ٹیکسلا کی لوک کہانیاں جو دو ہزار سال بعد بھی زندہ ہیں

راجہ رسالہ، سرکپ، شہزادہ کونال، گوتم بدھ، سینٹ ٹامس۔ ٹیکسلا سے منسوب کہانیاں جو آج بھی پنجاب میں معروف ہیں۔

ٹیکسلا میں واقع دھرم راجہ سٹوپا (Sasha Isachenko - CC BY-SA 3.0)
 

ٹیکسلا کس نے بسایا، یہ سوال حل طلب ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر سر جان مارشل تقریباً سو سال پہلے ٹیکسلا کی کھدائیاں نہ کرتے اور یہاں سے وہ کتبہ دریافت نہ کرتے جس پر شہر کا نام ٹیکسلا لکھا ہوا تھا توہم آج بھی اس شہر کو شاہ ڈھیری ہی پکار رہے ہوتے جو ٹیکسلا کے سادات سے موسوم ہے۔

1880 میں جب راولپنڈی سے ایک ریلوے لائن پشاور اور دوسری حویلیاں تک بچھائی گئی تب اس ریلوے جنکشن کا نام شاہ ڈھیری ہی تھا۔

ٹیکسلا سے سوات، مردان اور پشاور تک گندھارا میں نجانے کتنے ہی ایسے شہر ہیں جو ابھی تک مٹی کے نیچے دفن ہیں اور کسی سر جان مارشل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ جو چار شہر سر جان مارشل نے یہاں دریافت کیے تھے سرکپ ان میں سے ایک ہے۔ ہتھیال، بھڑ ماؤنڈ اور سرکھ اس کے علاوہ ہیں۔ ’سرکپ‘ کٹے ہوئے سر سے موسوم ہے جسے دوسری صدی قبل مسیح میں یونانی باختریوں نے آباد کیا تھا جو اگلی تین صدیوں تک یونانیوں، ساکاؤں، پارتھیوں اور کشانوں کا پائہ تخت رہا۔

شطرنج کے نمونے پر دیواروں کے اندر بسائے گئے اس شہر کی لمبائی 5.6 کلومیٹر اور چوڑائی کہیں 4.5 اور کہیں 6.4 کلومیٹر ہے۔ یونانی باختریوں نے اس شہر کو کس نام سے پکارا ہو گا یہ تو معلوم نہیں لیکن بدھ مت کی روایات میں اسے سرکپ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس مقام پر بدھ ستوا نے پہلے جنم میں اپنے سر کی قربانی دی تھی۔

سرکپ سے چار کہانیاں منسوب ہیں جو آج بھی نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہی ہیں۔ سرکپ کھنڈر بن چکا ہے اس کے باسیوں کی ہڈیاں بھی مٹی بن چکی ہیں مگر اس کے کردار آج بھی لوک کہانیوں اور مذہبی روایات کا جیتا جاگتا حصہ ہیں۔ مذہبی سیاحت کے فروغ میں صرف مقامات ہی اہم نہیں ہوتے بلکہ ان سے جڑی یہ کہانیاں بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہیں ان کو اگر تھیٹرز میں پیش کیا جائے تو ملکی اور عالمی سیاحوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔

جب بدھ نے اپنا جسم شیروں کو دان کیا

گوتم بدھ سے منسوب جاتک کہانیوں میں سے ایک کہانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے عین اسی جگہ جنم لیا تھا جہاں سرکپ بسایا گیا۔ یہ اس سرکپ سے بہت پہلے کی بات ہے جسے یونانیوں نے بسایا تھا۔

کہانی کے مطابق ہزاروں سال پہلے یہاں ایک گھنا جنگل تھا۔ بدھ کا پہلا جنم اسی علاقے میں ہوا تھا وہ یہاں کے بادشاہ کا بیٹا تھا جس کا نام شاکیہ منی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں گیان دھیان میں مصروف تھا کہ اس کی نظر شیر اور اس کے سات بچوں پر پڑی جو شدید بھوک کی وجہ سے اتنے لاغر ہو چکے تھے کہ ان کی ہڈیاں بھی باہر نکل آئی تھیں۔

قریب تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر جاتے۔ شہزادے کی نظر جب شیر کے ان بھوکے بچوں پر پڑی تو اس نے انہیں بچانے کے لیے اپنے جسم کا گوشت کھلانے کا فیصلہ کیا۔ شہزادہ شیر کے بچوں کے پا س چلا گیا اور خود کو بطور خوراک پیش کر دیا۔ اس طرح شہزادے نے شیر کے بچوں کو مرنے سے بچا لیا۔

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی چاہے کسی جانور کی ہی کیوں نہ ہو اسے بچانا کتنا افضل ہے۔ شہزادے کو اس کا بدلہ شیروں سے نہیں بلکہ خدا سے ملنا تھا۔ بدھ مت میں اسے ’دان‘ یعنی عظیم قربانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جاپان کے بدھوں نے اس کہانی کی پینٹنگز بنائیں جنہیں آج جاپان میں قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔

شہزادہ کونال کی کہانی

سرکپ کا شہر دو حصوں میں پھیلا ہوا ہے ایک بالائی حصہ ہے جہاں امرا رہتے تھے اور دوسرا نچلا حصہ جہاں عام لوگ۔

سرکپ میں پہاڑی پر واقع راج کونال سے منسوب ایک سٹوپا بھی ہے جس کے پیچھے ایک مشہور کہانی ہے۔ اس کہانی کو مشہور چینی سیاح ہیون تسانگ نے بھی اپنے سفرنامے میں رقم کیا ہے جو 626 میں ٹیکسلا آیا تھا۔ یہ کہانی اشوک کے بیٹے راج کونال سے متعلق ہے جو بندو سار کا پوتا اور موریہ سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ کا پڑپوتا تھا۔

کونال اشوک کی پہلی بیوی سے تھا جس پر اس کی سوتیلی ماں فریفتہ ہو گئی۔ کونال خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنی رحم دلی کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔ ایک روز اس کی سوتیلی ماں تشتیار کشٹیا نے اسے اکیلا پا کر اسے برائی پر اکسانا چاہا مگر اسے کامیابی نہیں ملی تو اس نے شہزادے سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔

اس نے اپنے شوہر اشوک سے کہا کہ ’ٹیکسلا ہماری راجدھانی کا سب سے اہم مقام ہے کیوں ناں ہم راج کونال کو وہاں کا گورنر لگا کر بھیج دیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ اس نے راج کونال کو بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی چند نصیحتیں بھی کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب کبھی تمہیں میرا کوئی حکم نامہ ملے تو پہلے اس کی تصدیق میرے دانتوں کی مہر سے کرنا کیونکہ اس کی نقل کوئی نہیں اتار سکتا۔

ایک دن بادشاہ سویا ہوا تھا کہ ملکہ نے ایک جعلی حکم نامہ تحریر کر کے بادشاہ کے دانتوں کی مہر اس پر ثبت کر دی اور قاصد کو دے کر ٹیکسلا روانہ کر دیا۔ جب کونال نے یہ حکم نامہ کھولا تو اس پر تحریر تھا کہ بادشاہ نے ناقص کارکردگی کی وجہ سے تمہاری دونوں آنکھیں نکالنے کا حکم دیا ہے۔

شہزادے کو اس کے درباریوں نے کہا کہ اس پر عمل درآمد سے پہلے اس کی تصدیق ضروری ہے مگر شہزادے نے کہا کہ اس پر اس کے باپ کے دانتوں کی مہر ثبت ہے اس لیے یہ جعلی نہیں ہو سکتا۔

چنانچہ اس نے کہا کہ ا س کی دونوں آنکھیں نکال دی جائیں۔ آنکھیں نکالنے کے بعد شہزادے اور اس کی بیوی کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ وہ قریہ قریہ گھومتے اور بھیک مانگتے مانگتے ایک دن اس شہر جا پہنچے جہاں اشوک کا پایۂ تخت تھا۔ شہزادہ سوزو گداز سے بھیک مانگا کرتا تھا۔

ایک رات بادشاہ سویا ہوا تھا کہ اس کے کان میں ایک ایسی آواز پڑی جو اسے بہت مانوس لگی۔ اس نے اپنے دربانوں کو بلا کر بھکاری کو طلب کیا اور جب اسے دیکھا تو بادشاہ کے قدموں سے زمین ہی نکل گئی۔

اس کے سامنے اس کا بیٹا راج کونال کھڑا تھا۔ بادشاہ حیران ہوا کہ ا پنی بادشاہی میں وہ اپنے بیٹے کے حال سے بھی بےخبر ہے۔ اس نے سارا ماجرا سنا اور اپنی ملکہ کو پھانسی دے دی۔ ساتھ ہی اس نے شہزادے کی بینائی بحال کرانے کے لیے جتن بھی شروع کر دیے۔

وہ شہزادے کو لے کر آشوا گھوشا نامی ایک بھکشو کے پا س گیا اور اس سے دعا کی گزارش کی جس سے شہزادے کی بینائی بحال ہو گئی۔ راج کونال کے نام سے یہ سٹوپا اشوک نے سرکپ میں بنوایا جہاں لوگ آنکھوں کی بیماریوں سے نجات پانے کے لیے آتے تھے۔

