آئس باتھ (یخ بستہ پانی سے غسل) کی مثال تندرستی کی دنیا میں معروف برطانوی جیم ’مارمائٹ‘ کے جیسی ہے۔ اس تھراپی کے حامی دماغی اور جسمانی صحت سے متعلق فوائد کے سبب روزانہ برف والے پانی میں ڈبکی لگانے کا عہد کرتے ہیں جب کہ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے نہانے کے فوائد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں آئس باتھ سے تعلق جس بات پر بحث نہیں ہوئی وہ اس کی بے انتہا مقبولیت ہے۔ اگرچہ برفیلے پانی میں نہانے اور اس سے متعلقہ تھراپی کے طریقوں کو 3500 قبل مسیح میں لکھی گئی دستاویز میں بیان کیا گیا ہے لیکن ایک دہائی قبل آپ کے لیے کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا مشکل ہوتا تھا، جس کے پاس اپنا پری فیبریکیٹڈ ٹب ہو لیکن آج کل برطانیہ بھر میں ہزاروں لوگ اپنے دن کا آغاز برفیلے پانی میں ڈبکی لگانے سے کرتے ہیں۔
درحقیقت انسٹاگرام پر سکرولنگ کے دوران کسی نہ کسی دوست، خاندان کے رکن یا کسی واقف کار کو ٹھنڈے ٹب میں ڈبکی لیتے ہوئے دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن کیا ستم ظریفی کا یہ جدید مظاہرہ پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے اس موضوع پر دو ماہرین سے بات کی۔ پہلے ڈاکٹر میتھیو میلے جو لاؤفبرو یونیورسٹی میں ایکو ایرگونومکس کے لیکچرر ہیں اور دوسرے آئس باتھ اور ریکوری برانڈ ’لومی تھراپی‘ کے بانی گیون ٹیگ۔
وہ بتاتے ہیں کہ آئس باتھ کا استعمال کیسے شروع کیا جائے، نیز وہ فوائد اور نقصانات بھی، جن کا آپ ایسا کرنے سے سامنا کر سکتے ہیں۔
آئس باتھ اور کولڈ واٹر تھراپی میں کیا فرق ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم تفصیلات میں جائیں، آئس باتھ اور کولڈ واٹر تھراپی کے درمیان فرق جان لیں۔
ڈاکٹر میلے بتاتے ہیں: ’دونوں بالکل الگ ہیں۔ آئس باتھ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ برف والے پانی میں ڈبکی لیتے ہیں، عام طور پر اس کا درجہ حرارت صفر سے 15 سیلسیئس کے درمیان ہوتا ہے۔ کولڈ واٹر تھراپی کا بنیادی مطلب جسم کو ٹھنڈے پانی سے آشنا کرانا ہے۔ یہ آئس باتھ سے زیادہ وسیع تر اصطلاح ہے اور اس میں کولڈ کمپریسس کا استعمال کرنا، ٹھنڈے شاور میں ہاپنگ کرنا یا یہاں تک کہ (کم از کم برطانیہ میں) کھلے پانی (ٹھنڈی جھیلوں یا ندیوں) میں تیراکی کرنے جیسی چیزیں شامل ہیں۔
اس کا استعمال اور اثرات اس کے طریقے کی مناسبت سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹھنڈے پانی سے شاور آپ کو ذہنی طور پر متحرک کر کے پرجوش بنا سکتا ہے جبکہ آئس باتھ عام طور پر ورزش کے بعد کی بحالی یا سوزش کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا آئس باتھ آپ کے لیے مفید ہے؟
یہ اہم سوال ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا مختصر جواب ہاں میں ہے، جو کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ موجودہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ باقاعدگی سے آئس باتھ کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔
ڈاکٹر میلے کا کہنا ہے کہ ’موجودہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کولڈ تھراپی کے طریقے دل کے کام کو بہتر بنا کر اور سوزش کو کم کر کے جسمانی صحت کو فروغ دے سکتے ہیں اور یہ تناؤ کو کم کر کے اور موڈ کو بہتر بنا کر ذہنی تندرستی میں مدد فراہم کرتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسے ریکوری کے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سوجن کو کم کرنے، درد کو کم کرنے، گردش خون کو بڑھانے اور میٹابولک سے بننے والے اضافی مواد کو ختم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
