پولیو مہمات میں خرابیاں ہیں، حکام کا اعتراف

انسداد پولیو پروگرام کے مطابق پاکستان بھر سے اس سال اب تک 42 پولیو کیس سامنے آچکے ہیں۔

کراچی میں 14 مارچ، 2023 کو ریلوے سٹیشن پر ہیلتھ ورکر ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں اس سال پولیو کے کیسسز میں ماضی کی نسبت غیر معمولی اضافے کا ذمہ دار انسداد پولیو پروگرام کے اہلکار دیگر وجوہات کے علاوہ اپنی مہمات میں خرابیوں کو بھی قرار دیتے ہیں۔

انسداد پولیو پروگرام کے مطابق ملک بھر سے اس سال 42 پولیو کیس سامنے آچکے ہیں، جن میں سے 21 کا تعلق بلوچستان، 12 کا سندھ، سات خیبر پختونخوا جبکہ پنجاب اور اسلام آباد سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

پچھلے سال چھ، 2022 میں 20 اور 2021 میں ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) کے رابطہ کار کیپٹن (ر) محمد انوار الحق نے بتایا کہ انسداد پولیو مہم میں سکیورٹی ایک چیلنج ہے، لیکن سکیورٹی کے مسائل صرف دو چار فیصد علاقوں میں ہیں باقی مسائل آپریشن بیسڈ ہیں کہ بعض اوقات انسداد پولیو ٹیمیں علاقے میں پہنچ نہیں پاتیں۔

’کچھ جگہوں پر ٹیمیں جاتی ہیں لیکن ان میں کچھ کالی بھیڑیں قطرے نہیں پلاتیں اور بچوں کی انگلی پر کالا نشان لگا دیتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ جگہوں پر امن و امان کی صورت حال درپیش ہے جس کی وجہ سے مہم چل نہیں پاتی، جب مہم نہیں ہوتی تو بچے وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔

’اس کے علاوہ وہ سفر بھی کرتے ہیں جس سے وائرس دیگر جگہوں تک پھیل جاتا ہے۔‘

انوار الحق کا کہنا تھا کہ پولیو کے پھیلاؤ میں ایک عنصر ہمسایہ ملک افغانستان سے آمد و رفت بھی ہے۔

’وہاں سے وائرس ادھر آتا ہے اور ہمارے ہاں سے ادھر جاتا ہے، کیونکہ ایک ہی بلاک ہے، لوگوں کی آمد و رفت ہے۔۔۔۔اس لیے میرے خیال میں دونوں ملکوں کو سنکرونائزڈ مہم کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا وہاں مہم گھر گھر جا کر نہیں ہو رہی بلکہ کسی مخصوص جگہ کی جاتی ہے۔

’ہم البتہ گھر گھر جا کر بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں۔ اس لیے یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ جب تک دونوں ممالک ایک سنکرونائزڈ مہم نہیں چلائیں گے مسئلہ وہیں رہے گا۔‘

انوار الحق کا کہنا تھا کہ اگر پولیو مہم کے دوران بچوں کی غلط مارکنگ ہو رہی ہو گی تو ظاہر ہے وائرس ختم نہیں ہو گا۔

این ای او سی سندھ کی ترجمان ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ایک اور چیلنج یہ ہے کہ کچھ برادریاں خود ہی بچوں کی انگلیوں پر نشان لگا لیتی ہیں۔

’وہ انسداد پولیو ٹیمز کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں، انہیں معلومات فراہم نہیں کرتیں، دروازہ نہیں کھولتیں۔

’نہ بات کرتے ہیں، نہ بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں کتنے بچے ہیں اور وہ کہاں سے ویکسینیٹڈ ہیں کیونکہ ہم نگرانی بھی کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بچے کو ویکسین پلوا دی ہے لیکن کہاں سے پلوائی یہ نہیں بتاتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس جو ماحولیاتی نمونے آئے ہیں ان کا مزکز قندھار، افغانستان سے ملتا ہے۔

’سندھ میں ہمارے پاس بہت سی افغان برادریاں رہتی ہیں اور ان کی ویکسین کے خلاف کافی مزاحمت دیکھنے کو ملتی ہے۔‘

پاکستان پولیو اریڈیکیشن پروگرام کے ترجمان ضیا الرحمان کے مطابق 2021 اور 22 میں پولیو کیسسز میں کمی اس لیے بھی دیکھی گئی کیونکہ اس دوران کووڈ 19 چل رہا تھا اور ہمسایہ ملک سے آمد و رفت پر پاندیاں عائد تھیں۔

’رواں برس اچانک کیسسز سامنے آنے کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کراچی میں پولیو وائرس تھا تو وہاں سے لوگ کے پی، بلوچستان اور باقی علاقوں میں بھی جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا 'سکیورٹی کے چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں جیسے جنوبی خیبر پختونخوا اور وزیرستان کے علاقے جہاں سکیورٹی یا پولیو کارکنوں کے خلاف تشدد کی وجہ سے وہاں مہم نہیں ہو پاتی یا رک جاتی ہیں جس سے نقصان ہوتا ہے اور وائرس دوبارہ سے سر اٹھا لیتا ہے۔‘

ضیا الرحمان کے مطابق ایک اور بڑا چیلنج بائیکاٹ کا بھی ہے جو خاص طور پر جنوبی کے پی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں زیادہ ہے۔

’بائیکاٹ یہ ہوتا ہے کہ جب کمیونٹی دیکھتی ہے کہ پولیو مہم پر حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے تو وہ اپنے کچھ مطالبات لے کر سامنے آجاتے ہیں، جیسے انہیں سڑک چاہیے، بجلی چاہیے یا علاقے میں پانی کا مسئلہ ہے۔

’ان مسائل کو حل کروانے کے لیے وہ سمجھتے ہیں کہ مہم کا بائیکاٹ کرنے سے حکومت ان کے ساتھ مزاکرات کرے گی اور ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے مطالبات مانے جائیں گے تو وہ انسداد پولیو مہم چلانے میں تعاون کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ صفائی کا ناقص نظام، بچوں میں غذائی قلت اور دیگر بیماریاں بھی موجود ہیں، کیونکہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہوتے جس کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پولیو پروگرام کی نگرانی کا نیٹ ورک کافی پھیلا ہوا ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں ملک بھر کے سیورج سسٹم کا بہتر آئیڈیا ہوتا ہے اور جہاں جہاں نمونے مثبت آتے ہیں وہاں مہم کو تیز کر دیا جاتا ہے۔

’رواں برس ہمارے پاس 400 نمونے مثبت آئے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور پولیو وائرس کے کیسسز بھی اسی حساب سے آرہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کے موسم میں وائرس کم پھیلتا ہے اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ کیسسز میں کمی ہو گی، لیکن سرویلنس کے دروان چونکہ نمونے مثبت آرہے ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ کیسسز میں کچھ اور اضافہ ہو سکتا ہے۔

انوار الحق کا کہنا تھا: ’ہم نے وزیر اعظم پاکستان کو بھی جب بریفنگ دی تو انہیں بتایا کہ ہم 2، 4، 6 کی حکمت عملی اپنانے جا رہے ہیں جس میں دو مہینے کے لیے ہم کوئی مہم نہیں کریں گے بلکہ پروگرام کا جائزہ لیں گے کہ اس میں کیا مسائل ہیں۔

’چار ماہ میں ہم تین مہمات چلائیں گے جس میں سے ایک مہم ہم ستمبر میں چلا چکے ہیں۔ دوسری 28 اکتوبر سے تین نومبر تک جاری ہے۔ اس کے بعد ہم تیسری مہم اچھے طریقے سے کر لیتے ہیں تو امید ہے کہ ہم اس وائرس میں مداخلت کر پائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پولیو کے خاتمے کا تعلق ہے تو وہ تب ممکن ہے جب کوئی ملک کم از کم دو سال تک پولیو سے پاک رہے اور وہاں سے کوئی کیس سامنے نہ آئے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پیر کو حکومت کے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں متحدہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے پولیو کے خاتمے کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ’جب تک ہم پولیو کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ نہیں کر لیتے، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

2,4,6 کی حکمت عملی کیا ہے؟

اس حوالے سے این ای او سی کی سندھ کی ترجمان ڈاکٹر شمائلہ رسول نے بتایا: ’2, 4, 6 سٹریٹجی ہم نے جولائی سے شروع کی تھی جس میں دو کا مطلب ہے کہ دو مہینے ہم نے پروگرام ری سیٹ کرنا تھا جس میں ہم نے احتساب کیا اور عملے کی قابلیت جانچی۔

