خیبرپختونخوا پولیس نے پیر کو بتایا کہ صوبے میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں ایک پولیس اہلکار جان سے گیا، جب کہ دو افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک پولیو ٹیم کے رکن تھے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ حملے اس وقت ہوئے جب ملک میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد چار کروڑ 40 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانا ہے۔
پولیو مفلوج کر دینے والی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ اس خوفناک بیماری سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو ویکسین کے متعدد خوراکیں دینا اور معمول کی ویکسینیشن کا مکمل کورس کروانا ضروری ہے۔
خیبر پختونخوا کے گورنر کے ترجمان طارق حبیب کے مطابق پہلا حملہ صوبے کے ضلع کرک میں ہوا، جہاں موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے انسداد پولیو ٹیم پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جان سے گیا۔
’جان سے جانے والے پولیس اہلکار کی شناخت محمد عرفان کے نام سے ہوئی، جو پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور تھے۔ پولیس اہلکار کی لاش اور زخمی ویکسینیٹر کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔‘
طارق حبیب کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی بڑی نفری نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔‘
بنوں کے پولیس افسر محمد غلام نے بتایا کہ ضلعے میں پولیو پروگرام سے وابستہ محکمہ صحت کے اہلکار حیات اللہ خان پر نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت فائرنگ کی، جب وہ ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلے تھے۔
’انہیں ٹانگ میں گولی لگی اور ان کی حالت ٹھیک ہے۔‘
پولیس افسر نے بتایا: ’پولیس تحقیقات کر رہی ہیں کہ آیا یہ حملہ عسکریت پسندوں نے کیا یا اس کے پیچھے ذاتی دشمنی ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ مجرموں کو شناخت کر کے گرفتار کیا جائے۔
ان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ نے پولیس اہلکار کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا اور متاثرہ خاندان کو مکمل مالی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔‘
پاکستان میں اس سال وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی ون) پھر سے تیزی سے پھیلاؤ کا سامنا کر رہا ہے اور اب تک 63 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 26 بلوچستان، 18 خیبر پختونخوا، 17 سندھ اور ایک ایک کیس پنجاب اور اسلام آباد میں سامنے آئے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو پولیو ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا تھا، جو 22 دسمبر تک جاری رہے گی۔ اس مہم کے دوران پولیو ٹیمیں 143 اضلاع میں گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ویکسین پلائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم نے انسداد پولیو مہم کے آغاز پر کہا کہ ’پولیو ایک خطرناک بیماری ہے جو آپ کے بچوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ صرف دو قطرے (پولیو ویکسین کے) آپ کے بچوں کو ہمیشہ کی معذوری سے بچا سکتے ہیں۔ آئیں اور اپنا اور قوم کے بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاق اور تمام صوبے مل کر اس وبا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اجتماعی حکمت عملی اور کوششوں کے ذریعے اس بیماری کو ختم کریں گے۔ انہوں نے سخت موسم اور دشوار گزار علاقوں میں ویکسینیٹرز کی خدمات کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ آخری دو ممالک ہیں جہاں پولیو اب بھی وبائی شکل میں موجود ہے۔
پولیو کے خاتمے کی مہم نے زیادہ تر ممالک میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان میں بھی مہم کامیابی کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن کچھ مسائل بدستور موجود ہیں۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں ہر سال تقریباً 20 ہزار پولیو کیسز رپورٹ ہوتے تھے لیکن 2018 میں یہ تعداد کم ہو کر صرف آٹھ رہ گئی۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جب کہ 2023 میں چھ کیسز سامنے آئے۔
10 نومبر کو پاکستان کے چیف ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ گذشتہ ملک گیر ویکسینیشن مہم کے دوران تقریباً پانچ لاکھ بچے پولیو ویکسین سے محروم رہ گئے۔
پاکستان میں پولیو پروگرام کا آغاز 1994 میں ہوا لیکن وائرس کے خاتمے کی کوششیں ویکسین کے بارے میں غلط معلومات اور بعض مذہبی سخت گیر حلقوں کی مخالفت سے متاثر ہوئیں۔ ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ویکسینیشن مہم غیر ملکی سازش ہے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسند گروہ اکثر پولیو ٹیموں پر حملے کرتے ہیں اور ان کے ارکان کو جان سے مار دیتے ہیں۔