ان کے بقول: ’یہ سب اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ٹھنڈ جسمانی ردعمل کو متحرک کرتی ہے جس میں خون کی نالیوں کو محدود کرنا اور اعصاب کی ترسیل کو کم کرنا شامل ہے۔‘
تاہم گیون ٹیگ کے نزدیک آئس باتھ کے دماغی صحت کے حوالے سے بھی بہت سے فوائد ہیں، جن کے بارے میں توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ایک سال تک ہر روز تین سیلسیئس تک کے آئس باتھ میں تین منٹ گزارنے کے بعد، ان کا ماننا ہے کہ اگر کوئی ایک ماہ تک اس مشق کی پابندی کرے تو میں اپنی زندگی اس حقیقت کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کی زندگی مکمل طور پر بدل جائے گی۔‘
ان کے بقول: ’30 دن آئس باتھ میں جو نظم و ضبط درکار ہے وہ آپ کی پوری ذہنیت کو بدل دے گا، نہ کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ یہ صبح کے اوقات کا حتمی ری سیٹ ہے۔ کتنے لوگ روز صبح جاگتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ وہ بدمزاج، تھکے ہوئے ہیں یا انہیں ٹھیک سے نیند نہیں آئی؟ لیکن آئس باتھ ان سب مسائل کو ختم کرتا ہے اور اس کے پیچھے یہ جو نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ آپ زندگی کے ہر پہلو میں بہت زیادہ منظم ہو جائیں گے۔‘
ڈاکٹر میلے اس آخری نکتے سے متفق نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’نظم و ضبط اور مزاحمت کے لحاظ سے، کوئی بھی دیگر کام مفید ہو سکتا ہے اگر لوگ اس پر کافی حد تک یقین کر لیں، جسے پلیسبو ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔
گیون ٹیگ نے اس تحقیق کی طرف بھی اشارہ کیا، جس میں بتایا گیا کہ ٹھنڈے پانی میں ڈبکی لگانے کے گھنٹوں بعد بھی جسم میں ڈوپامائن کا لیول بڑھا رہتا ہے، یہ ایک ایسا ہارمون ہے جس کا تعلق بہتر موڈ، بہترتوجہ اور جوش سے ہے۔
ڈاکٹر میلے اس بات سے بھی متفق ہیں کہ ٹھنڈ میں رہنے کے دوران ڈوپامائن میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’جب جسم گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے تو یہ ہارمون بھی کم ہونا شروع ہو جاتا ہے لہذا یہ ایک عارضی ردعمل ہے اور یہ یقینی طور پر آپ کو وقتی طور پر مزید بیدار کرتا ہے لیکن 15 منٹ کی تیز چہل قدمی کا بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوتا ہے۔‘
آئس باتھ کے کیا نقصانات ہیں؟
آئس باتھ کے متعلق سب سے زیادہ دستاویزی نقصان یہ ہے کہ ورزش کے فوراً بعد ٹھنڈے پانی میں ڈبکی لینے سے پٹھوں کی نشوونما روک سکتی ہے۔
ڈاکٹر میلے کہتے ہیں کہ ’مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزن اٹھانے کی ورزش کے بعد ٹھنڈے پانی میں ڈبکی لینا طویل مدت کے لیے پٹھوں کی نشوونما اور طاقت میں اضافے کو کم کر سکتا ہے۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کبھی کبھار آئس باتھ لینے سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا۔