’جہاں عملہ اچھی کارکردگی دکھا رہا تھا انہیں زیادہ مشکل علاقوں میں بھیجا جہاں کارکردگی ٹھیک نہیں تھی یا وہ ڈیٹا میں ہیر پھیر کر رہے تھے وہاں ہم نے سخت کارروائی کی اور کچھ لوگوں کو فارغ بھی کیا۔

’کچھ کو تنبیہ کی اور جہاں انگلی پر جھوٹے نشان لگانے کے کیس تھے وہاں ہماری صفر برداشت تھی وہ لوگ ہم نے نوکری سے نکال دیے۔‘

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’چار کا مطلب ہے کہ ہم نے چار  معیاری مہمات چلانی ہیں جن میں سے ایک ہم کر چکے ہیں، دوسری چل رہی ہے۔ اس کے بعد دو اور مہمات ہمیں اسی سال کرنی ہیں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ بچوں تک پہنچیں۔

’چھ کا مطلب ہے کہ ہم نے چھ مہینے کا ہدف مقرر کیا ہے کہ ہم نے چھ ماہ میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو جو گذشتہ برس سے چل رہا ہے کو روکنا ہے اور بچوں کو بچانا ہے۔‘

انسداد پولیو ویکسین کتنی موثر؟

ویکسین کے حوالے سے انوار الحق کا کہنا تھا کہ ویکسین میں کوئی خرابی نہیں اس نے تو وائرس کے خلاف قوت مدافوت پیدا کرنی ہے مسئلہ ان بچوں کا ہے جو ویکسین پی ہی نہیں رہے۔

’ہم جب تک 90 سے 95 فیصد بچوں کو ویکسین نہ پلا دیں تب تک وائرس کو روکنے میں مسائل آتے رہیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انوار الحق کے مطابق کچھ ایسے علاقے، جو پولیو وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے حساس قرار دیے گئے ہیں، ان میں کوئٹہ بلاک ہے جس میں چار اضلاع شامل ہیں اس کے بعد پشاور بلاک ہے، کراچی ہے اور جنوبی خیبر پختونخوا وغیرہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔

انوار الحق کا کہنا تھا: ’لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انسداد پولیو ویکسین 1994 سے پلائی جارہی ہے۔ ویکسین کے حوالے سے جو لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ 30سال میں ایسا کچھ نہیں ہوا جس کو بنیاد بنا کر ویکسین کو متنازع کہا جاتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ رواں برس جن بچوں میں پولیو وائرس مثبت آیا ان میں سے چار بچے اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں جن میں سے تین کا تعلق بلوچستان جبکہ ایک سندھ سے تھا۔

ویکسین کے حوالے سے ڈاکٹر شمائلہ کا کہنا تھا کہ ’یہی ویکسین پوری دنیا نے استعمال کی اور پولیو کا خاتمہ کیا۔

’ہمارے پاس پاپولیشن موومنٹ انفلکس بھی ہے وہ بھی وائرس کیری کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں میں ابھی تک خدشے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے روٹین کی ویکسینیشن کروا لی تو ہم ایڈیشنل ڈوز کیوں لیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ماحولیاتی نمونے مثبت آرہے ہوں تو ہم ان علاقوں میں سپلیمنٹری امیونائزیشن مہم چلاتے ہیں اس پر لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ یک طرفہ نہیں دوطرفہ حکمت عملی ہے جس میں ہمیں برادریوں کا تعاون چاہیے۔

’ہم نے مہم شروع کرنے سے پہلے 16 ہزار کمینوٹی سیشنز کیے اور ان کمیونٹیز کے ساتھ کیے جہاں سے ہمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کے مطابق ویکسین کی کولڈ چین کو بھی مکمل طور پر برقرار رکھا جاتا ہے کیونکہ انسداد پولیو پروگرام میں بین القوامی ادارے بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہیں اس لیے ویکسین کی کولڈ چین کو برقرار رکھنا اور دیگر لوازمات پوے کرنا لازمی ہوتا ہے۔

 عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اب صرف پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس سے نجات حاصل نہیں کی جا سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت