اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کے ساتھ ایک تاریخی قصبہ کھیڑی مورت ہے۔ کبھی یہ پنجاب کے دیومالائی ہیرو راجہ رسالو کا پایۂ تخت تھا۔ راولپنڈی اسلام آباد دریائے سواں کے کناروں پر آباد ہیں۔
سواں کی وادی کے تاریخی شواہد ہمیں پتھر کے دور تک لے جاتے ہیں۔ یہ عرصہ 30 لاکھ سال سے 2 لاکھ سال کے درمیان کا ہے۔ جین مت کے قدیم نسخوں میں ہزاروں سال پہلے ایک شہر ’اُچا نگر‘ کا تذکرہ ملتا ہے جو عین اس جگہ آباد تھا جہاں آج راولپنڈی اسلام آباد واقع ہیں۔
اُچا نگر جین مت کے بھگوان رشبھا کے بیٹے باہو بلی کا پایۂ تخت تھا۔ یہ شہر تاریخ میں دفن ہے اور ممکن ہی کسی روز کہیں سے برآمد ہو جائے۔ پھر ہندوستان کی تاریخ کا ایک اور ہیرو چندر گپت موریہ بھی یہیں سے اٹھا۔
چندر گپت کے بعد راجہ رسالو ایک ایسا حکمران گزرا ہے جس کی حکومت دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیانی علاقہ میں تھی۔ وہ چندر گپت جیسی وسیع سلطنت تو قائم نہیں کر سکا مگر جتنی دیومالائی کہانیاں اس حکمران سے وابستہ ہیں، اتنی پنجاب کے کسی دوسرے حکمران کے حصے میں نہیں آئیں۔
سیالکوٹ کا راجہ جو گھر سے بھاگ کر پوٹھوہار آ گیا
ہربھجن سنگھ کی کتاب ’قصۂ پنجاب‘ جسے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے 1978 میں چھاپا تھا۔ اس میں راجہ رسالو پر ایک مفصل مضمون دیا گیا ہے۔ راجہ رسالو سے موسوم لوک کہانیوں کو ایک اور کتاب بہت تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے جسے REV. Charles Swynnerton نے 1884 میں “The Adventures of the Punjab Hero Raja Rasalu” کے نام سے شائع کیا تھا۔
راجہ رسالو کا عہد پہلی صدی قبل مسیح کا ہے یا پہلی سے دوسری صدی عیسوی کا۔ اس حوالے سے تاریخ میں کوئی مستند معلومات میسر نہیں ہیں۔ تاہم کہانی یہ ہے کہ سیالکوٹ کے راجہ سلوان کی دو بیویاں اور اکلوتا بیٹا پورن تھا۔
لیکن کرنا کیا ہوا کہ راجہ کی دوسری بیوی اور پورن کی سوتیلی ماں لوناں نے اس پر بدکاری کا الزام لگا دیا جس پر راجہ سالوان نے اپنے سگے بیٹے کو کنویں میں پھینکوا دیا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ مر گیا ہو گا۔
کچھ عرصے بعد مشہور ہو گیا کہ کنویں پر ایک ایسا جوگی آن بسا ہے جس سے ملنے کے لیے لوگ جوق در جوق آ رہے ہیں۔ پورن کی ماں رانی اچھراں اور سوتیلی ماں لوناں دونوں بھی جوگی سے ملنے پہنچیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ وہ جوگی کوئی اور نہیں بلکہ ان کا بیٹا اپورن ہی ہے۔
پورن کو جوگی کے روپ میں دیکھ کر رانی لوناں نے راجہ سلوان کے سامنے تسلیم کیا کہ اس نے راج کمار پر جو الزام لگایا تھا وہ جھوٹا تھا اسے معاف کیا جائے۔ سب نے پورن کو واپس اپنے محل چلنے کو کہا مگر پورن نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے اور آپ کے راستے ملتے نہیں ہیں۔
اس نے کہا کہ راجہ کا ایک اور بیٹا پیدا ہو گا لیکن جب وہ بڑا ہوگا تو وہ بھی شہر چھوڑ کر چلا جائے گا۔ یہ بتا کر پورن اٹھا اور ٹلہ جوگیاں پہنچ گیا۔ تاریخ میں وہ پورن بھگت کے نام سے مشہور ہوا۔
سیالکوٹ میں پورن بھگت سے موسوم یہ کنواں آج بھی موجود ہے جہاں بے اولاد جوڑے جا کر مرادیں مانگتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا اور پورن بھگت کی پیش گوئی کے مطابق راجہ سلوان کے ہاں رانی لوناں سے دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ 12 سال تک تہہ خانے میں رکھ کر اس کی تربیت کی گئی۔ جب وہ باہر آیا تو رعایا نے راجہ سے اس کی شکایتیں شروع کر دیں۔
وہ اپنی غلیل سے ان عورتوں کے گھڑوں کے نشانے لیتا جو قریبی کنویں پر پانی بھرنے آتی تھیں۔ راجہ نے اس کی ماں لوناں کو کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھائے مگر ماں کو معلوم تھا کہ پورن بھگت نے کہہ رکھا ہے کہ وہ گھر سے چلا جائے گا اس ڈر سے اس نے بیٹے کو کچھ کہنے کی بجائے عورتوں کو مٹی کے گھڑوں کی جگہ پیتل کے گھڑے لے دیے۔
جس کے بعد راجہ رسالو نے غلیل کی جگہ تیر کمان سے گھڑوں کے نشانے لینے شروع کر دیے۔ اب لوگ راجہ سلوان کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو راجہ پھنس گیا کہ وہ شہزادے کے بارے میں کیا کرے۔
کچھ کہے تو شہزادہ ناراض ہو جائے گا اور خاموش رہے تو رعایا بد دل ہو جائے گی۔ راجہ نے راجہ رسالو کا بت بنایا اور اس کا منہ کالا کر کے محل کے باہر لگوا دیا۔ جب راجہ رسالو نے یہ دیکھا تو وہ گھر سے ناراض ہو کر اپنے قریبی دوستوں کو لے کر سیالکوٹ سے گجرات کی طرف نکل آیا۔
جہاں کے راجہ نے کہا کہ جہلم اور اس سے آگے کا علاقہ کبھی تمہارے باپ کے پاس تھا جاؤ اور اپنے باپ کی جاگیر واگزار کراؤ۔ جس پر راجہ رسالو نے پہلے جہلم فتح کیا اور پھر راولپنڈی کی طرف آ نکلا۔ ادھر سیالکوٹ میں راجہ رسالو کے پیچھے اس کے ماں باپ بہت پریشان تھے۔
ریاست کا کوئی والی وارث نہیں تھا ایک وارث بھگت بن گیا اور دوسرا گھر سے باغی ہو گیا۔ راجہ رسالو کو کسی ضروری کام کے واسطے سیالکوٹ بلوایا گیا تاکہ اس کی شادی کر دی جائے۔ شاید اسی بہانے وہ ٹک جائے۔
بچپن میں جس وزیر کی بیٹی سے اس کا رشتہ طے کیا گیا تھا اسے اطلاع کر دی گئی۔ جب راجہ رسالو نے پھیرے لگاتے ہوئے لڑکی کو دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی لڑکی ہے جس نے کل کنویں پر اسے بالوں کا طنہ دیا تھا اور راجہ رسالو نے اسے کہا تھا کہ یا تو اپنا طعنہ واپس لو ورنہ میں تمہاری شادی نہیں ہونے دوں گا۔
اسی وقت راجہ رسالو نے اپنی تلوار نکالی اور اپنی چادر سے بندھا اس کا پلو کاٹ ڈالا۔ وہ اپنے فولادی گھوڑے پر سوار ہوا اور ہوا بن کر غائب ہو گیا۔
راجہ رسالو، پوٹھوہار کا دیومالائی کردار
راجہ رسالو ایک گھنے جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ چندن کے درخت کو آگ لگی ہوئی ہے۔ جب راجہ رسالو درخت کے قریب گیا تو ایک ادھ جلے ہوئے پروں والا ہنس کا جوڑا پھڑ پھڑا کر اس کی جھولی میں آن گرا۔
راجہ رسالو کو حیرت ہوئی کہ جب درخت کو آگ لگ چکی تھی تو یہ اڑا کیوں نہیں۔ شاید اس نے درخت کے ساتھ اپنے تعلق کو نبھایا ہے۔ راجہ رسالو نے درخت کی آگ بجھائی تو ہنس کا جوڑا واپس اڑ کر درخت پر بیٹھ گیا۔
راجہ رسالو کو آگے جا کر جنگل میں ایک سانپ ملا جس کی آنکھ میں کنکر پھنسا ہوا تھا۔ اس نے سانپ کی آنکھ سے کنکر نکالا تو وہ بہت شکر گزار ہوا اور راجہ کو رات اپنے ساتھ غار میں ہی قیام کرنے کی دعوت دے دی۔