گیون ٹیگ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں، جن کی فٹنس کا بنیادی مقصد پٹھوں کو بنانا ہے کہ وہ اپنے لفٹنگ سیشن اور آئس باتھ کے درمیان کم از کم دو گھنٹے کا وقفہ دیں یا جم سے پہلے ہی صبح کو جو پہلا کام کریں وہ ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگانا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر میلے کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی انسانی گروپس ایسے ہیں، جنہیں ٹھنڈے پانی میں کودنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔
ان کے بقول: ’ٹھنڈے پانی میں بہت زیادہ وقت گزارنا ہائپوتھرمیا کا باعث بن سکتا ہے، جہاں آپ کا بنیادی درجہ حرارت 35 سیلسیئس سے کم ہو جاتا ہے۔ بوڑھے افراد اور اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں دشواری کا شکار افراد ہائپوتھرمیا کا زیادہ شکار ہوں گے، اس لیے انہیں محتاط رہنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس کے دل کے لیے بھی کچھ خطرات ہو سکتے ہیں جیسے بلڈ پریشر میں اچانک اضافہ یا دل کی بے قاعدگی کا بڑھ جانا، لہٰذا دل کے امراض میں مبتلا افراد، خاص طور پر غیر مستحکم حالات کا سامنا کرنے والے، دل کی بے قاعدہ ڈھڑکن یا ہائی بلڈ پریشر والے افراد کو بھی زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔‘
کولڈ واٹر تھراپی کی دیگر اقسام جیسے کھلے پانی میں تیراکی کے حوالے سے مزید احتیاطی تدابیر پر غور کرنا بہتر ہو گا۔
ڈاکٹر میلے کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ موسم بہار یا موسم گرما کے شروع میں کسی گرم دن بھی سمندر میں چھلانگ لگانے سے خطرے کا سامنا کر سکتے ہیں کیونکہ برطانیہ میں سمندر ان دنوں بھی کافی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس سے جلد کے درجہ حرارت میں ڈرامائی کمی واقع ہوگی، جس کی وجہ سے ’کولڈ شاک رسپانس‘ پیدا ہو گا، جو بہت سی اموات اور ڈوبنے کی وجہ بنتا ہے۔ ٹھنڈے پانی میں کولڈ شاک ہائپر وینٹی لیشن کا سبب بنتا ہے۔
ان کے بقول: ’لوگ خود کو غیر منجمد سردی کی چوٹوں کے خطرات سے ہمکنار کروا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو اکثر رپورٹ نہیں کیا جاتا لیکن یہ اس وقت ہوتی ہے جب جلد کا درجہ حرارت ایک طویل مدت کے لیے تقریباً 15 سیلسیئس سے نیچے آ جائے۔ یہ حالت جسم کے متاثرہ حصے میں رات کے وقت درد کا باعث بن سکتی ہے اور لوگوں کو ٹھنڈ لگنے کے زیادہ حساس ہونے کا باعث بھی بنتی ہے۔ سیاہ افریقی نسل کے افراد میں غیر منجمد سردی کی چوٹیں بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔‘
آپ کو کب تک آئس باتھ میں رہنا چاہیے؟
گیون ٹیگ اسے آہستہ آہستہ شروع کرنے اور ابتدا میں نسبتاً کم سرد پانی میں کم وقت گزارنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’آئس باتھ 15 سیلسیئس سے کم کسی بھی درجہ حرارت سے شروع کریں، پھر اندر جائیں اور باہر نکلیں۔ یہ احساس حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر اسے دن کے لیے چھوڑ دیں اور اپنے آپ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں۔‘
ان کے بقول: ’ہر روز اس میں وقت بڑھانے کی کوشش کریں اور 30 سیکنڈ تک اسے بڑھاتے جائیں۔ پہلا چیلنج یہ ہے کہ کیا آپ جسم میں کیمیائی ردعمل کے لیے 30 سیکنڈ تک ٹھنڈے پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہے کہ کیا آپ ذہنی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تھوڑی دیر تک مزید اندر رہ سکتے ہیں تاکہ آپ زیادہ بے سکونی کا سامنا کر کے اپنے اعصابی نظام کو کنٹرول کر سکیں یا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا آپ دباؤ والے ماحول میں اپنی سانس لینے پر قابو پا سکتے ہیں۔‘
