا تجزیہ مشینیں کریں گی اور مقامی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جائے گا۔‘
کالام میں ایک ہوٹل کے مالک اعجاز شنواری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ 2010 کے سیلاب میں سیفٹی والو اور پل ٹوٹنے کی وجہ سے ان کے ہوٹل کے 10 کمرے متاثر ہوئے تھے، جب کہ 2022 کے سیلاب میں بھی کوئی الرٹ جاری نہ ہوا اور پانی سے مہمانوں کے لیے بھی خطرہ بڑھ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے نظام میں لگے کیمرے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ ’ہمیں سیلاب سے پہلے الرٹ ملے گا، جس کی وجہ سے ہم بروقت حفاظتی اقدامات اٹھا سکیں گے۔ اگر الرٹ پانی کے قریب پہنچنے سے قبل مل جائے تو ہم اپنے مہمانوں کو بحفاظت نکال سکیں گے اور انسانی جانیں اور قیمتی سامان بچایا جا سکے گا۔‘