ہزاروں سال بعد آج بھی ٹیکسلا میں آنکھوں کا ایک مشہور ہسپتال ہے جہاں ملک بھر سے لوگ علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔ کونال کا سٹوپا آج ویران ہے مگر بجھتی آنکھوں سے روشنائی ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سینٹ ٹامس اور گونڈو فارس کی کہانی

سرکپ کا ایک حکمران گونڈو فارس گزرا ہے جو اپنے لیے ایک شاندار محل تعمیر کروانا چاہتا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ بیت المقدس میں نہایت عالیشان عمارتیں ہیں۔ اس نے بیت المقدس سے ماہر تعمیرات بلوانے کا فیصلہ کیا۔

بعض روایات کے مطابق گونڈو فارس کا جو ایلچی بیت المقدس گیا وہ حضرت عیسیٰ سے ملا اور اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے خود ہی اس کام کے لیے سینٹ ٹامس کو تجویز کیا۔

اسی بارے میں: اسرائیل سے سندھ کی کپاس ملنا اور سینٹ تھامس کی ٹیکسلا آمد، معاملہ کیا ہے؟

سینٹ ٹامس جب ٹیکسلا پہنچے تو انہیں محل کی تعمیر کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا کہ بادشاہ ایک ایسا محل بنوانا چاہتے ہیں جس کی کوئی مثال پہلے کہیں نہ ہو۔ سینٹ ٹامس نے بادشاہ سے پیشگی معاوضے کے طور پر ایک خطیر رقم کا مطالبہ کیا جو بادشاہ نے منظور کر لیا۔ سینٹ ٹامس نے یہ رقم بادشاہ کے محل کے باہر موجود بھکاریوں میں تقسیم کر دی۔ جب بادشاہ کو علم ہو اتو وہ سخت ناراض ہوا۔ اس نے سینٹ ٹامس کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔

رات کو بادشاہ نے خواب دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت محل ہے جس کے باہر دربان کھڑے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ یہ محل کس کا ہے تو بتایا گیا کہ یہ گونڈو فارس کا جنت میں محل ہے جسے سینٹ ٹامس نے بنایا ہے۔ صبح اٹھتے ہی گونڈو فارس نے سینٹ ٹامس کو رہا کر دیا اور ا ن سے مذہبی اعتقادات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ روایت ہے کہ گونڈو فارس نے سینٹ ٹامس کے ہاتھ پر مسیحیت قبول کر لی تھی۔

راجہ رسالو نے جب سرکپ کو مات دی

راجہ سرکپ شہر کا حکمران تھا۔ وہ چوپٹ نامی بورڈ گیم کا ماہر کھلاڑی تھا۔ اس زمانے میں شہزادیوں کی شادی کے لیے ایک رسم سویمبر منعقد کی جاتی تھی یعنی جو اس میں کامیاب ہو جاتا شہزادی اسی کی ہو جاتی۔

راجہ سرکپ نے اعلان کیا کہ جو اسے چوپٹ پر مات دے گا اس کی بہن رانی کو کلاں کی شادی اسی سے کی جائے گی لیکن جو ہار جائے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ کئی لوگ شہزادی کوکلاں سے شادی کرنے کے چکر میں آئے اور اپنا سر کٹو ا کر چلے۔ یہ نہیں تھا کہ سرکپ چوپٹ کے کھیل میں بڑ ا ماہر کھلاڑی تھا بلکہ وہ ایسی جعل سازی کرتا تھا کہ مدمقابل کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اسے مات ہو جاتی تھی۔

راجہ رسالو جس کا پایۂ تخت کھیڑی مورت کا علاقہ تھا جہاں وہ اپنی بہادری اور دیو مالائی طاقت کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے راجہ سرکپ کے مدِمقابل آنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی کھیل شروع ہوا۔ راجہ رسالو کی نظریں کھیل سے زیادہ راجہ سرکپ پر مرکوز ہو گئیں۔ راجہ سرکپ کو اپنی شیطانی چال چلنے کا موقع نہیں مل سکا بالآخر وہ راجہ رسالو سے ہار گیا۔ راجہ رسالو نے اس کی بہن کوکلاں سے شادی کر لی اور سرکپ کی جاں بخشی بھی کر دی۔

سرکپ شہر میں جنم لینے والی یہ کہانیاں پنجاب کی ان لوک کہانیوں میں شمار ہوتی ہیں جو نسل در نسل سے چلی آ رہی ہیں۔ سینٹ ٹامس کی اس کہانی پر انگریز دور میں تھیئٹر بھی سجائے جاتے تھے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ٹیکسلا میں لوک تھیئٹر کی بنیاد ڈالی جائے جہاں کم از کم ویک اینڈ پر یہ کہانیاں تھیئٹروں میں پیش کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے پنجاب آرٹس کونسل ٹیکسلا میں قائم کی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ٹیکسلا میں سیر سیاحت کو فروغ ملے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