گیون ٹیگ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ آپ آہستہ آہستہ درجہ حرارت کو بتدریج کم کریں اور اس کا تجربہ کریں کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اسے آہستہ آہستہ شروع کریں، ہر ایک فرد کے لیے یہ مختلف ہے اور یہ صرف ٹھنڈا پانی ہے۔ اس میں کوئی صحیح یا غلط نہیں ہے۔ 15 ڈگری سے کم اور 30 سیکنڈ سے زیادہ وقت اس تھراپی کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد یہ ہر شخص کی انفرادیت پر منحصر ہے کہ وہ کتنے ٹھنڈے پانی میں اور کتنی دیر تک جانا چاہتا ہے؟ اگرچہ ہم کبھی بھی تین یا چار منٹ سے زیادہ کی سفارش نہیں کرتے تاکہ آپ کا بنیادی درجہ حرارت بہت کم نہ ہو جائے۔‘
تاہم وہ یہ فیصلہ کرنے میں کہ آئس باتھ میں کتنی دیر رہنا چاہیے، ایک رہنما اصول کی سفارش کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ’اگر آپ نے آئس باتھ میں اچھا محسوس کرنا شروع کر دیا ہے تو سمجھیں کہ سارا کام ہو گیا ہے۔ آپ نے چیلنج کیا، آپ کے جسم کا ردعمل آیا اور آپ آئس باتھ میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ اتنا ہی آسان ہے۔ جب تک آپ اچھا محسوس نہیں کرتے، اندر رہیں اور جب اچھا لگے تو باہر نکل جائیں۔‘
حتمی رائے: تو کیا آئس باتھ لینا چاہیے؟
اگر آپ آئس باتھ کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی ایسے طبی مسائل والے کیمپ کا حصہ نہیں ہیں جنہیں آئس باتھ لیتے وقت محتاط رہنا چاہیے (ڈاکٹر میلے نے اس بارے میں اوپر درج کیا ہے) تو آپ یہ کر سکتے ہیں۔
موجودہ تحقیق آئس باتھ کے کئی فوائد کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں سوزش میں کمی، دل کی صحت میں بہتری، تناؤ میں کمی اور موڈ میں بہتری شامل ہے۔
آئس باتھ لینے والے بہت سے افراد اس حوالے سے مخصوص اثرات کی تعریف بھی کرتے ہیں مثال کے طور پر گیون ٹیگ جن کا کہنا ہے کہ ایک سال کے لیے ہر روز آئس باتھ لینے سے انہیں بیماری سے آزاد رہنے، پریشانی سے لڑنے اور نظم و ضبط پیدا کرنے میں مدد ملی، جس نے روزمرہ کے فیصلے کرنے میں ان کی سوچ کو بھی بہتر بنایا۔
وہ بتاتے ہیں: ’ایسا کوئی وقت نہیں تھا جب میں آئس ٹب سے باہر نکلا اور میں نے اندر جانے سے بہتر محسوس نہیں کیا، یہاں تک کہ اگر یہ (بہتری کا پیمانہ) معمولی تھا اور جب وقت واقعی مشکل تھا، تو بھی میں نے ہر بار بہتر محسوس کیا۔‘
تاہم آئس باتھ اور کولڈ واٹر تھراپی کے فوائد کے بارے میں تحقیق نسبتاً محدود ہے۔
ڈاکٹر میلے کا کہنا ہے کہ ’کولڈ واٹر تھراپی کے موجودہ ثبوت، ہیٹ تھراپی کے مطالعے سے کم مطابقت رکھتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر محدود نمونوں کے حجم کے ساتھ نان رینڈمائزڈ کنٹرول ٹرائل سٹڈیز پر مبنی ہیں۔
اس ثبوت پر سووانا باتھ میں کچھ وقت گزارنا یا کنٹراسٹ تھراپی، گرم اور سرد تھراپی کا مجموعہ، بہت سے لوگوں کے لیے ایک قابل قدر متبادل ہو سکتا ہے۔
یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہر جسم مختلف ہے اور ہر شخص کا جسم آئس باتھ پر تھوڑا مختلف ردعمل دے گا کیوں کہ ہم سب مارمائٹ جیم کو پسند کرتے ہیں یا ناپسند کرتے ہیں۔
اگر آپ ہر روز ٹھنڈے پانی سے کودنا پسند نہیں کرتے تو آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور آپ ایسا کیے بغیر بالکل صحت مند رہ سکتے ہیں۔
© The Independent