پھر وہ آگے گیا تو اسے ایک بڑھیا ملی جو رو رہی تھی۔ راجہ رسالو نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کے سات بیٹے تھے۔ چھ دیو کھا چکا ہے اور آج ساتویں کی باری ہے۔ راجہ رسالو نے بڑھیا کو کہا رو نہیں آج دیو کے پاس تمہارے بیٹے کی جگہ میں جاؤں گا۔
راجہ رسالو نے دیو اور اس کے خاندان کو اپنی تلوار سے کاٹ ڈالا۔ جس پر پورے علاقے میں راجہ رسالو کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ جگہ بعض قصوں میں منکیالہ نزد روات، بعض میں نیلا چکوال اور کچھ میں کھیڑی مورت بیان کی گئی ہے۔
اس کے بعد راجہ رسالو نے ٹیکسلا کا رخ کیا جہاں اس نے راجہ سرکپ کو چوپٹ کے کھیل میں مات دے دی۔ راجہ سرکپ نے چوپٹ یہ کہہ کر سجائی تھی جو اسے مات دے گا اس سے راج کماری کی شادی کی جائے گی اور جو ہار جائے گا اس کا سر کاٹ دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کھیل میں اب تک کئی جوان شہزادے اپنی زندگیاں ہار چکے تھے۔ جب راجہ رسالو نے راجہ سرکپ کو چوپٹ میں مات دے دی تو راجہ کو معلوم ہو گیا کہ اس کا سر کٹنے کی باری آ گئی ہے۔ عین اسی لمحے اس کا نوکر محل سے خبر لایا کہ راجہ سرکپ کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔
راجہ سرکپ نے کہا کہ یہ منحوس لمحہ ہے اس لیے راج کماری کی گردن اڑا دی جائے۔ جس پر راجہ رسالو نے کہا کہ جو راجہ اپنا سر ہار چکا ہو اسے دوسروں کا سر اڑانے کا اختیار نہیں ہے۔
راجہ رسالو راجہ سرکپ کی بہن کو جیت چکا تھا مگر اسے شادی میں دلچسپی نہ تھی۔ اس نے یہ کہہ کر نومولود رانی کوکلاں کو گود لے لیا کہ جب تک کوکلاں بڑی ہو گی وہ اس سے شادی کا انتظار کرے گا۔ جس کا ایک مقصد خود کو کسی بھی بندھن سے لمبےعرصے تک آزاد رکھنا تھا۔
رانی کوکلاں کی بد عہدی کے بعد راجہ رسالو سیالکوٹ چلا گیا
راجہ رسالو راجہ سرکپ کو شکست دے کر جب ٹیکسلا سے نکلا تو اس نے کھیڑی مورت میں اپنے لیے ایک شاندار محل تعمیر کروایا جس کے صحن میں آم کا ایک درخت لگایا اور کہا کہ جب یہ درخت پھل دینے لگے گا تب وہ رانی کوکلاں سے شادی کرے گا۔
بض روایات میں یہ محل دریائے سندھ کے کنارے پر تھا اور بعض میں ہزارہ میں گندگر کے پہاڑ کے اوپر تھا۔ بہرحال رانی کوکلاں جواں ہو گئی مگر اسے راجہ رسالو میں اور راجہ رسالو کو اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
راجہ ایک دن شکار کو گیا ہوا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی اور راجہ شکار کھیلتا ہوا اس کے محل میں چلا گیا جس سے رانی کوکلاں نے تعلق بنا لیا۔ یہ راجہ ہوڈی تھا جو اٹک پار کے علاقے کا حکمران تھا۔
جب بھی راجہ رسالو گھر سے نکلتا راجہ ہوڈی پہنچ جاتا۔ ایک دن راجہ رسالو نے دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور راجہ ہوڈی کو مار دیا۔ یہ منظر دیکھ کر رانی کوکلاں نے محل کے اوپر سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔
اس واقعے کے بعد راجہ رسالو اپنے شہر سیالکوٹ واپس لوٹ گیا۔ مگر تاریخ میں رانی کوکلاں کی راجہ رسالو سے کئی گئی بد عہدی قصے کہانیوں کی زینت بن گئی۔