خوشاب سے راولپنڈی: بہتر زندگی کی تلاش یا نیا امتحان؟

بہتر مستقبل کی آس میں خوشاب سے راولپنڈی منتقل ہونے والے علی احمد کے خاندان کی روزمرہ جدوجہد کی تصویری کہانی

علی احمد خوشاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے پانچ سال قبل بہتر مستقبل کی آس میں اپنے خاندان کو لے کر راولپنڈی منتقل ہوئے (شائزہ نقوی)

خوشاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بسنے والا علی احمد کا خاندان آنکھوں میں ایک خواب لیے پانچ سال قبل راولپنڈی منتقل ہوا۔ وہ خواب تھا بہتر روزگار، معیاری تعلیم اور زندگی کی سہولیات، لیکن حقیقت ان کے اندازوں سے بالکل مختلف نکلی۔

یہ خاندان اب ایک ٹوٹی پھوٹی نامکمل عمارت میں رہائش پذیر ہے، جہاں نہ دروازے مکمل ہیں، نہ کھڑکیاں اور نہ ہی بنیادی سہولیات۔

علی احمد اور ان کی بیوی روزانہ مزدوری کر کے صرف اتنا کما پاتے ہیں کہ بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست کر سکیں۔

مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے اس فیصلے سے مطمئن ہیں، تو ان کا جواب حیران کر دینے والا تھا۔

انہوں نے کہا: ’یہاں کم از کم کام تو ہے، خوشاب میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ تعلیم کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، ہم کریں گے۔‘

یہ خاندان نو افراد پر مشتمل ہے۔ میاں بیوی، دو بیٹیاں، چار بیٹے اور ایک بھائی۔ وہ بہتر زندگی اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی امید لے کر شہر آئے تھے، لیکن یہاں انہیں صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ اپنا گھر، نہ مستحکم روزگار اور روزمرہ اخراجات پورے کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔

یہ خاندان نہ صرف مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، بلکہ انہیں مسلسل بےگھر ہونے کا بھی خوف لاحق ہے۔ مالک مکان کی دھمکیاں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔

خاندان کے سربراہ علی احمد تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے بچوں کو بہتر زندگی دینے کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئے۔ پانچ سال پہلے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اس امید کے ساتھ یہاں آئے تھے کہ شہر میں حالات کچھ بہتر ہوں گے، مگر حقیقت ان کی توقعات سے کہیں مختلف نکلی۔

اس خاندان کے مرد دو دو نوکریاں کرتے ہیں، تاکہ کسی طرح اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔ ان کا واحد مقصد اپنے بچوں کو تعلیم دینا ہے، تاکہ انہیں وہ مشکلات نہ سہنی پڑیں جو ان کے والدین نے برداشت کیں۔

علی احمد کے معصوم بچوں کے چہروں پر کئی سوالات ہیں—کیا ان کا مستقبل واقعی بہتر ہوگا؟ یا ان کے والدین کی جدوجہد بھی کسی بڑی تبدیلی کے بغیر ہی رہ جائے گی؟

بچپن کی معصومیت اپنی جگہ، لیکن حالات کی سختیوں نے اس ننھے وجود کے گرد ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

 ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ان کم سن بچوں کے مستقبل کے لیے ان کے والدین سب کچھ چھوڑ کر یہاں آئے۔ مگر آج، ان کا حال ہی مستقبل کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ کیا واقعی ان کی زندگی بدل سکے گی، یا یہ صرف ایک خواب ہی رہے گا؟

ان کے معصوم بچپن کو غربت اور کسمپرسی نے گھیر رکھا ہے۔ جہاں دوسرے بچے پارکوں میں کھیلتے ہیں، وہیں انہوں نے مٹی اور کوڑے کے درمیان اپنی دنیا بسا رکھی ہے۔

روزمرہ کی جدوجہد میں مصروف علی احمد کی بیٹی اپنے گھر کے واحد کمرے میں آٹا گوندھ رہی ہے، جو رہنے، سونے اور کھانے پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس گھر کی عورتیں بھی زندگی کی جنگ میں برابر کی شریک ہیں۔ ان کے لیے سہولیات کا تو فقدان ہے، مگر ہمت اور حوصلہ اب بھی باقی ہے۔

چاہے زندہ رہنے کا حوصلہ ہو یا بہتر مستقبل کی امید—یہ سب اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خاندان ایک خستہ حال، کھلی عمارت میں بغیر دروازوں اور کھڑکیوں کے زندگی گزار رہا ہے۔ شدید موسم، سکیورٹی کے مسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی نے ان کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔

یہ صرف علی احمد کا ہی نہیں، بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کا قصہ ہے، جو بہتر مستقبل کی امید میں دیہات سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ دہائی میں پاکستان میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2024 میں جاری کی گئی ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی میں سالانہ بنیادوں پر 3.65 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور 2030 تک ملک میں شہری آبادی کا تناسب بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گا اور 10 کروڑ کے لگ بھگ لوگ شہروں میں آباد ہوں گے۔

دیہات میں روزگار، صحت اور تعلیمی سہولیات کی کمی لوگوں کو شہروں کی طرف دھکیل رہی ہے اور اندرونی نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شہروں میں منتقل ہونے والے افراد کو وہ سب کچھ مل پاتا ہے جس کی وہ توقع کرتے ہیں؟ شاید نہیں! حقیقت یہ ہے کہ شہری زندگی میں بھی مشکلات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، مثلاً رہائش کی قلت، کم اجرت اور روزمرہ اخراجات کا دباؤ۔

علی احمد جیسے ہزاروں خاندانوں کی کہانی یہی بتاتی ہے کہ یہ نقل مکانی محض ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں، بلکہ زندگی کی بقا کی مسلسل جدوجہد ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی