خان کا پورا نام گاؤں والوں کو بھی پتہ نہیں صرف خان کے نام سے ہی پورے گاؤں میں مشہور ہیں اور ان کا تعلق ضلع لوئر چترال کے گاؤں موری لشٹ کے غریب گھرانے سے ہے۔
ان کا ذریعہ معاش بکریاں پالنے کے علاوہ محنت مزدوری پر ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے واقعے پر مبنی ہے کہ جس میں چترال کے ایک گاؤں کے افراد نے برف پوش پہاڑوں پر پھنس جانے والے اپنے گاؤں کے فرد کو بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔
چترال زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے ان پہاڑوں میں لوگ بکریاں چراتے اور ایندھن کے لیے لکڑیاں کاٹ کر لاتے ہیں کیونکہ چترال میں گیس کی سہولت میسر نہیں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر۔
لوگ صبح سویرے مال مویشی چرانے یا لکڑیاں کاٹ کر لانے کی عرض سے پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور شام کو مال مویشی اور لکڑیاں لے کر گھروں کو لوٹتے ہیں۔
خان بھی 16 مارچ 2023 کو حسب معمول ناشتہ کرکے اپنے اوزار سنبھالے گاؤں سے بہت دور لکڑیاں جمع کرنے کی عرض سے پہاڑوں میں چلے گئے۔
یہ پہاڑ ان کے گاؤں سے گھنٹوں کی مسافت پہ تھے۔ یہاں 16 مارچ کی سہ پہر چار بجے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو ان کی زندگی کا سب سے تلخ واقعہ تھا۔
خان برف سے ڈھکے پہاڑوں میں چل رہے تھے کہ اچانک ایک پتھر ان کی ٹانگ میں آ لگا اور ایک ٹانگ ہلنے کے قابل نہ رہی۔
خوش قسمتی سے انہوں نے گاؤں میں رابطہ کر کے بتایا کہ ٹانگ پر پتھر لگنے سے وہ زخمی ہو گئے ہیں اور اگر انہیں جلدی نہ نکالا گیا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
گاؤں کے رواج کے مطابق اگر کسی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو سب گاؤں والے اکٹھے ہو کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں۔
اس لیے گاؤں والے خان کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوئے لیکن برف سے ڈھکے پہاڑوں پر چلنا آسان نہیں تھا اور اس کے لیے خاصی طاقت اور مہارت درکار ہے۔
خان کے پڑوسی اکرام اللہ بھی ان ریسکیو ٹیموں کا حصہ تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں راستے میں تھا اور سہہ پہر کے چار بج چکے تھے، خان کا فون آیا جن کی آواز میں خوف واضح تھا، میں سن کر سمجھا کہ خان گھر میں بیمار پڑے ہیں اور انہیں ہسپتال جانا ہے۔‘
’مگر جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہاڑ میں پھنس گئے ہیں اور پتھر لگنے سے ان کی ایک ٹانگ ناکارہ ہو گئی ہے۔‘
اکرام کے مطابق خان کا کہنا تھا کہ ’اگر لوگ مجھ تک پہنچ سکتے ہیں تو میں بچ جاؤں گا ورنہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔‘
اکرام بتاتے ہیں کہ اس کے بعد میں گاؤں پہنچا اور لوگوں کو بتایا کہ خان کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ پہاڑ پر پھنس چکے ہیں اور ان کی ٹانگ بھی زخمی ہے۔
اکرام نے بتایا کہ ’ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ پہاڑوں کے بارے میں سب کو معلومات نہیں ہوتیں لیکن ہم نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں خان پھنسے ہوئے تھے۔ شام کو جب ہمارے گاؤں کے لوگ ریسکیو کے لیے نکلے تو اس ٹیم میں پانچ بندے شامل تھے جن میں سے ایک طبی امداد دینے کا طریقہ جانتا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس فرد نے اپنے ساتھ درد کش گولیاں اور انجیکشن بھی رکھ لیے تھے تاکہ بروقت طبی امداد فراہم کی جا سکے لیکن یہ افراد رات کی تاریکی میں راستہ بھٹک گئے۔ ہمارے انداز کے مطابق انہیں رات 12 بجے کے قریب اس جگہ پہنچنا تھا لیکن وہ راستہ بھولنے کی وجہ سے صبح چار بجے مطلوبہ مقام تک پہنچے۔‘
’جس کے بعد خان کو محفوظ مقام پر منتقل کرتے ہوئے انہیں کھانا کھلایا گیا اور طبی امداد فراہم کی گئی۔‘
اکرام کے مطابق ’دوسری ٹیم جس میں آٹھ افراد تھے اور میں بھی اس شامل تھا، صبح پانچ بجے پہاڑی کی جانب روانہ ہوئے تاکہ خان کو پہاڑی سے نیچے اتارا جا سکے جو کسی چیلینج سے کم نہیں تھا۔‘
اکرام نے بتایا کہ طبی امداد دینے والے اس فرد کا نام محمد حسین ہے جو اسی گاؤں کے رہائشی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا سفر امتحان سے کم نہیں تھا لیکن بات ایک جان کو بچانے کی تھی جو ہمیں بچانی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو خان برف کے اوپر پڑے ہوئے تھے اور ان کی بائیں ٹانگ پتھر لگنے سے ٹوٹ چکی تھی۔ تھوڑی سے غلطی سے ان کی جان جا سکتی تھی کیوں کہ نیچے کافی گہری کھائی تھی۔‘
اکرام کے مطابق ’ہمیں کچھ لکڑیاں ملیں جنہیں ہم نے جلا کر خان کو گرمی فراہم کرنے کا سامان کیا اور صبح کا انتظار کرنے لگے۔‘
’صبج جب ہم واپسی کے لیے نکلے تو کئی گھنٹوں کا سفر کر کے ہم شام کو گھر پہنچے۔‘
اکرام ایوبی کے مطابق ’رات دس بجے جب خان کا موبائل بند ہوا اور جب 17 مارچ کی صبح چار بجے ہمارے گاؤں کے بندے وہاں پہنچے تو اس کی وجہ خان کی جانب سے موبائل کی لائٹ جلانا تھا جسے دیکھ کر گاؤں والے وہاں پہنچ سکے۔‘
اکرام کہتے ہیں کہ ’ہم نے جب خان کو بچایا تو ان کی کی خواہش تھی کہ انہیں سب سے پہلے ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے۔ جس پر ہم ان کو ہسپتال کے بجائے پہلے گھر لے گئے۔ خاندان سے ملانے کے بعد ان کو مقامی ہسپتال پہنچایا اور پھر ڈاکٹر کے ریفر کرنے پر اور ان کو ریسکیو کی ایمبولینس کے ذریعے پشاور پہنچایا۔‘
اکرام کا کہنا ہے کہ ’خان کو پشاور سے علاج کے بعد چترال منتقل کر دیا گیا ہے اور اب ان کی حالت قدرے بہتر ہے اور اپنے گھر میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہیں۔‘