نوبیل انعام یافتہ کا ایرانی خواتین پر ’ظلم‘ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

تہران میں پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی دوسری برسی کے موقع پر نئی تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ زیادہ خواتین بغیر حجاب کے سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔

15 ستمبر، 2024 کو خواتین کے لیے ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کی دوسری برسی کے موقع پر تہران کی سڑکوں پر کھلے بالوں کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں (عطا کینارے/ اے ایف پی)

جیل میں قید نوبیل امن انعام یافتہ نرگس محمدی نے پیر کو بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ایران میں خواتین پر ہونے والے 'ظلم' کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

انہوں نے ہفتے کے روز تہران کی ایون جیل میں لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ’میں بین الاقوامی اداروں اور دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں...فعال کارروائی کرنے کے لیے۔ میں اقوام متحدہ پر زور دیتی ہوں کہ وہ مذہبی اور مطلق العنان حکومتوں کی جانب سے صنفی امتیاز کو جرم قرار دے کر خواتین کے خلاف ہونے والے تباہ کن جبر اور امتیازی سلوک کے سامنے اپنی خاموشی اور غیر فعالیت کو ختم کرے۔‘

ادھر ایران کے دارالحکومت تہران میں اخلاق پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی دوسری برسی کے موقع پر گیٹی امیجز ایجنسی نے نئی تصاویر کا مجموعہ شائع کیا ہے۔

ان تصاویر میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ان خواتین کی تعداد ہے جو بغیر حجاب کے شہر کی سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن پر حکام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

تصاویر کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں نہ صرف ’لازمی حجاب کو چیلنج کیا گیا بلکہ علما کی قیادت سے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔‘

اس کے ساتھ ساتھ متعدد ایرانی خواتین نے اپنے پسندیدہ کپڑوں میں ایسی سیلفیز جاری کی ہیں، جن میں ’خواتین کی روزمرہ کی جدوجہد‘ پر زور دیا گیا ہے اور اپنی تصویروں کے ساتھ یہی جملہ لکھا ہے: ’میں ایک ہوں میں ان گنت میں سے ایک ہوں۔ شہر کی خواتین۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین